افغانستان اور طالبان ہمارے لیے دردِ سر بنے ہوئے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ اِس دردِ سر میں اضافہ ہی ہو سکتا ہے‘ لیکن دشمنی ہماری ہندوستان سے ہے، عام بھی نہیں ازلی دشمنی۔ بیک وقت دو جنگیں یعنی افغانستان اور عراق میں امریکہ نہیں لڑ سکا۔ دو محاذوں پہ جرمن نہیں لڑ سکے۔ ہماری دفاعی پوزیشن دیکھئے کہ پورے ہندوستانی بارڈر پہ ہم نے مورچے سنبھالے ہوئے ہیں اور مغربی بارڈر یعنی افغانستان کے ساتھ بھی ہم باڑ لگا رہے ہیں۔ ایک محاذ ہمارے لئے سنبھالنا مشکل ہے لیکن دو سنبھالنے پڑ رہے ہیں۔
تاریخ سے اِتنے نا بلد ہم کیوں ہیں؟ ہزار سال سے برصغیر کے علاقوں کو خطرہ مغرب سے رہا ہے۔ تمام جنگجو وہاں سے آئے، سکندر اعظم، ترک، افغان اور امیر تیمور، سب کے سب نے ہندو کش کے پہاڑ عبور کئے اور ہندوستان میں داخل ہوئے۔ جن علاقوں پہ پاکستان مشتمل ہے اِن کو کبھی مشرق سے یعنی بھارت کے علاقوں سے خطرہ لاحق نہیں ہوا‘ لیکن ہماری دفاعی توپوں کا رخ مشرق کی طرف ہے کیونکہ ہمارے فیصلہ سازوں نے شروع دن سے اپنے آپ کو اِس بات پر قائل کر لیا تھا کہ ہندوستان کے عزائم خطرناک ہیں اور وہ ہمیں تباہ کرنا چاہتا ہے۔ ہندوستان پہ حملے مسلمانوں نے کئے۔ مسلمان بادشاہتیں آٹھ سو سال تک ہندوستان پہ قائم رہیں۔ ہندوستان کو تقسیم ہم نے کروایا اور برصغیر کی زمین پر ایک علیحدہ ریاست قائم کی‘ لیکن خوف کی چادر اوڑھ لی کہ ہندو پتا نہیں ہمارے ساتھ کیا کریں گے۔
ہم اپنے آپ کو بہادر سمجھتے تھے اور ہندوؤں کو بزدل۔ 1965ء کی جنگ تک ہم اِس بات پہ فخر کرتے تھے کہ ایک مسلمان دس ہندوؤں کے برابر ہے۔ 1947ء میں ہندوستان کی کل آبادی چالیس کروڑ تھی جس میں مسلمانوں کی آبادی دس کروڑ تھی‘ یعنی چار اور ایک کا تناسب تھا، ایک مسلمان کے مقابلے میں چار ہندو‘ لیکن تحریک پاکستان کی بنیاد اس خوف پر مبنی تھی کہ ہندوؤں کی اکثریت آئی تو مسلمان کچل دیئے جائیں گے۔ دس کروڑ کی آبادی کو باور کرایا گیا کہ علیحدہ ریاست نہ بنی تو مسلمان تباہ ہو جائیں گے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان اُن علاقوں پہ قائم ہوا جہاں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ اِن علاقوں میں تو ہندوؤں کے حوالے سے خوف کا سوال پیدا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ صوبہ سرحد میں پٹھان اکثریت میں تھے، بلوچستان میں بلوچ، سندھ میں سندھی مسلمان اور پنجاب اور بنگال میں مسلمان پنجابی اور بنگالی۔ خطرہ ہو سکتا تھا تو اُن مسلمانوں کو جو ہندوؤں کے مقابلے میں اقلیت میں تھے۔ اُن کو ہم نے ہندوستان میں ہی چھوڑ دیا اور ریاستی قلعہ وہاں بنا ڈالا جہاں کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہئے تھا۔ جب علیحدہ ریاستی قلعہ بن گیا تو ہم نے یہ ڈھول پیٹنا شروع کر دیا کہ اِس قلعے کو ہندوستان سے خطرہ ہے۔ نتیجتاً ہم ایک ایسی اسلحے کی دوڑ میں پڑ گئے جو ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ ایٹمی قوت بھی ہم بن گئے لیکن دل سے خوف نہ گیا۔ آنکھ بند کر کے کسی دفاعی تجزیہ کار پہ ہاتھ رکھیں تو وہ بڑبڑا اٹھے گا کہ ہمیں ہندوستان سے خطرہ ہے۔ بنگلہ دیش کے رہنے والے اکثریت میں مسلمان ہیں۔ اُن کو ہندوستان سے کوئی ڈر نہیں، ہمارے یہاں کے باسیوں کو مگر ہندوستان سے ڈر لگا رہتا ہے۔ بائیس کروڑ یا کہیں اِس سے زیادہ ہماری آبادی ہو چکی ہے لیکن ساری قوم کو جو سبق پڑھایا جاتا ہے وہ ہندوستان دشمنی کا ہے۔ فاتح ہم رہے، دہلی، متحدہ بنگال اور جنوبی ہندوستان پہ راج ہمارا رہا لیکن خوف کا سبق ہم نے سیکھا۔
کشمیر کا مسئلہ ضرور ہے لیکن یہ مسئلہ بھی ہماری کم ہمتی کا شاخسانہ ہے۔ اگست 1947ء سے اکتوبر 1947ء تک جب تک مہاراجہ کشمیر نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ نہیں کیا تھا پوری ریاست کشمیر بے سروسامانی کے عالم میں نہتا پڑی ہوئی تھی۔ فوج کی دو بٹالینیں سرینگر پر قبضہ کر سکتی تھیں لیکن اِس طرف نہ سوچ گئی نہ ہمت۔ آج جو ہم نے کشمیر کو اتنا بڑا مسئلہ بنایا ہوا ہے‘ اگست 1947ء سے پہلے تقاریر وغیرہ میں ہمیں شاذ ہی کشمیر کا ذکر ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جناح صاحب نے جنرل گریسی کو فوجی پیش قدمی کا حکم دیا تھا اور اُس نے انکار کر دیا۔ انکار کیا تو اُسے فوراً ڈِسمس کیوں نہ کیا گیا؟ ہمارے قبائلیوں پہ کیا گلہ، وہ تو فوجی ڈسپلن کے تابع نہ تھے۔ بارہ مولہ میں جو لوٹ مار میں لگ گئے تو انہوں نے ایسا غلط بھی نہ کیا کیونکہ لوٹ مار قبائلیوں کی پرانی روایت ہے۔ سویلین کپڑوں میں سہی دو بٹالین فوج کی ہوتیں تو سرینگر ہمارا ہوتا۔ بڑا راستہ سرینگر کو یہاں سے جاتا تھا، سڑک خالی تھی اور ہندوستانی فوجی ابھی تک سرینگر نہ آئے تھے‘ لیکن جنرل گریسی کی طرف دیکھتے رہے۔ اُس نے ہمارا کہا ماننا تھا یا کمانڈر ان چیف ہند جنرل آکن لک کا؟ موقع ہاتھ سے گیا تو اب رونا کیا۔
وزیر اعظم ہند پنڈت جواہر لال نہرو نے مہربانی کی اور آئین ہندوستان میں آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کی ایک جداگانہ حیثیت قائم کر دی۔ ہم نے کہا کہ یہ ایک ڈھکوسلا ہے اور دنیا کو بے وقوف بنانے کی ایک کوشش۔ یعنی آئینِ ہندوستان کے آرٹیکل 370 کی افادیت کو ہم نے نہ مانا۔ آج جب نریندر مودی کی حکومت نے آرٹیکل 370 کو ختم کیا ہے تو ہم واویلا کر رہے ہیں کہ اِس آرٹیکل کو واپس لایا جائے‘ اور نریندر مودی کے اقدام کے خلاف پنڈت نہرو کی تقریروں کا حوالہ دے رہے ہیں۔ یہ ہماری سوچ کا معیار ہے۔
کسی ریاست کو دفاع وطن سے غافل نہیں رہنا چاہئے لیکن دنیا میں کوئی ایک ریاست بھی نہیں جو کسی دوسری ریاست کے بارے میں ازلی دشمن کی اصطلاح استعمال کرے۔ روس اور امریکہ نے یہ اصطلاح کبھی استعمال نہیں کی۔ امریکہ اور چین میں برتری کا سخت مقابلہ جاری ہے لیکن وہ ایک دوسرے کو دشمن نہیں کہتے۔ ایران کا معاملہ ذرا مختلف ہے، امریکہ کو بڑے شیطان کے نام سے پکارا جاتا ہے‘ لیکن ایران کی تاریخ مختلف ہے اور امریکی مداخلت نے حالیہ ایرانی تاریخ پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ نقشہ ہندوستان کا ہم نے تبدیل کیا۔ تقسیمِ ہند کے محرک ہم رہے۔ بڑی آبادی ہے، بڑی فوج ہے، ایٹم بم بھی ہے۔ ہمیں ڈر کس چیز کا ہونا چاہئے؟ ہندوستان نے ہمارا کیا بگاڑا ہے؟ بگاڑ ہے تو ہم نے خود کیا ہے۔ جن قرضوں کے پہاڑ تلے ہم دبے ہیں کیا وہ ہندوستان نے کھڑا کیا ہے؟ نالائقی اگر حکمرانوں کی ہے تو کیا وہ ہندوستان کی تیار کردہ ہے؟ یہاں کی لوٹ مار کی داستانیں ہندوستان میں تو رقم نہیں ہوئیں۔
لہٰذا سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ کون کہہ رہا ہے کہ ہم دل پھینک ہو جائیں؟ لیکن یہ دشمنی کی رٹ تو بدلی جائے۔ تجارت کے دروازے کھلنے چاہئیں، لوگوں کا آنا جانا ہو۔ ہمارے ٹینک رہیں گے، لڑاکا طیارے رہیں گے ایٹم بم بھی ہو گا لیکن کشمیر کے پہاڑوں سے لے کر بحیرہ عرب کے پانیوں تک بارڈر تو نرم ہوں۔ سندھ کے لوگ راجستھان جا سکیں، لاہور والے بہ آسانی امرتسر جا سکیں اور وہاں کے لوگ گھومنے پھرنے یہاں آئیں‘ لیکن فرسودہ اور زنگ آلود سوچ کون بدلے گا؟