"AYA" (space) message & send to 7575

اسلام آباد ہائیکورٹ، کمال کے فیصلے

ہاتھ روک کے کمال کے فیصلے لکھا ہے حالانکہ یہ تاریخ ساز فیصلے ہیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ مارگلہ پہاڑوں میں بنے ہوئے ریستوران کا ایک دن جنازہ نکل جائے گا۔ سارے شہر کو وہ ریستوران نظر آتا تھا‘ سی ڈی اے کی آنکھوں سے اوجھل تھا۔ مارگلہ نیشنل پارک میں ایسے کسی ریستوران کے بننے کا قطعاً کوئی جواز نہ تھا لیکن یہاں کیا قانون اور کیا قانون پہ عمل داری۔ طاقتور لوگ تھے ریستوران بنا دیا اور وقت کے گزرنے کے ساتھ یہ ریستوران پھیلتا گیا۔ کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ مسئلہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے آیا تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے تمام قوانین کی چھان بین کر کے فیصلہ سنایا کہ ریستوران ہٹایا جائے اور پارک کی زمین پارک کو واپس کی جائے۔
یہ لوگ اِتنے با اثر تھے کہ انہوں نے ایک ڈھکوسلا چلایا کہ زمین دفاعی اداروں کی ہے اور اُن کو یہ کرایہ بھی جمع کراتے رہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا فیصلہ ہے کہ یہ زمین پارک میں آتی ہے اور کسی ادارے کی نہیں۔ سوچئے تو سہی، فیصلے یہاں کبھی اداروں اور محکموں کے خلاف آتے تھے؟ یہاں تو طاقتور لوگوں یا محکموں کی جو مرضی ہوتی ایسا ہی کرتے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا۔ میری کمزور یادداشت میں یہ پہلے مواقع ہیں کہ طاقتور محکموں کے خلاف نہ صرف آرڈر آئے ہیں بلکہ اُن پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے۔ کاش یہ ہمت پاکستانی تاریخ کے اوائل کے دنوں سے دکھائی جاتی تو اِس ملک کی تاریخ مختلف ہوتی۔ خود سر گورنر جنرل غلام محمد نے پہلی قانون ساز اسمبلی برخاست کی تو سپیکر مولوی تمیزالدین احمد نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا جس نے گورنر جنرل کے اقدام کو کالعدم قرار دیا۔ حکومت اپیل میں فیڈرل کورٹ گئی اور تب کے چیف جسٹس نے جواز تراشا جسے نام 'نظریۂ ضرورت‘ کا دیا گیا۔ اِس خود تراشے جواز کے تحت گورنر جنرل کے اقدام کو جائز قرار دیا گیا۔ کاش چیف جسٹس منیر کی جگہ جسٹس اطہر من اللہ جیسا کوئی دُھن کا پکا ہوتا اور گورنر جنرل کے کالے اقدام کو کالعدم ہی رہنے دیتا۔ شاید مارشل لائوں کی راہ رک جاتی‘ لیکن تب کے فیڈرل کورٹ کے جج مصلحت پسند تھے، مصلحت ایسی دکھائی کہ نظریہ ضرورت ہر چیز پہ حاوی ہو گیا۔ پھر جو بھی شہسوار آیا اُس نے چیف جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کا سہارا لیا‘ اور شریف الدین پیرزادہ اور اے کے بروہی جیسے نامور قانون دانوں نے 'نظریہ ضرورت‘ کے تحت ایسے ایسے بہانے تراشے کہ اُنہیں پڑھ کر انسان کا دماغ گھوم جاتا ہے۔
یہ تو ایک ریستوران کا ذکر تھا، جسٹس اطہر من اللہ نے ایک اور پٹیشن میں اُس سیلنگ کلب کی بھی باز پرس کی ہے جو قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے راول جھیل کے کنارے بنایا گیا تھا۔ سی ڈی اے کو حکم ملا ہے کہ کلب کو مسمار کیا جائے اور زمین واپس لی جائے۔ ایسے محکموں پہ کون ہاتھ ڈالتا تھا؟ پاکستان کی جو تاریخ رہی ہے اُس کے تناظر میں تصور کرنا مشکل تھا کہ اِن محکموں کو قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر آڑے ہاتھوں لیا جا سکتا ہے‘ لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ اور اُس کے چیف جسٹس نے ایسا کیا ہے اور پوری قوم کو اُن کا شکر گزار ہونا چاہئے کیونکہ اِن فیصلوں سے 74 سال بعد ایک نئی روایت کی بنیاد ڈالی جا رہی ہے کہ قانون کاغذ کا شیر نہیں اور اس کے سامنے سب تابع ہیں بشمول طاقتور محکمے۔
مملکت کو ایسی عجیب لَت لگی ہے کہ ہر محکمہ زمین، پلاٹوں اور فارم ہاؤسوں کے کاروبار میں دلچسپی رکھنے لگا ہے۔ جس محکمے کا سیلنگ کلب ختم کیا جا رہا ہے اُسی محکمے نے فارم ہاؤسوں کے نام پر بھی ایک ہنگامہ کھڑا کیا ہوا تھا۔
اِس مقصد کیلئے زمین ہتھیانے کا عمل خلافِ قوانین تھا۔ مسئلہ چیف جسٹس اطہر من اللہ کے سامنے آیا تو اُنہوں نے ساری کارروائی کو کالعدم قرار دے دیا۔ مارے گئے وہ جنہوں نے سکیم میں پیسہ لگایا ہو گا لیکن مزہ تب آئے کہ جن افسران کے تحت یہ سکیم شروع کی گئی‘ اُن کی باز پرس کی جائے۔ اپنا کام ہوتا نہیں ، اپنی ذمہ داریوں سے غافل، لیکن ملک میں فضا ایسی بن چکی ہے کہ ہرطرف ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور پلاٹوں کا کاروبار جاری و ساری ہے۔ لگتا تو یوں ہے کہ اِس ملک میں اور کوئی بزنس یا کاروبار ہے ہی نہیں سوائے پلاٹوں کے سودوں کے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اِن فیصلوں کے بعد شاید مختلف محکمے احتیاط سے کام لینا شروع کر دیں۔ کم از کم اِتنی من مانی تو نہ ہو گی جتنی کہ ہوتی رہی ہے کیونکہ ایک تو قانون نام کی چیز دور دور سے کہیں نظر نہیں آتی تھی اور دوئم یہاں قانون کی پروا طاقتور لوگوں اور محکموں کو کب سے رہی ہے؟
ایک اور پٹیشن کے حوالے سے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اِس امر کی چھان بین کی کہ ایک فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ سوسائٹی قائم ہے جس نے حال ہی میں رہائشی پلاٹ یوں بانٹے کہ سوسائٹی کے تمام عہدے داروں کو پلاٹ مل گئے۔ عرصہ دراز سے ایسا چلتا رہا ہے اور اب کہیں جا کے اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے اِس تماشے میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ایک اور فیصلے میں یہ بھی حکم دیا ہے کہ پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیاں کسی حکومتی ادارے کا نام استعمال نہیں کر سکتیں۔ اِس آرڈر کے تحت سی ڈی اے کی آنکھیں اب کھلی ہیں اور اُس کی طرف سے اِن تمام سوسائٹیوں کو خبردار کیا جا رہا ہے جو سرکاری محکموں کا نام استعمال کرتی آئی ہیں۔ موٹروے سے گزریں تو اسلام آباد کے قریب ایک بڑا سا بورڈ آویزاں تھا جس پہ سپریم کورٹ ایمپلائز ہاؤسنگ سوسائٹی درج تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے آرڈر کے تحت سپریم کورٹ کا نام اِس طرح استعمال نہیں ہو سکے گا۔
اِس روداد کو بیان کرتے وقت یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ یہ تمام فیصلے اور اِن جیسے اور فیصلے کسی جلد بازی میں نہیں کئے گئے۔ تمام کے تمام فیصلے مکمل غور و خوض کے بعد آئے ہیں۔ قوانین کو پڑھا گیا ہے اُنہیں پرکھا گیا ہے، محکموں کا مؤقف بھی تفصیلاً سنا گیا اور اِس سارے عمل کے بعد ہی فیصلے آئے ہیں۔ بنیادی نکتہ اِس روداد سے یہ نکلتا ہے کہ ہمارے ہاں قوانین موجود ہیں، بیماری یہ ہے کہ اِن سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے اور پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ تمام ادارے اسلام آباد ہائیکورٹ کی مثال سامنے رکھیں اور اُس پہ عمل درآمد کریں تو پاکستان وہ نہ رہے جو نظر آتا ہے۔ ملک کا ماحول تبدیل ہو جائے۔ قانون کی حکمرانی کہنا تو آسان ہے لیکن ہمارے ملک میں کہاں رہی ہے؟ لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ، اُس کے چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان یہ ثابت کر رہے ہیں کہ قانون کی حکمرانی قائم کی جا سکتی ہے اور کوئی کرے تو آگے سے توپیں نہیں چلتیں‘ کیونکہ فیصلے قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔ بات تو قانون اور دلیل کی ہے اور جب آپ کے پاس دلیل نہ رہے تو مضبوط پاؤں کمزور پڑ جاتے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ اور اُس کے چیف جسٹس قوم کی ستائش کے حق دار ہیں۔ اُن کا عزم مزید مضبوط ہو، اُن کا جذبہ مزید بڑھے۔ قوم کو اِسی جذبے کی ضرورت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں