مستقل افسردگی کا لحاف اوڑھنا اچھی بات نہیں لیکن ہمارے معاشرے میں ڈپریشن کا سامان بہت پیدا ہو چکا ہے۔ کئی بظاہر چھوٹی خبریں ہوتی ہیں لیکن اُن کی گونج دور تک رہتی ہے۔ اگلے روز کی خبر ہے کہ کسی شہر میں ایک خاتون کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ شکایت کرنے والا اُس کا آشنا تھا اور شکایت یہ تھی کہ خاتون نے اُسے فون پہ ایسے پیغامات بھیجے جو توہین کے ضمن میں آتے ہیں۔ دل پہ یہ خبر بھاری گزری۔ کسی آشنا اور خاتون کا تعلق ہو تو اِس میں ہزار چیزیں نکل سکتی ہیں، پیارسے لے کر رقابت تک۔
آٹھ سو سال مسلمانوں نے ہندوستان پہ حکومت کی۔ اِس قسم کے قوانین کی ضرورت اِن آٹھ سو سالوں میں محسوس نہ کی گئی۔ جناح صاحب اور اُن کے بعد آنے والے حاکموں کے ادوار میں بھی‘ لیکن بہت کچھ اِس ملک کے ساتھ جنرل ضیاء الحق نے کیا تاہم اُن کو کوسنا فضول کی مشق ہے کیونکہ اُنہیں گئے تینتیس چونتیس برس ہو چکے ہیں۔ اِس عرصے میں اُن کے لائے گئے قوانین تبدیل کئے جا سکتے تھے۔ کتنی حکومتیں آئیں ، کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ اُن کے قوانین کو ہاتھ لگائیں۔ جنرل پرویز مشرف سفید و سیاہ کے مالک تھے اور اپنے آپ کو بڑا روشن خیال سمجھتے تھے، اُن میں بھی یہ ہمت نہ آئی۔
لہٰذا کس کس چیز کو روئیں؟ اندھیرا صرف لوڈ شیڈنگ سے پیدا نہیں ہوتا۔ ایک اندھیرا ذہنوں کا ہوتا ہے اور وہ کسی بجلی سے دور نہیں ہوتا۔ ایسا اندھیرا ہم پہ طاری ہے اور کہیں سے یہ امید نہیں ملتی کہ اِس اندھیرے کو کوئی دور کرسکے گا۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اتا ترک کی زندگی کے حالات ہمارے سکول کالجوں میں پڑھائے جائیں لیکن پاکستانی قوم کو اُن کے بارے میں ضرور جانکاری ہونی چاہئے۔ ہمت والے انسان تو وہ تھے۔ میدانِ جنگ میں نام کمایا وہ تو الگ بات ہے لیکن جب ترکی کی تعمیر و ترقی کی طرف گئے تو ایسے ایسے اقدامات کئے کہ بیشتر پاکستانی پڑھیں تو اُنہیں یقین نہ آئے یا کفر کا فتویٰ دے ماریں۔ اتا ترک وہیں پیدا ہو سکتے تھے، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری مٹی کسی اتا ترک کے جنم لینے کے لیے اِتنی زرخیز نہیں۔ یہاں کوئی اتا ترک نہیں آ سکتا حالانکہ پاکستان کو کسی حکیم کی ضرورت ہے تو وہ مصطفیٰ کمال پاشا جیسا کوئی انسان ہے۔
یہ جو حالیہ دنوں میں اِکا دکا دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں کچھ ڈپریشن اِن کی وجہ سے ہے۔ اِس لئے نہیں کہ انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، دہشت گردی ہو تو نقصان ہوتا ہے، لیکن اِس وجہ سے کہ افغانستان کی طرف سے آئی دہشت گردی کو ہم اب تک سمجھنے سے انکار کرتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کا تو اور قسم کا ذہن تھا۔ اُن کے بارے میں اِس حوالے سے کیا کہنا لیکن بحیثیت مجموعی ہم پاکستانی نہیں سمجھ سکے کہ پاکستان کے مفاد میں ایک مذہبی قسم کی افغان حکومت نہیں۔ ہمیشہ سے ہمارے مفاد میں افغانستان میں ایک سیکولر لبرل قسم کی حکومت رہی ہے لیکن ہر سیکولر افغان حکومت کی ہم نے مخالفت کی۔ ایسا کرتے ہوئے ہم یہ بھول گئے کہ افغانستان میں تنگ نظری کے قیام سے پاکستان پہ اثر پڑنا لازم ہے۔ پاکستان کا بنیادی مسئلہ کچھ اور نہیں سوچ کی تنگ نظری ہے۔ جو جتھے یہاں سے افغانستان گئے، جو اسلحہ یہاں سے وہاں گیا، ان کارروائیوں سے افغان تنگ نظری کو فروغ ملا۔ اور افغان تنگ نظری کی وجہ سے یہاں تنگ نظری کو فروغ ملا۔ افغانستان میں مجاہدین یا طالبان حکومت کا قیام ہمارے مفاد میں کبھی نہیں رہا۔ ہمارے مفاد میں یہ تھا کہ شاہ ظاہر شاہ کی بادشاہت وہاں قائم رہتی۔ اُس کا تو ہم کچھ کر نہیں سکتے تھے کیونکہ یہ افغانوں کا اپنا اندرونی معاملہ تھا لیکن جب 1978ء میں سردار داؤد کے خلاف بغاوت ہوئی اور نور محمد تراکئی اور اُن کے خلق پارٹی کے ساتھی اقتدار میں آئے‘ ہمارا مفاد یہ تھا کہ وہ کمیونسٹ حکومت اقتدار میں قائم رہتی۔ وہ ہمارے فائدے کی بات تھی‘ لیکن ضیاء الحق کے دور میں ایسی بات کرنا کفر کے اظہار کے مترادف تھا۔ آخری کمیونسٹ حکمران نجیب اللہ تھا، وہ رہتا تو ہمارے لئے اچھا تھا‘ لیکن افغانستان کی رجعت پسند قوتوں سے مل کر ہم نے اُن حکمرانوں کو برباد کرنے کی ہرکوشش کی اور اِس میں ہم کامیاب رہے۔ لیکن ہمیں ملا کیا؟ کون سا مفاد ہمارا پورا ہوا؟ کوئی ہمارے عاملوں سے پوچھے تو سہی کہ ہماری افغان پالیسی سے ہمیں حاصل کیا ہوا؟
آج پاکستان کو خطرہ بھارت سے نہیں۔ بھارت کے لیے ہمارے ٹینک اور لڑاکا طیارے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ہما را ایٹم بم بھی بھارت کے لیے ہے۔ خطرہ کسی اور جانب سے ہے۔ افغان تنگ نظری اور پاکستانی تنگ نظری کا میلاپ ایک قدرتی امر ہے۔ آج بھی ہے اور کل زیادہ مضبوط ہو جائے گا۔ کتنی مغربی سرحد کی جنگیں ہم نے لڑنی ہیں؟ جب تحریک طالبان پاکستان نے اپنے پنجے پہلے قبائلی علاقوں میں گاڑے تھے تب افغانستان میں امریکی فوج تھی۔ یعنی طالبان پہ امریکی پریشر تھا۔ اب تو وہ پریشر ختم ہو چکا ہے۔ ٹی ٹی پی یہاں کچھ کرے افغان سرزمین پہ اُس کے محفوظ ٹھکانے موجود ہوں گے۔ ہم چلے تھے افغانستان میں سٹریٹیجک گہرائی حاصل کرنے ہندوستان کے خلاف۔ ہو کچھ یوں گیا ہے کہ افغانستان میں سٹریٹیجک گہرائی ہمارے خلاف بن رہی ہے۔ چالیس سالہ افغان پالیسی کا شاخسانہ یہ ہے۔
ہر شام ڈپریشن طاری ہوتی ہے جب خیال اُٹھتا ہے کہ یہاں ہم پہنچے کیسے۔ ایک بات ذہن میں رہے کہ پاکستان کا کاروان راستے سے بھٹکا نہیں۔ یہی راستہ تھا جو ہوش و حواس میں ہم نے چنا تھا۔ افکارِ قائد سے ہم نے کوئی بغاوت نہیں کی۔ یہ ملک اِس بنیاد پہ معرض وجود میں آیا کہ ہندو اور ہیں اور ہم اور یعنی مسلم علیحدگی پسندی اِس ملک کی بنیاد بنی اور جب بنیاد یہ تھی تو عمارت نے اِسی پہ کھڑا ہونا تھا۔ جو کچھ پاکستانی تاریخ میں ہوا جو کچھ ہو رہا ہے اُس کی ایک منطق ہے اور یہ منطق پاکستان کی بنیادوں سے جا ملتی ہے۔ جناح صاحب کا یہ کہنا کہ تم آزاد ہو، جاؤ اپنے مندروں میں جاؤ مسجدوں میں مذہب کا کوئی لینا دینا ریاست کے کاروبار سے نہیں۔ ہم جیسے لوگ اِس تقریر کا حوالہ دیتے تھکتے نہیں لیکن اِس تقریر میں جو تھا وہ تو سب کچھ ہونے کے بعد ایک after-thought تھا جس کا کوئی رشتہ تحریکِ پاکستان کی منطق سے نہیں بنتا۔
بھٹو صاحب نے بہت بعد میں کہا تھا 'اِدھر ہم اُدھر تم‘۔ یہ الفاظ اُن کے نہیں تھے لیکن استادِ محترم عباس اطہر نے یہ سرخی بنا ڈالی تھی البتہ بھٹو صاحب کا مفہوم یہی تھا کہ تم اپنے راستے جاؤ ہم اپنے راستے جائیں گے۔ تحریک پاکستان کا مفہوم بھی یہی تھا کہ ہر چیز میں ہم آپ سے مختلف ہیں۔ ہمارے رواج مختلف ہمارا کلچر مختلف حالانکہ یہ استدلال اتنا درست بھی نہیں۔ بہت سی چیزیں ہم میں مشترک ہیں لیکن یہ ایک اور کہانی ہے۔