یقین نہیں آ رہا کہ ایسا فیصلہ پاکستان میں لکھا جا سکتا ہے۔ کچھ تو فیصلے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ہیں جہاں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بہتوں کو ہلا کے رکھ دیا ہے اور اُن بہتوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں‘ لیکن چونکہ جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جا رہی ہے‘ اُن پہ مزید کوئی تبصرہ مناسب نہ ہو گا لیکن جسٹس شاہد کریم کا راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بارے میں جو مفصل فیصلہ آیا ہے وہ بھی فیصلہ ساز کیا تاریخ ساز ہے۔ ایک تو جسٹس شاہد کریم نے اُس انگریز زمانے کے قانون لینڈ ایکوائزیشن ایکٹ 1894ء کے سیکشن 4 کو لتاڑا ہے جس کی بنیاد پہ پوری تاریخ پاکستان میں بے بسوں اور لاچاروں کے ساتھ زیادتی ہوتی آ رہی ہے۔ یہ سیکشن کہتا ہے کہ مفادِ عامہ میں پرائیویٹ زمین کا استعمال سرکار کر سکتی ہے۔ انگریز حاکم تھے، سب کچھ کر سکتے تھے لیکن اِس قانون اور اِس قانون کے سیکشن 4 کو وہ تبھی استعمال کرتے جب کوئی بہت لازمی صورت حال پیدا ہوتی۔
اُسترا البتہ جب بندروں کے ہاتھ آیا تو اُنہوں نے ذاتی خواہشات اور ذاتی مفادات کو مفادِ عامہ کا لبادہ چڑھا دیا۔ زمین حاصل کرنی ہے کسی رہائشی منصوبے کے لئے اُسے بھی مفادِ عامہ کا نام دیا گیا۔ ستم یہ کہ جب ایسے معاملات عدالتوں میں جاتے یا تو فیصلے لٹکائے جاتے یا بات سنی ہی نہ جاتی۔ یعنی سیکشن 4 ایک ایسا پستول رہا ہے جس کے سامنے معاشرے کے کمزور طبقات اکثر بے بس ہی نظر آتے۔ جسٹس شاہد کریم نے اِس خطرناک معاملے کو سلجھانے کے لیے یہ حکم سنایا ہے کہ سیکشن 4 کے عمل کو بروئے کار لانے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی قانونی فریم ورک بنے یعنی کوئی قواعد و ضوابط ہوں جن کے تحت اِس سیکشن کا استعمال ہو۔ اِس لیے پنجاب حکومت کو یہ حکم بھی آیا ہے کہ فوری طور پہ ایسا قانونی فریم ورک بنایا جائے، جس کا مطلب یہ ہے کہ قانونی فریم ورک نہ بنے تو اِس سیکشن کا اطلاق نہیں ہو سکے گا۔ پاکستانی حالات کے تناظر میں یہ ایک انقلابی فیصلہ ہے اور میرے بس میں ہو تو جسٹس شاہد کریم کے سامنے جھکوں اور اُنہیں سلیوٹ کروں۔
دوسرا اُنہوں نے فیصلے میں یہ لکھا ہے کہ پنجاب حکومت یہ تاثر پھیلا رہی تھی کہ یہ منصوبہ دریائے راوی کے پانی کے وسائل کو ڈویلپ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے حالانکہ منصوبے کا تعلق اِتنا پانی سے نہیں جتنا کمرشل ڈویلپمنٹ سے ہے اور پاکستان میں شہری، اربن یا کمرشل ڈویلپمنٹ کا مطلب پلازے، شاپنگ مال، لگژری ہائی رائز بلڈنگیں اور سینما پلیکس کھڑا کرنا ہے۔ یعنی جتنی بے ہودگی اور جہالت ہم اپنے شہروں میں دیکھ سکتے ہیں اُنہی کی ترویج کو ہم کمرشل ڈویلپمنٹ کہتے ہیں۔ جسٹس شاہد کریم نے لکھا ہے کہ پانی کے وسائل کو ڈویلپ کرنا ہوتا تو صرف اُسی ایک مقصد کیلئے اتھارٹی بنائی جاتی لیکن اِس منصوبے میں قیمتی زرعی اراضی پلازوں کو کھڑے کرنے کے لیے حاصل کی گئی ہے۔ حاصل کرتے ہوئے قانونی تقاضے بھی پورے نہیں کئے گئے۔ ماحولیاتی امپیکٹ اسیسمنٹ بس ایروں غیروں سے کروائی گئی اور زمین حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔
جسٹس شاہد کریم کہتے ہیں کہ جہاں ہمارے ہاں غذائی قلت موجود ہے اور غذائی قلت کا خطرہ بڑھ رہا ہے وہاں فوڈ سکیورٹی کا معاملہ قومی سلامتی کا حصہ بنتا ہے۔ لہٰذا زرعی اراضی کے ہتھیانے کا سلسلہ بے دریغ نہیں رکھا جا سکتا اور اِس عمل پہ قانونی ضابطوں کا کنٹرول ضروری اور لازم ہے۔
بھلا ہو جسٹس صاحب کا کہ اُنہوں نے اپنے فیصلے میں یہ باتیں کہی ہیں‘ نہیں تو ہم جیسے کب سے ایسی باتیں کہتے آئے ہیں لیکن کوئی اثر لینے والا نہیں ہوتا تھا۔ ہماری حکومتیں تو سمجھیں کہ گونگی اور بہری ہیں۔ حکومتوں کی سوچ اور سمجھ میں ایسی باتوں کی کوئی جگہ نہیں۔ سردار عثمان بزدار نے کیا کرنا تھا، وہ تو جناب وزیر اعظم کے ہِز ماسٹرز وائس ہیں۔ یہ پسندیدہ منصوبہ وزیر اعظم کا تھا۔ جو نکات جسٹس شاہد کریم نے اٹھائے ہیں اُن سے عثمان بزدار کیا دلچسپی رکھ سکتے ہیں؟ اُنہیں آسمانوں سے موقع ملا ہے یا کسی خانقاہ کے طفیل چیف منسٹر پنجاب بن گئے ہیں۔ ایسا اُنہوں نے کبھی خوابوں میں بھی سوچا نہ ہو گا۔ وہ اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں اور اِس ضمن میں داستانیں بہت ہیں جو سنی جا سکتی ہیں۔ جہاں تک وزیر اعظم کا تعلق ہے ایسے معاملات کے بارے میں اُن کی سمجھ بھی واجبی ہے۔ اور یہ بات افسوسناک ہے کیونکہ ہم جیسے اِس حسن ظن میں مبتلا تھے کہ کم از کم ماحولیات کے حوالے سے وہ نہ صرف صحیح سمت چلیں گے بلکہ سخت اقدامات سے گریز نہیں کریں گے لیکن اِس ضمن میں انہوں نے مایوس ہی کیا ہے۔ پتا نہیں انہیں یہ راوی اربن والی پٹی کس نے پڑھائی تھی۔ باتیں کیا کرتے ہیں اور عمل اُن کا کیسا ہے۔ لیکن شکر کرنا چاہئے کہ جسٹس شاہد کریم جیسے جج بھی ہیں۔ مذاق کا پہلو البتہ یہ ہے کہ سردار عثمان بزدار نے فیصلہ پڑھا نہ ہو گا اور کوئی پڑھ کے سنا بھی دے تو بہت سی چیزیں شاید وہ سمجھ نہ سکیں۔ وزیر اعظم کو اُنہوں نے یہی کہنا ہے کہ دیکھ لیں ہمارے ہر اچھے کام میں عدلیہ روڑے اٹکا رہی ہے۔ عدلیہ نہ ہوتی تو پتا نہیں ترقی کی کن منزلوں کو ہم نے طے کر لیا ہوتا۔
ہماری عمریں گزری ہیں پرانی عدلیہ کے کام کو دیکھتے۔ ذہن میں لفظ کچھ اور آ رہا تھا لیکن عدلیہ کی عزت بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ پھر بھی اِن نوجوان ججوں کو دیکھ کے دل خوش ہوتا ہے کہ سب کچھ اندھیرا نہیں اب بھی امید باقی ہے۔ جو ادوار ہم دیکھ چکے ہیں اُن میں جسٹس اطہر من اللہ جیسے جج کے فیصلے نہیں آ سکتے تھے۔ نہ صرف یہ کہ وہ ناممکن ہوتے‘ ناقابل تصور ہوتے۔ اور یہ جو جسٹس شاہد کریم کا فیصلہ ہے جتنا اسے سراہا جائے کم ہے۔ وکلا صاحبان اور وکلا تنظیموں کے بارے میں کیا کہا جائے۔ وہ تو دیگر معاملات میں لگے رہتے ہیں۔ سیاست سیاستدانوں کا کام ہوتا تھا لیکن اب سیاست کوئی وکلا سے سیکھے۔ احساس ہو تو لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سے لے کر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن تک سب اِس فیصلے کو سراہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہمارے دوست جناب احسن بھون ایسے کاموں میں اپنا وقت ضائع کریں جو اُن کی نظروں میں یقینا فضول کے کام ہوں گے۔
پانچ چھ دن بیمار رہا اور ایسا بیمار کہ کمزور دل کو موت کی وادی نظر آنے لگی۔ علالت کی وجہ سے پچھلا کالم بھی نہ لکھا گیا لیکن صبح اخبار میں جسٹس شاہد کریم کا فیصلہ پڑھا تو یوں سمجھئے کہ دل میں نئی جان آ گئی۔ بربادی بہت ہم نے اپنی کر لی ہے۔ یہ جو ہمارے نام نہاد فیصلہ ساز ہوتے ہیں اِن کی عقلوں کو تو زنگ لگا ہوا ہے اور ان سے کسی قسم کی امید بے جا ہے‘ لیکن جہاں نکموں کے ریوڑ کے ریوڑ ہوں وہاں اچھے اور ذہین لوگ بھی پیدا ہوتے ہیں۔ خدا اِن کے ہاتھ مضبوط کرے۔ دلیرانہ کام ہوں تو ناامیدی کے سائے بکھر جاتے ہیں۔