ہم نے کہا ہے کہ جو حملے نوشکی اور پنجگور میں ہوئے ہیں اُن کے پیچھے بھارت اور کچھ نامعلوم افغان عناصر کا ہاتھ ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو یہ بڑی خطرناک بات ہے۔ پہلے بھی ہم یہی کہتے تھے کہ افغانستان میں جو بھارتی قونصل خانے ہیں وہاں سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کروائی جاتی ہے۔ موردِ الزام ہم بھارت اور تب کی افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس کو ٹھہراتے تھے۔ افغانستان میں طالبان کی فتح کے بعد بھارت نے اپنے قونصل خانے عارضی طور پہ بند کر دیئے ہیں۔ تو اگر دہشت گردی کے تار بھارت کے ایما پر ہلائے جا رہے ہیں تو یہ عمل کیونکر اور کہاں سے ہو رہا ہے؟ اگر بھارتی قونصل خانے بند ہیں تو بھارتی خفیہ ایجنسی 'را‘ کہاں سے آپریٹ کر رہی ہے؟ ہم تو سمجھتے تھے کہ طالبان کی فتح کے بعد بھارتی اثر و رسوخ افغانستان میں بہت حد تک ختم ہو جائے گا‘ لیکن اگر نوشکی اور پنجگور جیسے خطرناک حملوں کے پیچھے بھارتی ہاتھ ہیں تو ہمارے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
ایک بات یاد رہے، کوئی بھی خفیہ ہاتھ ہو مقامی سپورٹ کے بغیر کچھ زیادہ نہیں کر سکتا۔ مقامی سپورٹ ہو تب ہی کوئی باہر سے آ کے بد امنی پھیلا سکتا ہے۔ بلوچستان کے حالیہ واقعات بتاتے ہیں کہ دہشت گردی کے پیچھے طاقت ور عوامل ہیں۔ اِن کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اِن عوامل سے کس طریقے سے نمٹنا چاہئے۔ بندوق کا جواب تو بندوق سے ہوتا ہے، ا ِس میں کوئی دو رائے نہیں۔ لیکن جہاں ہم نے تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا ایک عمل شروع کیا تھا، بے شک اُس سے کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا ہو، لیکن بات چیت کی کوشش تو کی گئی تھی۔ اِسی طریقے سے دیکھنا چاہئے کہ جو عناصر بلوچستان کی شورش کے پیچھے ہیں اُن سے کسی سیاسی عمل کا آغاز ہو سکتا ہے یا نہیں؟
ماضی میں تھوڑا جائیں تو جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے نواب اکبر بگٹی کو خواہ مخواہ کا دشمن بنا دیا تھا۔ نواب بگٹی کوئی علیحدگی پسند نہیں تھے۔ وہ خالص نیشنلسٹ تھے۔ بلوچستان کے حقوق کی بات کرتے تھے لیکن پاکستان کے آئینی دائرے میں رہ کر ۔ اِس لحاظ سے وہ نواب خیر بخش مری جیسے بلوچ لیڈروں کی سوچ سے الگ سوچ رکھتے تھے۔ ہاں سخت مزاج آدمی ضرور تھے، ہٹ دھرمی کا مظاہرہ بھی کر دیتے تھے لیکن پاکستان دشمن نہیں تھے۔ یہ تو ہماری بد بختی ہے کہ اُس وقت کی حکومت نے نواب بگٹی کو بلا وجہ دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ جب نواب بگٹی کا کوئی بس نہ چلا تو اونٹ پہ بیٹھ کر اور سر پہ ہیٹ پہنے وہ پہاڑوں کو نکل گئے‘ لیکن اُنہوں نے پھر بھی ریاستِ پاکستان کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے تھے۔ اُن کے خلاف جو کارروائی ہوئی وہ قطعاً غیر ضروری تھی اور جب وہ شہید ہوئے تو بلوچستان کے نیشنلسٹوں کے لیے وہ ایک ہیرو اور نشانی بن گئے۔ براہمداغ بگٹی نواب بگٹی کا پوتا ہے۔ اِس وقت بلوچ علیحدگی پسندی کے بہت سے لیڈر ہیں‘ اُن میں ایک براہمداغ بھی ہے۔ کیا ایسے عناصر سے کوئی بات چیت ہو سکتی ہے؟ ٹی ٹی پی والے پاکستان کے وجود کے خلاف ہیں۔ وہ سابقہ فاٹا کو پاکستان سے علیحدہ کرنا چاہتے ہیں۔ اُن سے بات چیت ہو سکتی ہے تو دیکھنا چاہئے کہ عسکری کارروائیوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں کسی سیاسی حل کی طرف بھی پیش قدمی ہو سکتی ہے کہ نہیں؟
بہرحال حالیہ واقعات بتاتے ہیں کہ ہماری سکیورٹی صورت حال کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ سابقہ فاٹا کے علاقے میں شورش جاری ہے اور وقفے وقفے سے سکیورٹی فورسز پر حملے ہو جاتے ہیں۔ بہت حد تک ہم نے بارڈر پر باڑ لگا دی ہے لیکن افغان طالبان اِس کے خلاف ہیں اور ایک آدھ جگہ اُنہوں نے باڑ لگانے کی مزاحمت کی ہے‘ لیکن جہاں باڑ لگی ہے اُس سے بھی دہشت گردی کے واقعات میں کمی نہیں آئی۔ جب سے امریکی افغانستان سے گئے اور طالبان نے افغانستان پہ اپنا قبضہ جمایا ہے‘ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اِس کا مطلب ہے ہماری فورسز پورے مغربی بارڈر پر ڈِپلائے ہیں۔ بھارت سے جو ہماری صورت حال ہے وہ ہم سب کو معلوم ہے۔ اُس بارڈر پر بھی پہاڑوں سے لے کر سمندر تک ہماری فورسز ڈپلائیڈ ہیں‘ یعنی چھوٹے سے چینی بارڈر کے سوا ہر سرحد پر ہماری فورسز نہ صرف ڈپلائیڈ ہیں بلکہ پوری طری چوکنا ہیں۔ یہ خطرناک صورتحال ہے اور اِس کا تقاضا ہے کہ افواج اور قوم ایک ساتھ کھڑی ہوں۔ اِس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ہمارے اندرونی حالات بہتر ہوں۔ سکیورٹی سِچوایشن کے ساتھ ساتھ معاشی حالات کچھ اِتنے اچھے نہیں جس سے مجموعی صورت حال کی نزاکت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔
معیشت اور سکیورٹی‘ یہ ہمارے اولین مسائل ہیں اور باقی مسئلے سب ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسے میں یکسوئی کی ضرورت ہے۔ قوم کی تمام توانائیاں سکیورٹی صورت حال پر مرکوز ہونی چاہئیں‘ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ داخلی صورت حال کو دیکھیں تو رونا آتا ہے کہ نہ قوم میں کوئی ڈسپلن ہے نہ یکسوئی۔ افواج ہر اطراف سرحدوں پر جنگی حالت میں ہیں اور قوم کی حالت یہ ہے کہ ہر کوئی حسبِ توفیق منافع خوری اور لوٹ کھسوٹ میں لگا ہوا ہے۔ پنجاب کے بڑے شہروں کو دیکھیں اور ہمارے کچھ طبقات کی عیاشیوں پر نظر ڈالیں تو کوئی عندیہ ہوتا ہے کہ قوم حالتِ جنگ میں ہے؟ قوم حالتِ جنگ میں نہ ہو گی لیکن قوم پہ ایک نہیں دو‘ تین جنگیں مسلط کی جا رہی ہیں۔ کیا ہم اِن جنگوں کے لیے تیار ہیں؟ فوجی تو لڑ رہے ہیں، گولیاں سینوں پہ کھا رہے ہیں لیکن قوم کی حالت کیا ہے؟ سیاسی عناصر کن ناٹکوں میں مصروف ہیں؟ حکومت کی کارکردگی کیسی ہے؟ قوم کی ترجیحات کیا ہیں؟
نوشکی اور پنجگور کی جن پوسٹوں پر حملے ہوئے ہیں وہاں کوئی جائے پھر اندازہ ہو کہ جنگ کیا ہوتی ہے‘ اور کس قسم کی جنگ میں پاکستان مبتلا ہے‘ لیکن یہ جو پلاٹوں کے کاروبار ہو رہے ہیں اِنہیں کوئی دیکھے تو گمان ہوتا ہے کہ پاکستان کس مصیبت کی گھڑی میں دھنسا جا رہا ہے؟ پاکستان میں زندگی دو تین سطح پہ بسر کی جا رہی ہے۔ ایک سطح ہماری افواج کی ہے۔
فورسز قوم کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ دوسری سطح عیاشی والی ہے۔ جو مال منتر بنا سکتے ہیں وہ ایسا کر رہے ہیں اور اِن عناصر میں سے بیشتر کی کوئی کمٹمنٹ اِس دھرتی سے نہیں ہے۔ اِن کی دولت باہر، اِن کی جائیدادیں باہر، اِن کے بچے باہر کے پڑھے ہوئے۔ اِنہیں اِس دھرتی سے کیا سروکار ہو سکتا ہے؟ اور تیسری سطح نچلے طبقات کی ہے جو گزر بسر کی مجبوریوں میں دن رات ایک کرتے ہیں‘ یعنی قوم بٹی ہوئی ہے۔ اِس کی سوچ منقسم ہے۔ اِس کی توانائیاں بکھری ہوئی ہیں۔ یکسوئی کیسے آئے گی؟ یہی سب سے بڑا مخمصہ ہے۔ لیڈرشپ نام کی چیز کہیں دور سے نظر نہیں آتی حالانکہ خطرات ایسے ہیں اور اِس تیز رفتاری سے بڑھ رہے ہیں کہ وقت کی اہم ترین ضرورت ڈھنگ کی قیادت ہے۔
ایسی قیادت کہاں سے آئے گی؟ یا ہم چاہتے ہیں کہ افواج تو لڑتی رہیں اور قوم کی عیاشیوں میں کوئی کمی نہ آئے؟