"AYA" (space) message & send to 7575

چلیں بھول تو ختم ہوئی

پاکستانی قوم کی خوش نصیبی کہ تمام نہلے آزمائے جا چکے ہیں۔ تمام نجات دہندے، تمام مسیحا، تمام رہبرِ قوم سب اپنی اپنی باری لگا چکے۔ میاں نواز شریف کے بارے میں بھول ہوا کرتی تھی کہ میاں صاحب کے ساتھ بڑی زیادتی ہوتی ہے‘ اِنہیں اپنی مدتِ اقتدار پوری نہیں کرنے دی جاتی۔ اِس خبط سے بھی قوم اب نکل چکی ہے کیونکہ میاں صاحب اب استعمال شدہ سکہ ہیں۔ بڑے لیڈر اب بھی ہیں لیکن یہ بھول نہیں رہی کہ موقع ملے گا تو پاکستان کی تقدیر بدل دیں گے۔ مسیحا جو رہ گئے تھے عمران خان تھے اور قوم نے اُن کو بھی بھگت لیا اور ایسے بھگتا کہ ذکر اُن کا ہو تو انگلیاں کانوں کو جاتی ہیں۔ قوم پہ خان صاحب نے احسان کیا ہے کہ جو بہت بڑی بھول بنی ہوئی تھی اُسے نہ صرف ختم کیا ہے بلکہ دفنا دیا ہے۔
اِس لئے یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اگلا چناؤ جب بھی ہوا تاریخِ پاکستان میں سب سے آزاد ہو گا۔ قوم کے ذہنوں پہ کوئی جذبات سوار نہ ہوں گے، کوئی دل موہ لینے والے نعرے نہ ہوں گے، کوئی مسیحائی کا خواب نہ ہو گا۔ بس ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ نہلوں کا ہو گا اور قوم کی مرضی کہ پذیرائی کس کو بخشے۔ اگر کراچی کا شہر ایم کیو ایم کے بانی کے سحر سے آزاد ہوچکا ہے تو یوں سمجھئے کہ باقی قوم بھی سارے کے سارے نجات دہندوں سے آزاد ہو چکی ہے۔ یہ بہت احسن بات ہے کہ شہسواروں اور عاملوں کے بارے میں بھی قوم کو کوئی بھول نہیں رہی۔ ویسے بھی کوئی سمجھ نہیں آ رہی آج کل عاملوں کے چہرے کچھ لٹکے لٹکے سے ہیں۔ وہ طمطراق پتا نہیں کہاں کھو گیا۔ بازارِ سیاست افواہوں سے گرم ہے کہ عدم اعتماد کی تیاری ہو رہی ہے‘ لانگ مارچوں کا سوچا جا رہا ہے۔ یہ بھی بس پھیکی پھیکی سی ہیں۔ ڈھول بجانے کی سکت قوم میں نہیں رہی۔ جتنے بھی کرائے کے ڈھول لے آئیں بجائے تو جا سکتے ہیں لیکن بجانے میں کوئی زور یا جذبہ نہ ہو گا۔ سیاست کے حوالے سے قوم کی یہی کیفیت ہے۔ من کو نہ بھائے پھر بھی بہت سی چیزیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ لیڈران کرام کی حالت یہ ہے اور ان میں شہسوار بھی شامل ہیں کہ قوم بہ امر مجبوری اِنہیں برداشت کررہی ہے۔ اب خان صاحب روزانہ کی بنیاد پر ایک عدد تقریر فرما دیتے ہیں، تقریر ایسی کہ نہ اُس کا کوئی سر نہ پاؤں، لیکن قوم کیا کرے‘ تقریریں سنتی نہیں ہے، اِس مغالطے میں کوئی نہ رہے، لیکن خان صاحب کی فن تقریر کو برداشت کر رہی ہے۔ کوئی چارہ بھی نہیں، حاکمِ وقت ہیں بچہ دیں یا انڈا بیکار کی باتوں میں اپنا وقت ضائع کرنا چاہتے ہیں تو کون اُنہیں روک سکتا ہے۔
کیا مزیدار صورتحال ہے، بائیس کروڑ کی قوم ہے، ایٹم بم ہے‘ لوہے کا کشکول ہے اور مزاج میں کافی ڈھٹائی بھی ہے لیکن رہبری کیلئے جو نمونے دستیاب ہیں سب نہلوں پہ مشتمل ہیں۔ کوئی ایک تو ہو جو اِس نکمے پن سے ہٹ کے ہو لیکن ایسا کوئی ڈھونڈے نہ ملے۔ میں تو اکثر سوچتا ہوں کہ چناؤ سر پہ آئے گا تو کیا کریں گے، پرچی تو ڈالنی ہے، زندگی بھر کی عادت ہے، لیکن کس جماعت کو ووٹ دیں گے۔ آئیڈیل ازم تو سیاست سے کب کی رخصت ہو چکی۔ کئی طبقات تھے جن کا آئیڈیل خان صاحب تھے۔ یوتھیئے، یہ ممی ڈیڈی والے اور خواتین کی خاطر خواہ تعداد، یہ سب طبقات خان صاحب پہ ڈولے جا رہے تھے۔ عمران خان کی صورت میں اِن طبقات کو ایک مسیحا نظر آ رہا تھا۔ اب یہ طبقات تھوڑے سے شرمندہ لگتے ہیں، سیدھے منہ بات نہیں کرتے، آنکھیں چرانے کی مہارت حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستانی سیاست کے دورِ حاضر کے یہ آخری آئیڈیل تھے اور انہوں نے اپنے ساتھ کیا کرنا تھا جو اِنہوں نے قوم کے ساتھ کیا ہے یہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔
ایک بات اچھی ہوئی ہے کہ اِس تماش بین قوم کو سیاست میں اب اِتنی دلچسپی نہیں رہی۔ سیاست اب روٹین کا کام بن چکا ہے یا کچھ کسر رہ گئی ہے تو روٹین کا کام بن جائے گا‘ یعنی جن کی دال روٹی اِس سے منسلک ہے وہ تو سیاسی شعبدہ بازیاں کرتے رہیں گے لیکن عوام الناس کی دلچسپی برائے نام رہ گئی ہے۔ یہ خان صاحب کا بڑا کارنامہ ہے کہ اُنہوں نے پوری قوم کو سیاست سے بیزار کر دیا ہے۔ بیزاری ایسی کہ اُن کو ہٹانے کی کوششوں میں بھی کوئی زیادہ دم خم نہیں۔ لیڈران کرام بیانات ٹھوک دیتے ہیں یا پریس کانفرنسوں سے خطاب فرماتے ہیں لیکن اِس سے زیادہ ہٹانے کی کاوشوں میں کوئی جوش و جذبہ نہیں۔ سیانے لوگ تو وہ ہیں جو مختلف قسم کی منافع خوریوں میں مصروف ہیں۔ بڑے تاجر جو چینی، آٹا یا کھاد کا کاروبار کرتے ہیں سمجھدار لوگ ہیں۔ پراپرٹی والوں کو تو عقل کا تمغہ دینا چاہئے کیونکہ سب سے سمجھدار وہی ہیں۔ معاشرے میں اور دھندے بھی ہیں، ساروں کے نام نہیں لئے جا سکتے، لیکن پراپرٹی اور فائلوں کا دھندہ بھی خوب ہے۔ جن کو اِس کاروبار کے راز معلوم ہو گئے وہی کامیاب ٹھہرے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ فضول کے کاموں میں پڑے رہے۔ سمجھ ہوتی تو پہلے ہی دیکھ لیتے کہ اِس دھرتی میں کس کاروبار کا فائدہ ہے اور کس کاروبار نے چلنا ہے۔ پلاٹوں کے کارو بار میں پڑ جاتے تو فائدے میں رہتے۔ مطلوب رقوم دستیاب ہوں تو سیاست بھی آسان ہو جاتی ہے۔ جہاں تک پڑھائی لکھائی کا تعلق ہے لوگ تو اب اخبار نہیں پڑھتے۔ سچ پوچھئے تو ان میں زیادہ کچھ ہوتا بھی نہیں۔ اور دھندہ ہمیں آتا نہیں۔
عالم ایسا ہو چکا ہے کہ موجودہ نہلوں کو ہٹانے کی بات ہوتی ہے تو پوری خبر پڑھنے کا دل نہیں چاہتا۔ فلانا فلانے سے مل رہا ہے، بڑی خبر یہ سمجھی جاتی ہے کہ زرداری صاحب اور بلاول بھٹو شہباز شریف کو ملنے پہنچ گئے یا زرداری صاحب چوہدری صاحبان سے مل رہے ہیں۔ قوم کی تقدیر میں اب ایسی باتیں ہی رہ گئی ہیں۔ جن صاحبان کا نام لیا ہے یہ یہاں جائیں یا وہاں‘ ہماری صحت پہ اِس کا کیا اثر۔ شوگر ملیں اُن کی، باہر جائیدادیں اُن کی، دولت کے انبار اُن کے، اِن سب چیزوں سے ہمارا لینا دینا کیا؟ اور کچھ ہو بھی جائے تو کیا ہو گا؟ یا تو بازار سیاست میں کچھ نئی چیز ہو، پھر بھی آپ کچھ امید باندھ سکتے ہیں۔ یہ آزمائے ہوئے گھوڑے ہیں، صرف آزمائے ہوئے نہیں اِن کو دیکھ دیکھ کے اور اِن کا ذکر سن سن کے ہم تنگ آ چکے ہیں۔ اُلو مزید سیدھا ہو گا تو اِن کا۔ قوم کی حالت وہی رہنی ہے۔ تو ہم پھر خواہ مخواہ کیوں دیوانے بنے پھریں؟
اِسی لیے یہ خوشخبری ہے کہ قوم اب آزاد ہو چکی ہے۔ یہ نہیں کہ قوم بے وقوف نہیں بن سکتی‘ لیکن بنے گی تو اپنے سے بنے گی۔ کوئی نہلا اِسے بیوقوف نہیں بنا سکتا۔ بے حس قوم کا علاج تو کوئی نہیں لیکن حالت اب یہ آن پہنچی ہے کہ قوم کسی کی باتوں میں نہیں آئے گی۔ کوئی نجات دہندہ نہیں رہا جس کی باتیں قوم سن نہ چکی ہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں