سوائے پہلی کشمیر کی جنگ کے باقی جنگیں کچھ بے مقصد سی تھیں۔ جو آزاد کشمیر کا علاقہ ہے وہ ہمیں پہلی جنگ سے حاصل ہوا۔ اِس لیے اُس جنگ کو تو ہم با مقصد کہہ سکتے ہیں لیکن بعد میں جنگی راستے اختیار کر کے ہمیں نقصان ہی ہوا۔
سال 1965ء کے اوائل میں رن آف کچھ میں ہندوستانی اور پاکستانی فوجیں ایک دوسرے کے مدِ مقابل آئیں۔ اُس محدود جھڑپ میں پاکستان کا پلڑا بھاری رہا‘ لیکن دور کی نظروں سے دیکھا جائے تو رن آف کچھ جھڑپ سے جو ہم نے نتائج اخذ کئے وہ ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے۔ شروع دن سے پاکستانی ذہنوں میں یہ تاریخی زعم بیٹھا ہوا تھا کہ سپاہ گری میں مسلمان ہندوؤں سے بہتر ہیں۔ رن آف کچھ کی جھڑپ ہوئی تو اس زعم کو تقویت پہنچی اور کچھ پاکستانی ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اب وقت ہے کشمیر پہ کچھ کرنے کا۔ یہ ذہنی کیفیت تھی جس نے 1965ء کی بڑی جنگ کی راہ ہموار کی۔
اُس زمانے کے پاکستانی فیصلہ سازوں کے ایک مؤثر حلقے کا خیال تھا کہ پاکستان اِس پوزیشن میں ہے کہ جنگ کے ذریعے کشمیر میں فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو یہ سوچ رکھتے تھے اور اُنہوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کو اِس بات پہ قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ عزیز احمد کی سربراہی میں فارن آفس میں بھی یہی سوچ پائی جاتی تھی۔ 12 ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک اِسی سوچ کے ہم نوا تھے اور اُنہوں نے ہی کشمیر میں جنگ کی بیشتر پلاننگ کی۔ پلان یہ تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں کمانڈو قسم کے لوگ بھیجے جائیں گے۔ وہ وہاں کارروائیاں شروع کریں گے اور یہ سمجھا جا رہا تھا کہ کشمیر کی مسلم آبادی اُن کارروائیوں کی وجہ سے ہندوستان کے خلاف کھڑی ہو جائے گی۔ اس نکتے پر کہ ایسی سرگرمی کے خلاف ہندوستان کیا کر سکتا ہے وزیر خارجہ بھٹو اور فارن آفس کی رائے تھی کہ ہندوستان بین الاقوامی بارڈر عبور نہیں کرے گا‘ یعنی جو کچھ بھی مقبوضہ کشمیر میں ہوا وہ پاکستان اور بھارت کے مابین باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار نہیں کرے گا۔
جیسا کہ آنے والے حالات نے آشکار کیا‘ دفتر خارجہ کی یہ سوچ غلط تھی۔ کشمیر میں کارروائیاں تیز ہوئیں تو 6 ستمبر کو لاہور اور سیالکوٹ کے سامنے سے بھارت نے پاکستان پہ حملہ کر دیا۔ جنگ کا آغاز ہوا تو ہندوستانی فوجی کمان سمجھ رہی تھی کہ لاہور تک پہنچنے میں اُنہیں کوئی خاص دقت نہیں ہو گی۔ ہندوستانی کمانڈرز نے تو یہاں تک سوچ رکھا تھا کہ کچھ دنوں کی جنگ کے بعد لاہور کے جم خانہ کلب میں مسرت اور فتح کے جام نوش کریںگے۔ ہمارا جنگی ارادہ تو کشمیر کو آزاد کرانے کا تھا‘ ہندوستان کے حملے کے بعد وہ ارادہ دریا برد ہوا لیکن ہندوستانی ارادے کہ بی آر بی نہر جلد عبور ہو جائے گی اور ہندوستانی فوجیں لاہور میں داخل ہو جائیں گی‘ وہ بھی خاک میں مل گئے۔ پاکستانی فوجوں نے تو صحیح دفاعی پوزیشنیں بھی نہیں سنبھالی تھیں لیکن جب ہندوستانی حملہ آیا تو جو یونٹیں بارڈر پہ تعینات تھیں اُنہوں نے بہت ہی جواں مردی کا مظاہرہ کیا اور ہندوستانی حملے کو روکنے میں کامیاب ہوئیں۔ پاکستان ایئر فورس کا بھی کمال کا رول تھا۔ تب پی اے ایف میں زیادہ تر F-86 سیبر جیٹ تھے۔ پاکستانی پائلٹوں کی شاندار کارکردگی رہی اور حملہ آور ہندوستانی دستوں کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا۔
1965ء کی جنگ کی بنیادی کہانی لہٰذا یہ ہے کہ اوپر والی پلاننگ صفر سے بھی کم تھی اور خام خیالی پہ مبنی تھی‘ لیکن پاکستان کو بچایا تو فوج کے جوانوں اور نوجوان افسروں نے اور پاکستان ایئر فورس نے۔ پلاننگ کا تو یہ عالم تھا کہ جب کشمیر میں کارروائیاں شروع ہوئیں تو تب کے ایئر فورس کمانڈر ان چیف ایئر مارشل نور خان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ کشمیر میں کیا ہونے جا رہا ہے‘ لیکن جب کمانڈو بھیجے گئے تو ایئر فورس نے بھرپور کردار ادا کیا اور ایئر مارشل نور خان خود بھی بڑے جہاز چلا کر سپلائی مشنوں پر مقبوضہ کشمیر کی ہواؤں میں گئے۔
بہر حال لمبی جنگ کی سکت نہ بھارت میں تھی نہ پاکستان میں۔ روسیوں نے جب ثالث بننے کی پیش کش کی تو دونوں اطراف سے اِس پیشکش کو بخوشی قبول کیا گیا۔ روسی قیادت نے تاشقند میں امن کی غرض سے کانفرنس بلائی اور معاہدہ تاشقند پر ہندوستانی وزیر اعظم لال بہادر شاستری اور پاکستانی صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنے دستخط ثبت کئے۔ بنیادی نکتہ اُس معاہدہ کا یہ تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کسی مقصد کے لیے جنگ کا راستہ اختیار نہیں کریں گے۔ حاصل نہ کچھ ہندوستان کو ہوا نہ پاکستان کو‘ یعنی اگر کسی بے مقصد جنگ کی مثال دینی پڑے تو 1965ء کی پاک بھارت جنگ شاید نمایاں ٹھہرے۔
نفسیاتی طور پہ البتہ اُس جنگ نے گہرے نقوش چھوڑے۔ ایک قسم کی دشمنی پاکستان اور بھارت کی پہلے سے تھی لیکن اِس جنگ کے بعد دشمنی پکی ہو گئی۔ دونوں ممالک کے مابین شک تو پہلے بھی ہو گا لیکن جنگ کے بعد شکوک کے بادل گہرے ہو گئے۔ تقسیمِ ہند سے وہ ذہنی اور نفسیاتی کیفیت پیدا نہ ہوئی تھی جو کہ 65ء کی جنگ نے پیدا کی۔ تو سوال اٹھتا ہے کہ ہمارے فیلڈ مارشل نے کشمیر میں جنگی کارروائیوں کا آغاز کیوں کیا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کی رائے اِتنی مؤثر تھی کہ تمام احتیاط کو بھلا کر صدر ایوب خان جنگ پہ آمادہ ہو گئے؟ 1965ء کی جنگ پہ خاصی کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن میری ناپختہ رائے کے مطابق اِس پہلو پہ زیادہ کچھ نہیں لکھا گیا۔ ایسی کوئی تحریر بھی میری آنکھوں کے سامنے نہیں آئی کہ 1964ء کے صدارتی انتخاب‘ جس میں ایک طرف ایوب خان تھے اور دوسری طرف مادرِ ملت فاطمہ جناح‘ کا اثر ایوب خان کے ذہن پر پڑا اور اگر پڑا تو وہ اثر کس نوعیت کا تھا۔ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر تو وہ انتخاب تھا نہیں۔ چالیس ہزار کونسلرز نے مغربی پاکستان سے اور چالیس ہزار نے مشرقی پاکستان سے اُس انتخاب میں ووٹ ڈالنا تھا۔ اِتنی محدود ووٹنگ کے باوجود تب اور بعد کے مبصروں کا یہی خیال ہے کہ ریاستی دباؤ اور سرکاری وسائل کا استعمال نہ ہوتا تو فاطمہ جناح جیت گئی ہوتیں۔ بہرحال سرکاری نتائج جو بھی تھے دورانِ انتخابی مہم مادرِ ملت کو ملنے والی عوامی پذیرائی ایوب حکومت کے لیے ایک نفسیاتی دھچکے سے کم نہ تھی۔ 2 جنوری 1965ء کو یہ انتخاب ہوتا ہے اور نو ماہ بعد ایک کمزور ہو چکا صدر جنگی کارروائیوں کی بنیاد ڈالتا ہے۔ کیا نفسیاتی دھچکے اور جنگی کارروائیوں میں کوئی ملاپ تو نہ تھا؟ یعنی ایک مضمحل سربراہ میدانِ جنگ میں اپنی مردانگی ثابت کرنے تو نہ چلے تھے؟ میری دانست میں تاریخ کے اوراق میں اِس نکتے پہ زیادہ روشنی نہیں ڈالی گئی۔
جہاں تک 1971ء کی جنگ ہے ہم تو یہی کہتے ہیں کہ ہندوستان نے وہ جنگ ہم پر مسلط کی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مسز اندرا گاندھی نے ہماری مشکلات کا بھرپور فائدہ تو اٹھایا لیکن اُس المیے کا اگر کوئی سٹیج تھا تو وہ یحییٰ خان اور اُن کے ساتھیوں نے تیار کیا۔ 3 مارچ 1971ء کو قومی اسمبلی کا ڈھاکہ میں اجلاس منعقد ہو جاتا تو شاید آئندہ کے حالات رونما نہ ہوتے۔ ہندوستانی افواج کا حملہ تو نو ماہ بعد آیا جب اُن کی تیاریاں مکمل ہو چکیں تھیں۔ ہمارے پاس بھی نو ماہ تھے سیاسی حل نکالنے کے لیے لیکن ہم ایسا نہ کر سکے۔