کیا عبرت کا منظر ہمارے سامنے سج رہا ہے۔ تکبر کے ماروں کا در در پہ جانا اور کچھ حاصل نہ ہونا ۔ دشمن تو ایک طرف رہے جب بظاہر اپنے چھوڑنے پہ آ جائیں تو پھر اندازہ لگانا مشکل نہیں رہ جاتا کہ تقدیر کا فیصلہ کس طرف جا رہا ہے۔ اب تو 172 ووٹوں کی کارروائی رسمی سی لگ رہی ہے‘ اور جو طریقۂ گفتگو وزیر اعظم اپنا رہے ہیں وہ بذاتِ خود پسپائی کی نشانی ہے۔ پُر اعتماد لوگ اِس زبان میں نہیں بولتے‘ لیکن جب بوکھلاہٹ طاری ہونے لگے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔
کبھی ایم کیو ایم کے دفتر کراچی اور کبھی بے چین آنکھوں سے چوہدریوں کی طرف دیکھنا‘ اِس سے تو بہتر تھا کہ وزیر اعظم عزت کی چادر اوڑھتے اور ایسے جھکنے سے اجتناب کرتے۔ ساتھیوں کو تو ساتھ ہونا چاہئے، جب اُن سے منت اور ترلوں پہ آپ آ جائیں تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ کھیل آپ کے ہاتھوں سے جا چکا ہے۔ اِس اثناء میں یہ اعلان کہ 'جلسہ کریں گے‘ یہ بھی پریشانی کی ایک علامت ہے۔ جلسے سے کیا ہو گا؟ پنچھی جو اپنی اپنی اڑان کی تیاری کر رہے ہیں کیا واپس آ جائیں گے؟ اصل بات یہ نہیں کہ دشمن حملہ آور ہیں۔ دشمن تو گھات لگائے موقع کی تلاش میں تھے۔ اصل کمزوری تو یہ نکلی کہ اپنے چھوڑ کے جا رہے ہیں اور اِس دیر کی گھڑی آپ کی باتیں اُن پر کوئی اثر نہیں کر رہیں۔
کاروان جب حملے کی زد میں آ جائے اور اُس کا لوٹا جانا محض کچھ دیر کی بات ہو تو پھر اُس کا حال وہ ہوتا ہے جو پی ٹی آئی کی حکومت کا ہم دیکھ رہے ہیں۔ حالات اِس نہج کو کیسے پہنچے؟ شہر کے لوگ تو ظالم ہوتے ہی ہیں، کچھ اپنے گریبان میں بھی جھانکیے۔ وصفِ حکمرانی جتنی ہونی چاہئے آپ میں نہ تھی۔ اِس کے ساتھ تکبر بھی کچھ زیادہ ہی تھا۔ اسلوب کی گفتگو آپ سے کبھی نہ ہوئی۔ جو تسلیوں سے راضی ہو سکتے تھے وہ بھی ناراض ہوئے‘ اور کچھ قریبی تھے جیسے جہانگیر خان ترین اور علیم خان‘ اُن کے سینوں میں دہکتے انگارے ڈالے گئے۔ اُن کے جذبات جل جل کے راکھ ہوئے اور اب یہ توقع کہ یہ سب ہونے کے باوجود وہ لوٹ آئیںگے‘ خام خیالی سے زیادہ انتہا کی بے وقوفی ہے۔ انتقام کی آگ بھڑک رہی ہو تو کچھ ملے یا نہ ملے انتقام کی تسکین ہی بھاری جذبہ ٹھہرتا ہے۔
بنیادی بات تو وہی ہے جس کا ذکر قومی منظر نامے پر ہوتا رہا ہے۔ آپ کے سرپرست جنہوں نے آپ کی راہ ہموار کی، جنہوں نے مشکلات کو آسانیوں میں تبدیل کیا، وہ بھی خوش نہ رہ سکے۔ ایک ادارے میں تعیناتی کا جو حکم نامہ آپ نے بر وقت جاری کرنا تھا‘ خرابی کی جڑ وہ بنا۔ اگلوں نے سمجھا کہ ہماری بے عزتی ہو رہی ہے۔ ایسے حالات میں ایک اشارہ ہی کافی ہوتا ہے اور یہاں اشارہ یہ تھا کہ جو سائے ساتھ ساتھ ہوتے تھے اُن کا فیصلہ ہے کہ وہ تھوڑی دوری اپنائیں گے۔ مخالفین‘ جو آپ سے تنگ آئے ہوئے تھے‘ کو اور کیا چاہئے تھا۔ ہاتھ پیر تو وہ پہلے بھی مار رہے تھے لیکن کچھ بن نہیں پا رہا تھا۔ جب احساس دلایا گیا کہ سہارے تھوڑے ہٹ گئے ہیں تو اُنہیں اعتماد حاصل ہوا اور ایک نئے جذبے سے اپنی مخالفانہ سرگرمیاں شروع کر دیں۔ یہ تو ہم اب دیکھ رہے ہیں کہ اُن کی کوششیں بار آور ثابت ہوئیں۔ اب یوں لگتا ہے کہ سب کچھ تیار ہو چکا ہے اور بس آخری جھٹکے کا انتظار ہے۔
جو عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے وہ اپنی جگہ ہے‘ لیکن موجودہ حالات قوم کے لئے بھی ایک المیے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ المیہ اِس لحاظ سے کہ پی ٹی آئی نے اور کچھ کیا یا نہیں‘ قوم پہ مسلط دو پارٹیوں کی اجارہ داری کو توڑا تھا‘ اور قومی افق پہ پی ٹی آئی ایک متبادل کے طور پر سامنے آئی تھی‘ لیکن جیسا ہم دیکھ رہے ہیں‘ یہ متبادل کا تجربہ کامیاب نہیں ٹھہرا۔ نون لیگ اور پی پی پی میں تو اِتنی جان تھی کہ ایک سے زیادہ بار اقتدار سے محرومی کے بعد بھی اِن پارٹیوں نے اپنا وجود برقرار رکھا۔ پی ٹی آئی کے بارے میں یہ ڈر لگتا ہے کہ زوال کے بعد اِس کے نشانات کا سراغ لگانا مشکل نہ ہو جائے۔ کارکردگی کی بنا پر پی ٹی آئی اپنے میں کچھ زیادہ کشش پیدا نہ کر سکی اور ساتھ ہی اپنی بنیادی کمزوریوں کو بھول گئی۔ بنیادی کمزوری یہی تھی کہ سہاروں کے بل اقتدار میں آئی تھی۔ سہاروں کو بھول کر جب پَر نکالنے کی کوشش کی تو یہ جستجو اِسے مہنگی پڑی۔
قوم کے لئے دوسرا المیہ یہ ہے کہ کچھ پتا نہیں آگے کیا ہو گا۔ دیگر ممالک میں حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں تو کام چلتا رہتا ہے۔ حالیہ سالوں میں انگلستان میں کئی تبدیلیاں ہوئیں لیکن کاروان چل رہا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جو کارتوس مہیا ہیں‘ وہ سارے کے سارے چلے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی ایک نئی چیز تھی لیکن اُس نے جو اپنا حشر کیا ہے اُس پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ قومیں اپنے آپ کو کتنی بار دہرا سکتی ہیں؟ لیکن وہی پرانے سِکوں سے ہم اپنے آپ کو دہرائے جا رہے ہیں۔ عمران خان کے خلاف ووٹ کامیاب ہوا تو پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا کامیاب عدم اعتماد کا ووٹ ہو گا‘ لہٰذا یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہو گی‘ لیکن لگتا یوں ہے کہ عوام الناس اِس سارے عمل سے کچھ لا تعلق سے ہیں۔ وہ جو حرارت کا تیز ہونا ہوتا ہے وہ محسوس نہیں ہوتا۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد قومی وجود میں کیسی حرارت پیدا ہوئی تھی۔ 1986ء میں بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر ساری قوم نہیں تو قوم کا ایک بڑا حصہ ایک جذباتی کیفیت میں مبتلا تھا۔ موجودہ صورت حال میں ایسا کچھ نہیں محسوس ہو رہا۔ اِس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ کیا عوام مولانا فضل الرحمن کی صورت دیکھ کر ایک جذباتی کیفیت میں آ جائیں گے؟ کیا دلوں کی دھڑکنیں نواز شریف اور آصف زرداری کی وجہ سے تیز ہو جائیں گی؟
ٹھیک ہے، اگر یہی ہماری قسمت ہے تو پھر اِس کا کیا کیا جائے؟ البتہ تقدیر کا لکھا ہوا بھی ہو تو یہ صورت حال دیکھ کر دل تھوڑا بجھ سا جاتا ہے۔ یہ آرزو تو پیدا ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں بھی بڑے لیڈر پیدا کیوں نہیں ہوتے۔ قومیں مشکلات سے گزرتی ہیں لیکن اُن سے نکلتی بھی ہیں۔ ہمارے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہو رہا؟ ایک پورا طبقہ تھا اِس ملک میں جس نے سمجھ رکھا تھا کہ عمران خان کوئی لی کوان یو یا مہاتیر محمد جیسے لیڈر ثابت ہوں گے۔ یہ اندازے غلط تھے کیونکہ جیسے بہت سے لوگ کہہ رہے تھے یہاں قابلیت کا محدود ہونا ایک بڑا مسئلہ تھا۔ بہرحال ایک اور تجربہ ناکام ہو رہا ہے‘ لیکن پھر وہی بات کہ اِس مسئلے کا علاج کیا ہے؟ یہ کہنا کہ جمہوریت چلتی رہے تو قوموں کی بہتری ہوتی ہے‘ فضول بات ہے۔ کچھ ڈھنگ کی قیادت بھی تو نصیب ہو۔ اِس حوالے سے ہم روتے ہی رہیں گے۔