انگریزی میں ایک اصطلاح ہے سپورٹس مین سِپرٹ (sportsman spirit) جس سے مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ کھیل کے میدان میں ہار جیت سے زیادہ اہم بات کھیل کھیلنے کا انداز ہے‘ یعنی ہار جیت سے ہٹ کر آپ میدان میں گئے کیسے اور نتیجہ جو بھی ہو آپ نے اُسے قبول کس انداز سے کیا۔ فیصلہ خلاف بھی جائے تو خندہ پیشانی سے اُسے قبول کریں۔
بڑے بڑے کھلاڑی ہیں جنہوں نے کھیل کے میدان میں ایسا ہی کیا۔ کتنی بار ایسا ہوا ہے کہ امپائر کی انگلی ابھی اٹھی نہیں اور بیٹسمین پویلین کی طرف چل پڑا کیونکہ اُسے احساس ہوا کہ میں آؤٹ ہو چکا ہوں۔ عظیم ترین باکسر محمد علی اپنی باکسنگ تاریخ میں کبھی ناک آؤٹ نہیں ہوئے‘ لیکن دو تین بار ہارے ضرور تھے۔ انگلستان کے باکسر ہنری کوپر نے انہیں ایک دفعہ بائیں ہُک مار کر کینوس پہ گرا دیا تھا۔ محمد علی فوراً اٹھ کھڑے ہوئے لیکن گرے تو تھے۔ اپنے ٹی وی انٹرویوز میں ہمیشہ اُس بائیں ہُک کا ذکر کرتے وقت کہتے کہ کوپر نے بڑا زور کا مارا تھا۔ جو فریزیئر سے پہلی فائٹ کے چودہویں راؤنڈ میں محمد علی کو ایسا مکا لگا کہ دھڑام سے نیچے گرے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ کوئی اور باکسر ہوتا تو اُس ہُک کے بعد اٹھ نہ پاتا۔ محمد علی کا کمال ہے کہ فوراً اٹھ گئے۔ لڑائی ہار گئے لیکن ہار کو تسلیم کیا۔ منہ نہ بنایا اور عذر نہ پیش کیا۔ کین نارٹن نے محمد علی کا جبڑا توڑ دیا تھا اور پہلی فائٹ بھی جیتی۔ کئی ٹی وی انٹرویوز میں محمد علی مذاق کرتے تھے کہ مجھے کوئی چھیڑنا چاہے تو کین نارٹن کا نام لیتا ہے۔
لیکن یہاں جو ہمارے کھلاڑی کے ساتھ ہو رہا ہے یا جو وہ اپنے ساتھ کر رہے ہیں وہ تو بالکل ایک اور ہی نوعیت کی کہانی ہے۔ رونا دھونا بند نہیں ہو رہا، گالی گلوچ پر اُتر آئے ہیں، الزام تراشی میں تمام حدیں پار کر رہے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں نے عدم اعتماد کی تحریک کیا پیش کی ہے خود کھلاڑی اور ان کے ساتھی آپے سے باہر ہو رہے ہیں۔ جذبات کو کنٹرول نہیں کر پا رہے۔ لگتا یوں ہے کہ ہاتھ میں اینٹ آئے تو کسی کے سر پر دے ماریں۔ یہ تو اپنے آپ کو دلیر اور ٹائیگر کہتے تھے لیکن اِن کی بھبکیوں میں ٹائیگروں والی بات تو کچھ نظر نہیں آتی۔ جو کچھ بولا جا رہا ہے سن کے گمان یہی ہوتا ہے کہ جھاگ منہ سے گر رہی ہے۔ تحریک قومی اسمبلی میں آئی ہے، مقابلہ تو اِس کا وہاں ہونا چاہئے تھا کہ آپ کی اکثریت قائم رہتی اور اتحادی ساتھ رہتے۔ نمبروں کے لحاظ سے قومی اسمبلی میں حالت خراب ہوتی جا رہی ہے لیکن یہ ٹائیگر مقابلہ کر رہے ہیں جلسے کرکر کے۔ بڑے جلسے ہو بھی جائیں اِن سے قومی اسمبلی میں جو نمبروں کی کیفیت ہے اُس نے تو تبدیل نہیں ہونا۔ پھر جلسوں کا مقصد کیا ہے؟ یہی مقصد لگتا ہے کہ آپ اپنے ممبروں کو ڈرانے چلے ہیں‘ لیکن جلسوں کا ہتھکنڈا آپ کے کام تو نہیں آیا۔
آپ ہی کے دس بارہ ممبر‘ جن کا تحفظ کی خاطر قیام سندھ ہاؤس میں تھا‘ آپ کے خلاف پھٹ کے بول پڑے ہیں۔ سیاسی سمجھ بوجھ ہوتی تو بروقت اِن کی سنتے۔ یہ تو کب سے خبریں آ رہی تھیں کہ آپ کے ممبران کی ایک تعداد ناخوش ہے۔ پارلیمانی سیاست میں لوگوں کو ساتھ رکھنا ہوتا ہے، اُن کی سننا پڑتی ہے‘ چھوٹے موٹے کام ممبران کے وزرائے اعظم کرتے ہیں۔ عمران خان خود کو بہت کچھ سمجھتے ہوں گے لیکن ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ اکڑ خاں تو نہیں۔ بھٹو بھی اسمبلی کے اپنے ممبران سے میل جول رکھتے تھے اور چھوٹے موٹے کام اُن کے ہوتے رہتے تھے۔ یہاں پر تو شروع دن سے وہ سیاسی سٹائل ہی نہ تھا جو پارلیمانی سیاست کے لئے ہمارے جیسی جمہوریتوں میں ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ایسا وہ کرتے ہیں جو اپنی ذات میں ہی گم رہیں‘ انگریزی کا لفظ ہے self-centred‘ اور ہمارے کھلاڑی وزیر اعظم پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ اِنہیں سب سے زیادہ محبت اپنے آپ سے ہے۔ نرگسیت اِسی کو کہتے ہیں۔ چلیں اِن کی شخصیت ایسی ہے لیکن مشکل گھڑی آن پڑی ہے تو جیسی بھی شخصیت ہے اُسے برقرار تو رکھیں۔ اکڑ والے ہیں تو اسے قائم رکھیں۔ یہ آستینیں چڑھانے والا بپھرا بپھرا انداز، اِس سے تو کوئی حوصلہ نظر نہیں آتا۔ اِس انداز سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اوسان خطا ہو رہے ہیں اور دانے ختم ہو رہے ہیں۔
اِن سے کوئی پوچھے‘ یہ جو ڈی چوک پہ 27 مارچ کو تماشا لگانے کا ارادہ ہے اِس کا مطلب کیا ہے؟ ساڑھے تین سال میں ڈھنگ کی حکومت آپ سے ہوئی نہیں اور اب جب پانی سر سے اوپر گزر رہا ہے کیا جوہرِ پہلوانی دکھانا چاہتے ہیں؟ کیا آپ واقعی یہ سوچ رکھتے ہیں کہ بڑے مجمعے کو دیکھ کر اپوزیشن کی ٹانگیں کانپنے لگیں گی اور آپ کے منحرف ارکان آپ کے خلاف ووٹ دینے سے ڈر جائیں گے؟ آپ کچھ کریں گے تو اگلوں نے بھی جوابی کارروائی کرنی ہے۔ کوئی ناگہانی صورت حال بنتی ہے تو اُس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ سیاسی سوجھ بوجھ کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ نہ سہارے ساتھ رہے، نہ اتحادی اور نہ اپنے منحرف ارکان۔ ایسی صورتحال میں بڑے سے بڑا جلسہ بھی آپ کو بچا نہیں سکے گا۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ گالم گلوچ پر آپ کے لوگ زیادہ آئے ہوئے ہیں۔ دیکھا جائے تو اپوزیشن والوں نے اپنی زبانیں اُس انداز سے ابھی نہیں کھولیں‘ اور شاید اِس لئے نہیں کھولیں کہ اُنہیں اپنے پر اعتماد ہے۔ وہ زبانیں کھولنے پر آجائیں تو شاید آپ سے زیادہ سخت بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اور یہ جو وزیر داخلہ ہیں یہ تو کمال کا ناٹک کر رہے ہیں۔ پچھلے ہفتے گجرات کے چوہدریوں کو کہنیاں مار رہے تھے یہ پھبتی کَس کے کہ جن کی پانچ سیٹیں ہیں وہ بھی وزارت اعلیٰ پنجاب کے متمنی بنے ہوئے ہیں۔ اِس کا وزیر داخلہ کو جواب بھی آیا کہ مت بھولو اُن وقتوں کو جب ہمارے وظیفوں پر گزارہ ہوا کرتا تھا۔ اُس کے بعد کم از کم اِس موضوع پہ زبان درازی نہیں ہوئی لیکن اب سندھ میں گورنر راج کا شوشا چھوڑی جا رہے ہیں۔ یہ سب باتیں جلتی پہ تیل چھڑکنے کے مترادف ہیں۔ یعنی تاثر یہ ابھرتا ہے کہ خواہ مخواہ کی کوشش ہو رہی ہے کہ حالات خراب ہوں۔
دیگر ممالک میں حالات خراب ہونے کا اور مطلب ہو گا لیکن پاکستان میں حالات خراب ہونے کا ایک ہی مطلب ہے کہ تیسری قوت آ جائے گی۔ ایسا مطلب اِس لئے لیا جاتا ہے کہ ہماری تاریخ میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ کبھی حالات خراب ہوئے‘ کبھی حالات کا بہانہ بنایا گیا‘ اور شہسواروں نے پھر اپنی کارروائی دکھا دی۔ اِس وقت ایسے کوئی حالات نہیں ہیں، صرف بیکار کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ عالمی حالات بھی ایسے نہیں کہ یہاں پھر سے کوئی شہسواری کے کارنامے ظہور پذیر ہوں‘ لیکن حالات خراب کرنے کی خواہش اِن کی ذہنی حالت بتاتی ہے۔ جو کھیل ہے وہ ہاتھ سے اگر جا نہیں چکا تو جا ضرور رہا ہے۔ ایسا جب ہوتا ہے تو انسان بہکی بہکی باتوں پر اُتر آتا ہے۔ یہاں بھی ایسے ہی ہو رہا ہے۔ کوئی وزیر کہہ رہا ہے کہ ووٹ ڈالتے وقت بپھرے عوام کے سمندر میں سے گزرنا پڑے گا۔ کچھ یہ شوشا چھوڑا جا رہا ہے کہ منحرف ارکان کو سپیکر قومی اسمبلی ووٹ کا اظہار کرنے سے روک سکتا ہے۔ یہ سب لایعنی باتیں ہیں۔ ہارکو کوئی گلے نہیں لگاتا‘ نہ لگانا چاہئے لیکن حالات جب گرفت سے باہر جا چکے ہوں تو پھر اپنے پلے اگر کچھ سپورٹس مین سِپرٹ ہے تو وہ دکھانی چاہئے۔