"AYA" (space) message & send to 7575

حالات کب ایسے نہ تھے؟

سیاسی امور میں دلچسپی گھر سے ملی۔ سیاسی گھرانہ تھا گفتگو سیاست پہ رہتی تھی۔ سیاسی ہوائیں تیز چلتیں تو چھوٹے پیمانے پر، کیونکہ ایک دور دراز دیہی علاقے کے رہنے والے تھے، کچھ نہ کچھ حصہ ڈالتے۔ ایوب خان کے دور کا صدارتی انتخاب یا بعد میں ذوالفقار علی بھٹو کا دور کسی نہ کسی طرح چھوٹے پیمانے پر ہی سہی شامل رہتے۔ یہ تمہید یہ بتانے کے لیے باندھی کہ سیاسی سوچ زندگی کا حصہ رہی ہے۔ زندگی گزر گئی یہ سوچتے ہوئے کہ ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور اِس کی اصلاح کے لیے کیا کرنا چاہئے یا کیا کام ضروری ہے۔ یہ قطعاً نہیںکہ ہماری سوچ بڑی اونچی قسم کی تھی‘ لیکن جس معیار کی بھی تھی نوعیت اس کی یہی سیاسی رہی۔
اب البتہ سیاسی خیالات میں وہ پہلی والی تروتازگی نہیں۔ جسم و جان میں تھکاوٹ نہیں کیونکہ بڑھتی عمر ہمارے مشاغل میں کوئی تبدیلی نہیں لائی۔ ہمارے شوق نہ صرف وہ ہیں جو پہلے ہوا کرتے تھے بلکہ شاید اُن کے اظہار میں جنون کچھ پہلے سے زیادہ ہو‘ لیکن اِس کیفیت کے باوجود خیالات میں تھکاوٹ آ چکی ہے۔ یقینا اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بہت کچھ دیکھ چکے ہیں۔ ایوب خان کے دور سے لے کر اب تک جو مناظر ملکی تاریخ میں سامنے آتے رہے ہیں ہم ایک قسم کے اُن کے گواہ ٹھہرے ہیں۔ اب تو بہت عرصہ ہوا ملکی حالات کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھ بھی رہے ہیں۔ صحافت شروع کی جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اور اندازہ لگائیے کہ جنرل صاحب کو بھی گئے چونتیس سال ہو چکے ہیں۔ واقعات کی نوعیت بدلتی پھر تو خیالات اور جذبات بھی جوان نہیں تو کم از کم تروتازہ رہتے‘ لیکن ہمارا ناقص مشاہدہ تو یہی ہے کہ ہماری تاریخ میں نالائقی اور بے ہنری کا راج رہا ہے۔ چیزیں دہرائی جاتی رہی ہیں۔ آبادی بڑھتی گئی ہے، کہاں ملک کی آبادی ایوب خان کے زمانے میں اور کہاں آبادی کی یلغار جو آج ہماری گناہگار آنکھوں کے سامنے ہے۔ آبادی کے ساتھ معیشت کا حجم بڑھا ہے۔ ترقی بھی ہوئی ہے، طبقات کے طبقات کا معیار زندگی بہتر ہوا ہے۔ سڑکیں جو اَب ہیں پہلے نہ تھیں۔ جس قسم کی ٹریفک اِن سڑکوں پہ رواں دواں ہے پہلے اِس کا تصور بھی نہ ہو سکتا تھا‘ لیکن جہاں بہت مواقع تھے کہ ہم ترقی یافتہ قوم بن سکتے‘ ایسا نہ ہوا۔ وہ مواقع ہم نے گنوا دیئے اور اب درمیانی قسم کی قوموں سے موازنہ کیا جائے تو بیشتر لحاظ سے ہم پیچھے کھڑے ہیں۔ ایک زمانے میں ہم ترکی اور جنوبی کوریا جیسی ریاستوں کے ساتھ شمار ہوتے تھے۔ اب نہیں، وہ کہیں آگے جا چکے ہیں اور ہماری حالت کچھ مثالی نہیں۔
ایسے میں خیالات کا تھک جانا ایک قدرتی امر لگتا ہے۔ جب معلوم ہے کہ کچھ ہونا نہیں، مسائل نے زیادہ گمبھیر ہی ہونا ہے، تو پھر کیا فائدہ کہ ناصح بنے رہیں اور قوم کی معماری کی ترکیبیں پیش کرتے رہیں۔ نصیحت ویسے بھی بوریت پیدا کرنے والا عمل ہے۔ ایک حد سے زیادہ اولاد کو بھی سمجھائیں تو اُن میں اُکتاہٹ طاری ہو جاتی ہے۔ اِس صورتحال میں نہ چاہتے ہوئے بھی قوم کا درد ایک طرف رکھ دیا ہے۔ اب ملکی حالات کے بارے میں ہم سے کوئی بات کرنے کی کوشش کرے تو یا تو مسکرا دیتے ہیں یا عاجزانہ انداز میں کہتے ہیں کہ یار جانے دو کچھ اور بات کرو۔ وہی باتیں کرکر کے زبان گھِس چکی ہے اور ایک ہی قسم کی باتیں سن سن کے کانوں کا بھی برا حال ہے۔ اِس لئے بار بار یہی صدا اُٹھتی ہے کہ بس وقت ٹھیک طرح گزرنا چاہئے یعنی باہر دیکھنے کے بجائے اب بے اختیار اندر کو دیکھتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ہم کوئی خواجہ بن گئے ہیں اور اندر جھانک کے اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کا تخمینہ لگا رہے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں، بس اِتنی سی استدعا ہے کہ صحت ٹھیک رہے کیونکہ اِس کے بغیر زندگی کیا زندہ رہنے کی چاشنی ختم ہو جاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ جو شغل طبیعت کو خوش رکھنے کیلئے ضروری ہوں اُن کی عادت انسان پوری کر سکے۔
ہاں، یہ برملا کہنا پڑے گا کہ جس قسم کی زندگی کی یہاں نشاندہی کی جا رہی ہے اُس کیلئے ایک لازمی عنصر معقول آمدنی ہے۔ معقول کا مطلب یہ نہیں کہ پلازے در پلازے ہوں۔ لیکن اِتنا تو ہوکہ مہینے کے اخراجات پورے ہو جائیں اور مہینے کی آخری تاریخ کسی سے ادھار لینے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ معقول آمدنی نہ ہو تو انسان خجل خوار ہونے کی طرف چل نکلتا ہے۔ شغل بھی تب ہی پورے کئے جا سکتے ہیں کہ جیب میں کچھ ہو۔ یہ خواری جوانی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کسی چیز کی تمنا ہو اور اِتنی استطاعت نہ ہو کہ تمنا پوری ہو سکے۔ تمنا کیوں نہ ایک پرفیوم کی بوتل کی ہی ہو یا کسی روح افزا کی بوتل۔ ایسی ظلمتِ شب کا شاعر ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مرزا غالب کی طرح ہزاروں خواہشیں نہ ہوں لیکن شام ڈھلے چھوٹی سی خواہش ہو اور وہ پوری نہ ہو سکے۔ ہائے ایسی شب کا گزرنا۔ ایسے ہی نہیں لکھ رہے، ایسی شامیں گزاری ہیں لیکن یہ کسی پہ نہ آئیں۔ اِسی لئے گزارش ہے کہ فضول خواہشات سے بھری زندگی کیلئے معقول آمدنی ضروری ہے۔
ہم جو بارانی علاقوں میں رہنے والے ہیں ہماری ایک مجبوری ہے کہ بارش پہ تکیہ کرنے سے زمین کی پیداوار محدود ہوتی ہے۔ نہری علاقوں والا حال نہیں جہاں پیداوار ظاہر ہے زیادہ ہوتی ہے۔ اِس لئے عرصہ دراز سے یہاں کے رہنے والوں کیلئے کچھ نہ کچھ دھندہ کرنا ضروری سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بارانی علاقوں میں انگریز کے زمانے سے لے کر اب تک نوکری کی ایک روایت رہی ہے۔ یہاں کے لوگ بوجہ مجبوری فوج اور دیگر محکموں میں گئے۔ گزارہ تب ہی ہوتا تھا کہ سال کا اناج زمین سے آئے اور دیگر خرچے نوکری سے پورے ہوں۔ ایک لحاظ سے یہ تنگدستی اچھی تھی کہ تلاشِ روزگار میں لوگوں کو باہر جانا پڑا اور اِس جستجو میں تعلیم کی اہمیت کا بھی احساس ہوا‘ لہٰذا کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ راولپنڈی ڈویژن جو کہ خالصتاً بارانی علاقہ ہے شرح خواندگی اور معیار تعلیم کے حوالے سے بقیہ پاکستان کے مقابلے میں آگے سمجھا جاتا ہے۔
اخبار میں پڑھ رہا تھا کہ افغانستان کے ایک سابق وزیر خزانہ آج کل واشنگٹن میں اُوبر کی گاڑی چلا رہے ہیں۔ دربدر ہونا کتنا بڑا عذاب ہے۔ اِس تناظر میں جن کی کچھ آمدنی ہے یا جن کی نوکریاں لگی ہوئی ہیں اُنہیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ ایک زمانہ تھا کہ افغانستان بھی خوشحال ملک تھا۔ ظاہر شاہ کے زمانے میں کابل کی سیر کرنے لوگ دنیا سے آتے تھے۔ ہماری کوتاہیوں اور حماقتوں کے باوجود ملک تو ہمارا قائم ہے لیکن اِس سے کون غافل رہ سکتا ہے کہ ہمارے اوپر لاتعداد خطرات منڈلا رہے ہیں۔ آبادی ہماری کنٹرول سے باہر جا چکی ہے، معیشت خراب ہے، ملک کو جس طرح چلنا چاہئے ایسے نہیں چل رہا‘ اور ملکی قیادت نہایت ہی نکمی ہے۔ میں نے تو او آئی سی وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں وزیراعظم کی تقریر نہیں سنی لیکن وٹس ایپ پہ کسی کا پیغام آیا کہ جناب وزیراعظم کی تقریر کچھ تبلیغ نما تھی۔ اِنہیں کون سمجھائے کہ عالمِ اسلام میں تبلیغ یا نصیحت کی کوئی کمی نہیں۔ ہماری کمزوریاں اور بیماریاں تو اور ہیں۔ اللہ کرے اُن کمزوریوں کو دور کرنے کی صلاحیت ہم میں پیدا ہو۔
یوٹیوب پر غلطی سے وزیراعظم کی تقریر سن لی تو یقینِ کامل ہے دل میں خیال اٹھے گا کہ نہ ہم نے درست ہونا ہے نہ ہمارے لیڈروں نے۔ اِسی لئے جو راحت شام کے سایوں میں پڑی ہے اُسی کی طرف جانے کا ارادہ بندھے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں