ذوالفقار علی بھٹو آئے تو نچلے طبقات کا فائدہ ہوا اور سرمایہ دارانہ کلاس کچھ گھبرا سی گئی۔ جنرل ضیا آئے تو نصیحت کرنے والوں کا دبدبہ قائم ہوا اور افغانستان میں غلطی کرنے کی راہیں ہموار ہوئیں۔ عمران خان کی حالت خراب لگ رہی ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ جو قوتیں اُن کے ساتھ تھیں وہ تھوڑا پرے ہٹ گئی ہیں۔ کوئی معجزہ ہی اِنہیں بچا سکتا ہے اور پاکستانی تناظر میں معجزات ایک ہی طرف سے آتے ہیں، وہ سمت جو اَب اِن سے اِتنی خوش نہیں۔ لہٰذا فی الوقت معجزات کا آنا بھی رک گیا ہے‘ لیکن مفروضے کے طور پر عمران خان اقتدار سے فارغ ہوتے ہیں تو ہمارا، جس کا مطلب ہے عوام، کا کیا نقصان ہوگا؟ اِن کے جانے سے عوام کے ہاتھوں سے کون سی چیز چھِن جائے گی؟ اور اگر اِن کی جگہ کوئی اور اقتدار میں آتا ہے تو عوام کو کیا ملے گا؟
کرپشن، چوری اور ڈکیتی یہ سب باتیں ہیں۔ اِن موضوعات کو بنیاد بنا کر زعمائے سیاست افسانے گھڑنے کی صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ شہزاداکبر کو لے لیجئے، کرپشن کے خلاف کتنا بڑا چیمپئن بنتا تھا۔ اپنا الو سیدھا کیا یا نہیں اِس کے بارے میں ہم کیا کہیں لیکن اِتنا تو پتا ہے کہ جب تک کرپشن کے خلاف مہم اُن کی زیرنگرانی رہی وہ باتیں ہی کرتے رہے، قوم کو اور توکچھ حاصل نہ ہوا ۔ اُنہیں جب فارغ کردیا گیا تو کسی کو معلوم ہی نہیں وہ کہاں بیٹھے ہیں۔ حکومتوں کے آنے جانے سے بنیادی پالیسیوں میں کچھ فرق آئے پھر تو بات ہے۔ نہیں تو گفتار کے غازیوں سے عوام کو کیا ملنا ہے؟
حکمرانی کو پرکھنے کی کچھ کسوٹی ہونی چاہئے۔ نظام تعلیم، صحت عامہ کی پالیسی، ٹرانسپورٹ کی پالیسی اِن میں کوئی تبدیلی لاسکے گا؟ یہ بنیادی مسائل ہیں لیکن اِن کے بارے میں ہماری سیاسی پارٹیوں کی کوئی معمولی سی سوچ بھی نہیں۔ تقریروں میں بھی اِن امور کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ مطلب اِس کا یہی ہے کہ جو ہمارے مراعات یافتہ طبقات ہیں اِن کو یہ پالیسیاں سوٹ کرتی ہیں اور مراعات یافتہ طبقات ہی حکومتوں میں ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف ہو یا نون لیگ اور پیپلز پارٹی، سب کا اتفاق ہے کہ پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کو نہیں چھیڑنا۔ عوام کیلئے بات تو تب بنے کہ امیرلوگوں کی کچھ چیخیں نکلیں۔ معیشت کو فروغ ملنا چاہئے لیکن پلازوں اور بڑے بڑے گھروں جیسے اثاثوں پہ توکوئی ٹیکس لگے۔ ایسا پاکستان میں ہوتا نہیں‘ بس عوام کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کیلئے کہیں لنگرخانہ بن جاتا ہے‘ کہیں پناہ گاہ اور اعلان ہو جاتا ہے کہ ریاست مدینہ کی طرف یہ ایک اور انقلابی قدم ہے۔ یہ تنقید صرف عمران خان پہ نہیں، ہماری تمام سیاسی پارٹیاں اور تمام لیڈران کا تعلق ایک ہی تالاب اور حمام سے ہے۔ اِس لئے سمجھ نہیں آتی کہ کیوں ہمیں بخار چڑھے اگر ایک حکمران جا رہا ہے اور دوسرا کوئی آرہا ہے؟
ہم جو دیہات کے رہنے والے ہیں ہمیں پتا ہے کہ حکومتیں جیسی بھی ہوں اور جیسی بھی آئیں تھانوں اور پٹوار کے کلچر میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ پاکستان کی اصل کرنسی رشوت ہے اور نچلی سے لے کر اوپر کی سطح تک ہر کام میں رشوت ضروری سمجھی جاتی ہے۔ کاروباری لوگوں سے پوچھ لیں، برملا کہیں گے کہ رشوت کے بغیر یہاں کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ ہاں ہر حکومت آتی ہے تو اُس کے خاص بندے ہوتے ہیں جو اسلام آباد میں پڑاؤ کرنے آ جاتے ہیں۔ اُن کا فائدہ ہوتا ہے، اُنہی کی وساطت سے کام ہوتے ہیں۔ بڑے کاروباریوں‘ چاہے اُن کا تعلق انڈسٹری سے ہو یا زمین کے کاروبار سے‘ کا کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہوتا۔ اُنہوں نے اپنا کام چلانا ہوتا ہے اور وہ دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی نئی حکومت آئی ہے تواُس کے مؤثر چمچے کون سے ہیں۔ اُن سے تعلقات استوار کئے جاتے ہیں، شامیں اُن کے ساتھ گزرتی ہیں اورپھر کام اُن کے ذریعے ہوتے ہیں۔ وہ فائلیں لے لے کر اِدھر سے اُدھر جاکردستخط کرواتے ہیں۔ ہر حکومت کے اپنے چمچے اور کڑچھے ہوتے ہیں، نون لیگ کے اپنے مخصوص، پیپلز پارٹی کے اپنے اور کوئی کہے کہ یہ پی ٹی آئی والے فرشتے تھے اور اِن کے دور میں ایسا نہیں ہوتا تھا تو سمجھ رکھنے والے آگے سے ہنسی کے علاوہ اور کیا ردعمل دکھائیں۔ اِن کے دور میں بھی ایسے ہی چلتا رہا ہے۔
حیرانی تو اُن مڈل کلاسیوں پہ ہوتی ہے جو عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیوانے رہے ہیں اور اِن میں ایک خاطر خواہ تعداد اب بھی شاید دیوانہ وار اِن پہ مررہی ہو۔ اِن سے کوئی پوچھے کہ تبدیلی کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ تبدیلی تو بنیادی پالیسیوں میں ہونی چاہئے۔ رنگ و روغن کی تبدیلی سے توکوئی فائدہ نہیں پہنچتااور یہاں تو رنگ وروغن بھی تبدیل نہیں ہوا۔ کوئی تبدیلی کا خاکہ تو دیتا، قوم کو بتایا جاتا کہ اِن اِن امور میں فلاں تبدیلیاں لائی جائیں گی۔ ایسا کچھ نہیں ہوا‘ محض ایک ہی تقریر ساڑھے تین سال سنتے آئے ہیں۔ پہلے بھی ایک بار کہہ چکا ہوں کہ لینن کی تمام کتابوں میں روس کے ماضی کے حکمرانوں کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ہرکتاب حال اور مستقبل کے بارے میں ہے کہ کمیونسٹ انقلاب میں ہم کو کیا کرنا ہے۔ یہاں کی باتوں سے تو الرجی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور جب ایک ہی تقریر ہو اور اُس میں موضوع بھی ایک ہی ہوتو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دل و دماغ پہ کیا گزرتی ہوگی۔
لیکن یہ بیکار کی باتیں ہیں۔ پاکستانی سیاست اِتنی بے معنی ہوچکی ہے کہ اب کسی پر تنقید کرنے کا بھی دل نہیں کرتا۔ نوازشریف کی لندن والی جائیدادوں کا کتنی بار ذکر کیا جائے؟ زرداری صاحب یا اُن کے کارناموں کے بارے میں نئی چیز کیا کہی جاسکتی ہے؟ یہی حال عمران خان کا ہے۔ کتنی بار کہا جائے کہ وہ بغیر تیاری کے اقتدار میں آئے۔ معاشی سوچ پی ٹی آئی والوں میں بالکل نہیں تھی۔ پختونخوا اور پنجاب کے بارے میں جو اُنہوں نے منصب دار چنے اُن کے بارے میں کیا نئی چیز کہیں؟ یہ گھِسے پٹے موضوع ہو چکے ہیں۔ اب تو آگے کو دیکھنا چاہئے کہ آگے کیا ہونے جارہا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے بارے میں کچھ نہیں پتا کہ اِنہوں نے آگے کی تیاری کیا کی ہے۔ اِن کے ذہن ایک ہی بات پہ مرکوز ہیں کہ عمران خان کو ہٹانا ہے۔ مفروضے کے طور پر مان لیا جائے کہ چلے جاتے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟ اور جنہیں ہم معروف اصطلاح میں طاقتور حلقے کہتے ہیں اُن کے سامنے کون سا خاکہ ہے؟ ایک بات واضح ہونی چاہئے کہ اِن حلقوں کی امداد کے بغیر 2018ء میں عمران خان اقتدار میں نہیں آسکتے تھے۔ جو پی ٹی آئی والے اِس بات سے انکار کریں وہ حقیقت کی دنیا میں نہیں رہ رہے۔ چلیں اگر اِن کی امداد ناگزیر تھی اور اب یہ تھوڑے دور ہٹ گئے ہیں تو ایک لحاظ سے یہ غلطی کا اقرار ہے کہ تب ہم سے بھول ہوئی۔ اگر بھول ہوئی تو اب کیا ضمانت ہے کہ آئندہ بھول نہیں ہوگی؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی حلقے طاقتور ہوں یا کمزور اُنہیں اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے اور سیاست میں انجینئرنگ کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ سیاست دانوں کو اپنی سوچ رکھنی چاہئے اور دوسروں کے اشاروں پہ ناچنے سے گریز کرنا چاہئے۔ بڑے سیاست دان ہیرا پھیریوں میں رہیں تو پھر فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور مداخلت کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔ ہماری فکر تو بس اِتنی ہے کہ یہ سیاسی قحط الرجال کہیں سے ختم ہو اور ڈھنگ کی کوئی قیادت آئے۔