یہ جو لاہور کے کیولری گراؤنڈ میں پھڈا ہوا جس میں ایک حاضر سروس آرمی آفیسر کو برسر عام تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہماری اصلیت یہ ہے۔ مارنے والے کسی مقامی سیاستدان کے پرائیویٹ گارڈ تھے۔ راہ چلتے معمولی تکرار ہوئی، گارڈوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ کار میں سوار شخص کو مارنے پیٹنے لگ گئے۔ یہ تو ہمارا روز کا مشاہدہ ہے کہ کہیں سے گاڑیاں گزرتی ہیں اور آپ کی گاڑی راستے میں آ گئی تو کس بھونڈے انداز سے پولیس والے یا پرائیویٹ گارڈ ہاتھ ہلا ہلا کے تضحیک کرنے کے انداز میں اشارہ کرتے ہیں کہ ہٹ جاؤ۔ ایسا کسی جاہل معاشرے میں ہی ہو سکتا ہے۔ اوپر بیان کردہ معاملہ متعلقہ تھانے میں جا چکا ہے اور امید واثق کی جا سکتی ہے کہ بات مک مکا پہ ختم ہو جائے گی حالانکہ ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات کا مناسب علاج قانون کی موشگافیوں کے بجائے اُس چیز میں ہے جسے عموماً ٹکور کہا جاتا ہے۔
کراچی ملیر کا واقعہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ ایک تو ناظم جوکھیو‘ جسے تشدد کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھونا پڑے‘ کوئی سرپھرا قسم کا انسان ہوگا۔ کوئی ایم این اے اور ایم پی اے کے غیرملکی مہمان خلاف قانون شکار کررہے ہیں تو تمہیں کیا پڑی ہے فوٹو لینے کی؟ اگلوں نے جب دیکھا کہ ناظم جوکھیو ایسی حرکت کررہا ہے انہوں نے اُسے اِتنا سبق سکھایا کہ جان ہی چلی گئی۔ شورشرابا مچا، سوشل میڈیا پر معاملہ آ گیا اور مقدمہ بنا لیکن نہ ایم این اے گرفتار ہوا نہ ایم پی اے۔ ایم این اے صاحب تو دبئی چلے گئے اور شاید وہاں سے ہی انہوں نے اپنی حفاظتی ضمانت کا بندوبست کیا۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ناظم جوکھیو کی بیوہ میڈیا کے سامنے آئی اور ہاتھ جوڑتے ہوئے اُس نے کہا کہ اُس کے بس کی بات نہیں کہ مقدمے کی پیروی کرے۔ وہ مقدمے سے دستبردار ہوتی ہے اور معاملہ اللہ پہ چھوڑتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بے بس اور لاچار انسان اپنے معاملات اللہ پر ہی چھوڑتے ہیں۔ اب پتا چلا ہے کہ تفتیش میں ایم این اے اور ایم پی اے صاحبان جرم وار نہیں پائے گئے۔
یہاں اسلام آباد میں اگلے روز پبلک اکاؤنٹس کمیٹی والوں نے چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال کو طلب کیا‘ یہ پوچھنے کیلئے کہ یہ کیسے ہوا کہ ایک بااثر شخصیت سے برطانوی حکام منی لانڈرنگ کے ضمن میں پیسے ریکور کرتے ہیں اور فیصلہ سناتے ہیں کہ یہ پیسہ ریاستِ پاکستان کا بنتا ہے‘ لیکن احتساب والے شہزاد اکبر نے اُس کو یہ اجازت دی کہ ضبط شدہ رقم کو اپنے استعمال میں لا سکیں اور جو پیسہ جو اس شخصیت نے عدالت کے حوالے کرنا تھا وہ اِس مد میں تصور کرلیا جائے؟ جناب چیئرمین کے پاس کوئی جواب نہ تھا اور انہوں نے کہا کہ ریکارڈ کی چھان بین کرکے کچھ جواب دے سکیں گے۔
اصلیت پاکستان کی یہ ہے جو اِن واقعات میں نظر آتی ہے۔ عمران خان کیا لگے ہوئے ہیں کہ یہ غیر ملکی سازش ہو گئی اور امریکہ نے وہ کرڈالا۔ مسائل یہاں کچھ اور ہیں واویلیاں آپ کچھ اورمچاتے رہے ہیں۔ ساڑھے تین سال آپ حکومت میں رہے۔ تسبیح پھیرتے رہے، ریاستِ مدینہ کی باتیں کرتے رہے، اِس معاشرے کے ماحول میں تھوڑی سی بھی تبدیلی آپ لا سکے؟ سیاسی مخالفین کی تو آپ باتیں کرتے رہے لیکن آپ کی کسی پالیسی سے یہاں کے طاقتور طبقات کی صحت پہ کوئی اثر پڑا؟ جو طبقات پہلے مزے لوٹتے تھے اب بھی ایسا کررہے ہیں، آپ تو محض تقریریں ہی کرتے رہے۔
مقصد عمران خان پر تنقید نہیں‘ مقصد یہ بتانا ہے کہ حکمران کیسے آتے ہیں اور کس انداز سے اپنا اور قوم کا وقت ضائع کرکے چلے جاتے ہیں۔ عمران خان کی ساڑھے تین سالہ حکومت نہ ہوتی تو پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑنا تھا، شاید حالات بہتر ہی ہوتے کیونکہ جیساکہ شوکت ترین کہہ رہے ہیں پی ٹی آئی گورنمنٹ اقتدار میں آئی تو اُس کے پاس کوئی معاشی پلان نہ تھا۔ کورے کاغذ اپنے ساتھ لے کر آئے تھے جن پر کچھ نہ لکھا تھا‘ لیکن عمران خان کے پاس موقع تو تھا، طاقتور حلقوں کی حمایت بھی تھی۔ پہلے دو سال اپوزیشن جماعتیں چپ سادھ کر بیٹھی ہوئی تھیں، عمران خان کیلئے کوئی پرابلم پیدا نہیں کررہی تھیں۔ آپ توجہ حکومت پہ دیتے لیکن آپ کی ترجیح فضول کی تقریریں کرنا تھی۔ معنی سے خالی تقریریں، کھوکھلی تقریریں، لیکن اور کچھ شاید آپ کو آتا ہی نہیں تھا۔ اور یہ نہیں کہ عمران خان نے ہی قوم کا وقت ضائع کیا، جنرل پرویز مشرف کم از کم دو سال تک سیاہ و سفید کے مالک تھے، بہت کچھ کر سکتے تھے، لیکن اُن کا وقت بھی ایسا ہی گزر گیا۔ البتہ اِتنی بات کہنی پڑتی ہے کہ مشرف حکومت کی معاشی مینجمنٹ عمران خان حکومت کی مینجمنٹ سے کہیں بہتر تھی۔ زرداری حکومت آئی وہ اپنا الو سیدھا کرتے رہے۔ نوازشریف اور اُن کی پارٹی اقتدار میں آئی اور یہ لوگ ملکی خزانہ لٹانے اور اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف رہے۔
لہٰذا سوال یہاں کسی ایک شخص کا نہیں ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ اِس پیمانے پر ہم اِتنے نکمے اور اِتنے خودغرض کیسے پیدا کرلیتے ہیں؟ پچھلے چالیس سال صرف ایک ہی سربراہِ حکومت ڈھنگ کا لگتا ہے اور وہ تھے محمد خان جونیجو ۔ کوئی غیر معمولی انسان نہ تھے، کوئی خاص اُن میں ایسی خوبی بھی نہ تھی لیکن تین سال جو وہ وزیراعظم رہے قاعدے قانون کو سامنے رکھ کر کام کیا، دفتر آتے فائلوں کو نمٹاتے، قانون کے مطابق احکامات جاری کرتے۔ کرپشن کا شائبہ تک اُن کے نزدیک نہ آیا۔ پاکستان کا ستم یہ ہے کہ کوئی بھی ڈھنگ کا کام کیا جائے وہ غیر معمولی لگتا ہے کیونکہ اکثر کام یہاں بے ڈھنگے ہوتے ہیں۔ یہ جو حکمرانوں کا ہمارے ہاں شوق رہتا ہے خواہ مخواہ فیتے کاٹنے کا‘ اِس مرض سے محمد خان جونیجو مبرا تھے۔ تین سال اُنہوں نے نارمل کام کیا، کرپشن کے الزامات پہ تین تگڑے وزرا کو ہٹایا، اوجڑی کیمپ کا دھماکہ ہوا تو جنرل ضیاالحق کی ناراضی مول لی۔ جنیوا میں افغانستان کے بارے میں بات چیت ہورہی تھی تو اسلام آباد میں انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو صلاح مشورے کیلئے بلا لیا بشمول بے نظیر بھٹوکے۔ یہاں جو آتا ہے ناٹک کرنے لگتا ہے، بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں، روزمرہ کا کام صحیح طریقے سے نہیں ہوتا۔
پاکستان کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اِس کے کھاتے کی کتابیں درست رکھی جائیں۔ دیکھا جائے آمدن کیا ہے، آمدن کو بڑھانے کی کوشش کی جائے اور پھر آمدن کے دائرے میں رہتے ہوئے ضروری ترجیحات پہ خرچہ کیا جائے۔ آمدن کو کوئی یہاں دیکھتا نہیں خرچے بس کئے جاتے ہیں۔ کھاتے کی کتابیں درست نہ رہیں تو کشکول نکال لیا جاتا ہے اور ہر دروازے پہ دستک دی جاتی ہے۔ اوروں نے ایسا کیا عمران خان نے بھی ایسا ہی کیا۔ پھر ہمیں غلامی کا بھاشن کیا سنا رہے ہیں؟
جنرل ضیاء اور جونیجو کا زمانہ پھر بھی سادہ زمانہ تھا۔ دولت کے پیچھے تب بھی لوگ لگے ہوئے تھے‘ لیکن جو آج کل نفسانفسی کا عالم ہے یہ اِتنا نہ تھا۔ زمین کے کاروبار نے اِس ملک کی شکل بگاڑ دی ہے۔ جو پیسہ ہے زمین اور پلاٹوں میں لگ رہا ہے، جن اداروں کو اِس کاروبار سے دور رہنا چاہئے وہ بھی اِس میں ملوث ہیں۔ پاکستان کو نارمل حکمران چاہئیں، جو باتیں کم کریں کام پہ توجہ زیادہ دیں۔ ہمارا المیہ ہے کہ یہ سادہ سی خواہش بھی پوری نہیں ہو پاتی۔