دو دن پہلے ایک مضمون پڑھنے سے موڈ خراب ہو گیا۔ مضمون ہماری گندم کی پیداوار کے بارے میں تھا کہ کیسے اِس سال بھی قومی ضروریات سے گندم کی پیداوار دو ملین ٹن کم رہے گی اور کمی پوری کرنے کے لیے گندم‘ جو ہمیں باہر سے خریدنی پڑے گی‘ پہ لگ بھگ 1.2 بلین ڈالر خرچہ آئے گا۔ سوچا اور ہم کون سی توپیں چلاتے ہیں کہ اپنی کھانے کی چیزیں بھی پیدا نہیں کر سکتے۔ کس قسم کا ہمارا زرعی ملک ہے کہ گندم بھی باہر سے، کبھی کبھی چینی بھی باہر سے اور خوردنی تیل کے لیے پام آئل بھی ہم باہر سے خریدتے ہیں۔ کمپیوٹر اور مشینری ہم نے کون سی بنانی تھی، یہ چیزیں تو پوری ہو جاتیں لیکن یہ بھی ہم نہیں کر سکتے۔
یہ جو ہم کہتے نہیں تھکتے کہ اللہ کا دیا ہمارے پاس بہت کچھ ہے‘ بہت کچھ تو یقیناً ہے لیکن کئی چیزیں ہمارے پاس نہیں ہیں‘ مثلاً تیل نہیں ہے۔ ہمارے عرب بھائیوں کی کیا خوبی ہے، وہاں سے تیل اور گیس نکل آئے ہیں اور اِن کی وجہ سے دولت آنے پر اِتراتے پھرتے ہیں۔ ہمارے پاس تیل نہیں ہے اور ہوتا بھی تو شاید ہم اپنا حشر نائیجیریا والا کر لیتے جہاں تیل کی دولت تو تھی لیکن لوٹ مار بھی اِتنی ہوئی کہ ملک کی حالت خراب ہی رہی اور اب تک خراب ہے۔ احسن اقبال‘ جو اپنے آپ کو بہت دانش ور سمجھتے ہیں‘ نے جو بات کہی کہ ہم کیوبا یا شمالی کوریا نہیں بننا چاہتے اور ہم ملائیشیا اور ترکی کی طرح ترقی کرنا چاہتے ہیں‘ تو اُنہیں شاید کیوبا کے بارے میں اِتنی معلومات نہیں۔ کیوبا کے پاس کوئی تیل یا گیس نہیں لیکن فیڈل کاسترو اور انقلابِ کیوبا کی صورت میں ایک عظیم قیادت مہیا ہوئی جس کی بدولت غربت میں بھی وہ اپنے پاؤں پہ کھڑے رہے، امریکہ کو للکارتے رہے اور ملک میں ایسا صحتِ عامہ اور تعلیم کا نظام رائج کیا کہ دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔ پاکستان میں ایسا تعلیمی نظام اور صحتِ عامہ کا ایسا بندوبست ہو جائے تو اور ہمیں کیا چاہئے۔ جہاں ہر بچے کی تعلیم مفت ہو اور اعلیٰ درجے کی ہو اور جہاں ہر آدمی کو علاج معالجے کی سہولت میسر ہو اِس سے بہتر ریاست کیا ہو سکتی ہے۔ ہمارے پاس نہ صحت کا اچھا نظام‘ نہ تعلیمی نظام اور جو ہونا چاہئے وہ بھی نہیں ہے‘ زرعی ملک کہلانے کے باوجود ظلم تو دیکھئے کہ کھانے کی چیزوں میں بھی ہم خود کفیل نہیں۔ ہاں تیل اور گیس یہاں اُس لحاظ سے نہیں نکلتی لیکن زمین اور پانی تو ہے۔ ہماری عقل اور ہمت کو کون سا زنگ لگا ہوا ہے کہ زمین اور پانی کا استعمال بھی ہم اُس انداز سے نہیں کر پاتے جیسا کہ کرنا چاہئے۔
سیاسی لڑائیاں ہوتی رہیں گی۔ جہاز بھر بھر کے حکومتی لوگ عمرہ ادا کرنے کے لیے جاتے رہیں گے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی ہم اِتنے نکمے کیوں ہیں۔ امیروں کی زندگی یہاں اور ہے اور بیشتر آبادی کے حالات اور ہیں۔ اونچ نیچ اِتنی ہے ہمارے معاشرے میں کہ شرم آنی چاہئے لیکن شرم نام کی چیز اِس دھرتی سے جا چکی ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ہر دوسرے تیسرے مہینے ہم اپنی دفاعی صلاحیت کا ٹیسٹ کرتے ہیں اور پھر فخریہ اعلان ہوتا ہے کہ فلاں ہتھیار کی مار اِتنے سو کلومیٹر ہے‘ ہمارے پاس ایٹمی ذخیرہ اِتنا ہو چکا ہے کہ پورے ہندوستان کو تباہ کر دیں۔ ایسی ہی صلاحیت ہندوستان کے پاس ہے۔ مناسب دفاع کا ہونا لازمی ہے، اِس کے بغیر کوئی چارہ نہیں‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اور چیزیں بھی ہونی چاہئیں۔ اِتنا بڑا ملک ہے آبادی کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے لیکن مانگے پہ گزارہ کر رہے ہیں۔ کشکول لیے دنیا کے چکر لگاتے ہیں، کہیں کہیں سے خیرات مل جاتی ہے اور کچھ عرصے کے لیے گزارہ ہو جاتا ہے‘ لیکن ایک حیرانی تو رہتی ہے کہ ہمارے اوپر کے طبقات بہت امیر ہیں، اتنے کہ کسی ملک کے امیر طبقے سے مقابلہ کر سکتے ہیں، لیکن ملک کا ذکر دنیا کی فہرستوں میں کہیں نیچے آتا ہے۔ ہمیں شرم آنی چاہئے لیکن جیسا عرض کیا شرم نام کی چیز یہاں سے جا چکی ہے۔
کیا سے کیا یہ ملک بن سکتا تھا لیکن پتا نہیں کن راہوں پہ ہم چلے کہ وسائل اور مواقع برباد کئے اور اپنی موجودہ حالت پہ پہنچ گئے ہیں۔ 1947ء میں ہم امیر ملک نہ تھے لیکن ترقی کا انفراسٹرکچر ہمارے پاس موجود تھا۔ ایڈمنسٹریشن کا نظام، عدالتوں کا نظام، قانون کی کتابیں، جمہوریت کا سبق، پانی اور نہروں کا نظام، ریلوے کا نظام، سب ہمارے پاس تھے۔ مشرقی پاکستان کو چھوڑ کر جو علاقے اب پاکستان کہلاتے ہیں اِن پر کل آبادی صرف ساڑھے تین کروڑ تھی‘ یعنی انسانوں اور زمین کا تناسب اِتنا خوبصورت تھا۔ اِس تناسب کو ہم نے برباد کر کے رکھ دیا اور اب وہ آبادی جو ساڑھے تین کروڑ تھی بائیس کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نظاموں کا جو حشر ہم نے کیا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ تعلیم میں جو تفریق انگریز بنا کے چھوڑ گئے تھے اُس تفریق کو ہم نے گہرا کیا ہے۔ ریلوے نظام اِتنا خوب صورت تھا، ہم نے تباہ کر دیا۔ روسیوں نے غلطی کی ہمیں ایک سٹیل مل دے کر، وہ واحد سٹیل مل ہم سے نہ چل سکی۔ ایئر مارشل نور خان ایک اچھی ایئر لائن بنا گئے تھے‘ اُسے ہمیں نے برباد کر دیا۔ اِتنا رونا دھونا اچھا نہیں لیکن جب خیال آتا ہے کہ ہماری قومی زندگی کیا رہی ہے تو ملال تو دل میں اُٹھتا ہے۔
سیاست اور حکمرانی کو دیکھ لیں۔ کوئی چیز ہم سے ٹھیک نہیں ہوتی۔ موجودہ صورت حال دیکھ لیں، ہرطرف افراتفری ہے، ہر چیز متنازع بنتی جا رہی ہے۔ کسی نکتے پر قومی اتفاق نہیں، ہر کوئی اپنی طرف چیزوں کو کھینچ رہا ہے۔ یہی کہنا کیا کافی ہے کہ ملک قائم ہے؟ کرۂ ارض پر بہت سے ملک قائم ہیں لیکن قومی زندگی کا کوئی مقام تو ہو، کچھ فخر تو کر سکیں اپنے ملک پر۔ ہماری عمر کے لوگوں کی بد قسمتی یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی زندگی میں ایک مختلف پاکستان بھی دیکھا ہے جس میں قومی زندگی ایک اور انداز سے چلتی تھی۔ رشوت اور بد عنوانی تب بھی تھی لیکن اِس حساب سے نہیں۔ سڑکیں اِتنی کشادہ نہ تھیں لیکن ٹریفک کسی ڈھنگ سے چلتی تھی۔ ریلوے کا نظام کام کرتا تھا۔ ٹرینیں ٹائم پر چلتی تھیں۔ قومی ایئر لائن کا معیار معیاری تھا۔ لاہور، کراچی اور راولپنڈی آج کی نسبت سے چھوٹے تھے لیکن صفائی زیادہ تھی، شہروں کی خوب صورتی زیادہ تھی۔ مسلمان معاشرہ یہ تب بھی تھا لیکن آج جو ہم دوغلا پن اور منافقت دیکھتے ہیں، کہنا کچھ اور کرنا کچھ اور، یہ اِتنا نہ تھا۔ ہم جیسے لوگ یہ نہیں چاہتے کہ ہم فلاں ملک جیسے ہو جائیں۔ ہم تو فقط یہ چاہتے ہیں کہ کسی کرشمے سے وہ پرانا پاکستان جو ہم نے اپنی نوعمری میں دیکھا تھا کہیں سے لوٹ آئے۔
حالات دیکھتے ہیں تو رونا ہی رہ جاتا ہے۔ میں گندم سے شروع ہوا تھا، اپنی ضرورت کے مطابق ہم سے گندم تو پیدا ہونی چاہئے۔ خوردنی تیل کی ضرورت کے لیے باہر سے اجناس تو نہ منگوانا پڑتیں۔ ہمارا قومی کھانا ہے کیا؟ روٹی اور کچھ سالن۔ اگر آٹے اور سالن کی ضرورت بھی باہر سے پوری ہونی ہے اور اِس ضرورت کو پوری کرنے کے لیے جیب میں پیسے بھی نہیں تو پھر قومی زندگی کے بارے میں ہم کیا کہیں گے؟