جو خواہ مخواہ کا تماشا پاکستان میں رچایا گیا ہے اِسے دیکھ کے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ حالات معمول کے مطابق چل رہے تھے لیکن پنگا لینا تھا اور عدم اعتماد کا شوشا چھوڑنا تھا۔ حالات قابو میں رہتے تو کوئی بات نہ تھی لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ حالات بے قابو ہوتے جا رہے ہیں۔ معیشت کی حالت خراب سے خراب تر ہو رہی ہے۔ ڈالر کی تو بات ہی نہ کیجئے، اِس کا ذکر کر کے خود کو پریشان کرنا ہے۔ اب جو پیچھے بیٹھے انجینئر ہیں‘ جو اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں وہ بھی پریشان بیٹھے ہیں اور آئے روز کسی نہ کسی شکل میں کہہ رہے ہیں کہ ہم پہ دشنام طرازی نہ کی جائے کیونکہ یہ قومی مفاد میں نہیں ہے۔ درست، لیکن یہ جو خواہ مخواہ کا تماشا رچایا گیا‘ کیا یہ ملکی مفاد میں تھا؟
ایسے میں نونی بہروپیوں کو تو دیکھا جائے۔ لندن میں بیٹھے سزا یافتہ اور عدالتوں کے مفرور نواز شریف تالی بجاتے ہیں تو پوری حکومت پروازِ لندن ہو جاتی ہے۔ بہروپیوں کو کوئی پروا نہیں کہ یہ سفر کیسا لگے گا، عوام کن نظروں سے اِس کو دیکھیں گے اور کیا کیا سوالات اِس عقل سے عاری اقدام پہ اُٹھ سکتے ہیں۔ پروا تب ہو جب کچھ احساس ہو۔ جب یہی نہ رہے تو ایسے ناٹک کرنے سے کچھ محسوس نہیں ہوتا‘ لیکن عبرت نام کی بھی کوئی چیز ہے۔ نام کے وزیر اعظم اور اُن کے وزرا لندن پہنچتے ہیں تو مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ میٹنگ کہاں کی جائے کیونکہ دنیا کا کوئی کونا نہیں رہا جہاں یہ بہروپیے جائیں اور پاکستانی آوازیں نہ کَسیں اور نعرے نہ لگائیں‘ لہٰذا تماشا تو دیکھیے کہ نون لیگ کے ٹاپ لیول کا اجلاس کسی خفیہ مقام پر ہوتا ہے تاکہ لندن میں مقیم پاکستانیوں کے غیظ و غضب کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
یہ فضول کے سوالات ہیں کہ ملک کا وزیر اعظم کون ہے‘ لندن میں مقیم مفرور یا وہ جسے اَب جلسوں میں چیری بلاسم کے نام سے پکارا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم جو بھی ہو حالات اِن کے قابو میں نہیں اور اِن سے یہ فیصلہ بھی نہیں ہو پا رہا کہ ہمیں کرنا کیا ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھائیں تو عوام کی عدالت میں مارے جاتے ہیں۔ نہ بڑھائیں تو معیشت‘ جو پہلے ہی سنبھالی نہیں جا رہی‘ مزید تباہی کی طرف جاتی ہے۔ انتخابات کے بارے میں کچھ فیصلہ کرنے سے یہ ٹولہ قاصر ہے۔ نوشتۂ دیوار ہے کہ فوری انتخابات ہونے چاہئیں لیکن انتخابات کی طرف جائیں تو عمران خان اِنہیں پِیٹ کے رکھ دے۔ ایسی درگت اِن سب کی بنے جو تاریخ میں یاد رکھی جائے لہٰذا پریشانی کے عالم میں یوں پڑے ہیں جیسے کوئی فالج زدہ مریض ہو۔ اِس صورتحال میں پھر وہی سوال جس کا کوئی جواب نہیں مل رہا کہ پھر پنگا لینے کی ضرورت کیا تھی؟ اِس سوال کا جواب نہ یہ سیاسی نمونے دے پا رہے ہیں نہ پیچھے بیٹھے عامل اور انجینئر۔
اِن سب میں سے عقل مند آصف زرداری ہے جو کہہ رہا ہے الیکشن نہیں ہو سکتے جب تک دو چیزیں نہ ہوں، انتخابی اصلاحات اور نیب کے قانون میں ترمیم۔ یہ بات ہوئی نا، سارا مسئلہ ہی نیب کے قانون کا ہے۔ اِن دونوں پارٹیوں کے لیڈروں پر خطرناک مقدمات کا پلندہ پڑا ہوا ہے۔ سارے کے سارے مختلف مقدمات میں ضمانتوں پر ہیں، کیا نونیے اور کیا پیپلیے۔ ظاہر ہے پھر ضرورت اِس امر کی بنتی ہے کہ نیب کا سارا قانون ایسا ختم ہو یا اِس میں ایسی ترامیم کی جائیں کہ اِس قانون کے دانت نکال دیئے جائیں تاکہ سارے مقدمات اپنی موت خود مر جائیں۔ جہاں تک انتخابی اصلاحات کا تعلق ہے یہ تو ایک عذر اور ڈھکوسلا ہے۔ صحیح معنوں میں اصلاحات کا مطلب تو یہ ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملے۔ وہ کسی نے دینا نہیں کیونکہ سب جانتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں میں 90-95 فیصد عمران خان کے حمایتی ہیں۔ اِن لوگوں کو ووٹ دینے کا خطرہ کیسے مول لیا جا سکتا ہے؟
یہ صورتحال کچھ 1977ء والی بن رہی ہے جب ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے محروم تو کر دیا گیا‘ لیکن یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بھٹو کی مقبولیت کا کیا کیا جائے۔ مارشل لا لگا تو سارے لیڈر گرفتار ہوئے۔ رہائی ملنے پر بھٹو جب ملتان اور لاہور آئے تو عوام کا ردِ عمل اور جوش و خروش ایسا تھا کہ لگا جیسے زمین ہل گئی ہو۔ جنرل ضیا اور اُن کے ساتھی ڈر گئے اور یہی سوچا گیا کہ بھٹو کا کچھ مستقل علاج کرنا ضروری ہے۔ یہ وہ کیفیت تھی جس میں بھٹو کو قتل کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا۔ ظاہر ہے اب صورتحال ایسی نہیں کہ پھر سے قتل کے مقدمے قائم کئے جائیں لیکن ڈر وہی ہے کہ عمران خان کا کیا کیا جائے۔ جلسے ایسے ہو رہے ہیں کہ اُنہیں دیکھ کے یقین نہیں آتا کہ عوام کہاں سے آ رہے ہیں۔ اِس صورتحال میں آصف زرداری کا صائب مشورہ ہے کہ فوری انتخابات نہ کرائے جائیں کیونکہ پتا ہے کہ انتخابات ہوئے تو پِٹ جائیں گے‘ لیکن موجودہ بحران سے پھر نکلا کیسے جائے؟ راستہ کیا ہے؟ کسی کی سمجھ میں نہیں۔ جنرل ضیا کا زمانہ ہوتا تو حل آسان تھا کہ مارشل لا لگا کر سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی جاتی‘ لیکن یہ وہ زمانہ نہیں۔ اب ایسا ہو نہیں سکتا، نتیجتاً انجینئروں کے پاس بھی دانت چبانے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں۔ تنبیہ پہ تنبیہ کی جا رہی ہے لیکن عوا م ہیں کہ ایسی باتوں کا نوٹس ہی نہیں لے رہے‘ اور معاشی حالت مزید بگڑتی جا رہی ہے اور کسی کے پاس‘ بشمول انجینئروں کے‘ کوئی حل نہیں۔
اطمینان کی بات اگر ہے تو صرف یہ کہ ہمارے حالات ابھی تک سری لنکا والے نہیں ہوئے۔ وہاں تو ہم نے دیکھا ہے کہ وزیر اعظم، وزیروں اور حکمران پارٹی کے ممبرانِ اسمبلی کا حشر کیا ہوا ہے۔ وزیروں کے گھروں پر حملے ہوئے ہیں اور اُنہیں جلا دیا گیا ہے۔ خدا کا شکر ہے یہاں کے حالات اِس نہج تک نہیں پہنچے لیکن لیڈروں کی حرکات دیکھیں تو لگتا یوں ہے کہ یہاں پوری کوشش ہو رہی ہے کہ سری لنکا والے حالات بنیں۔ ہر کسی کی عقل پہ تالے لگے ہوئے ہیں اور ہر کوئی سوچ کی صلاحیت سے محروم لگتا ہے۔
ہم جیسوں نے اور کیا کرنا ہے‘ درخواست ہی کر سکتے ہیں۔ درخواست یہ ہے کہ یہ تماشا مہنگا پڑا ہے اور اِسے اب ختم ہونا چاہئے۔ غلطی کیا غلطان آپ سے ہو گیا‘ لیکن تاریخ کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ ناکامی کو تقویت نہیں دینی چاہئے۔ انتخابات کا اعلان ہونا چاہئے اور اِن نونیوں اور پیپلیوں کی باتوں پر کان نہیں دھرنے چاہئیں۔ اِن لوگوں کے اپنے مفادات ہیں۔ اِن کو قوم کی کیا پڑی ۔ اِن کی باہر کی جائیدادیں اور دولت کے انبار ہیں۔ اِنہوں نے اُن کو بچانا ہے۔ اِن کی باتیں سنی گئیں تو قوم مزید تباہی کی طرف جائے گی‘ لیکن ایسا کون سوچے گا، ہمت کہاں سے آئے گی؟ ہاتھ رکھنے والے کون تھے یہ سب کو علم ہے لیکن جیسے خرگوش ہیڈ لائٹوں میں آتا ہے تو بالکل رک جاتا ہے کچھ کرنے سے قاصر ہوتا ہے یہاں بھی یہی حالت دکھائی دیتی ہے۔ سارے ہیڈ لائٹوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
لیکن یہ تو کوئی پوچھے کہ انتظار کس چیز کا ہے؟ کیا سری لنکا والے حالات پیدا ہوں پھر ہم خوش ہوں گے؟ بات تو ایسی ہی لگتی ہے۔ جب اقتدار اُن ہاتھوں میں دے دیا جائے جن ہاتھوں نے سالہا سال سب کچھ سمیٹا اور سمیٹتے ہی چلے گئے۔ ایسے لوگوں سے توقع کیا کی جا سکتی ہے؟ یہ کون سے کارنامے سرانجام دیں گے؟ کیسے عجیب مخمصے میں قوم کو ڈال دیا گیا ہے۔