چیخیں نکلیں نا؟ اور نکلیں گی۔ یہ تو شروعات ہے اور ابھی بہت سفر باقی ہے۔ پاکستان کا علاج نہیں ہو گا‘ اجاڑ ہو گا۔ عوام تو پہلے ہی لٹے ہوئے ہیں لیکن مزید لٹنے کے لیے تیار رہیں۔
ہماری پیدائش میں خامیاں تھیں لیکن بار بار کے ذکر سے فائدہ کیا۔ خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود ملک تو بنا اور پھر چل بھی رہا تھا۔ باہر سے لوگ آتے تو ہمارے ملک اور یہاں کے لوگوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے۔ شروع کے دنوں میں بہت کچھ ٹھیک تھا‘ بہت کچھ چلتا تھا۔ مشکلات بہت تھیں لیکن ناامیدی نہ تھی۔ لوگوں میں جذبہ تھا‘ ایک اُمنگ تھی کہ ہم آگے کو بڑھیں گے۔ آج یہ سوچیں تو حیرانی ہوتی ہے لیکن ایک وقت تھا جب یہاں کے لوگ سمجھتے تھے کہ اس ملک نے بڑا ملک بننا ہے‘ ترقی کرنی ہے‘ آگے کو جانا ہے۔
پھر پتا نہیں کیا ہوا‘ کسی کی نظرِ بد لگی یا کچھ اور ہوا۔ ہم راستے سے بھٹک گئے اور ہماری قومی زندگی ناکامیوں سے عبارت ہونے لگی۔ کچھ یہ بھی تھا کہ حکمران خاصے نکمے ملے۔ شروعات میں غنیمت یہ رہی کہ صرف نکمے پن سے گزارہ ہوتا رہا‘ پھر جب قومی اُفق پر پارسائی کے نعرے گونجنے لگے تو قومی سیاست کا مزاج بھی بدلا۔ نکمے پن کے ساتھ خودغرضی‘ لالچ اور لوٹ مار کا ملاپ ہونے لگا۔ پھر جو آئے اُنہوں نے مال بنانے کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ خود تو کھاتے ہی تھے لیکن جو اُن کے قریب آئے وہ بھی زنگ آلود ہوئے۔ کشکول پر انحصار تو قوم کا شروع دن سے تھا لیکن شروع کے برسوں میں تھوڑے بہت پر گزارہ ہو جاتا تھا۔ پھرجب اوپر والوںکا مزاج بدلا اور ریاست کچھ خرچیلے پن کی عادی ہو گئی تو کشکول بڑا کرنا پڑا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں طبقات کے طبقات امیر ہوتے گئے وہاں ریاست غریب ہوتی گئی۔ توپ و تفنگ میں کوئی کمی نہ آئی‘ طاقت کے اس زاویے میں تو اضافہ ہوتا رہا لیکن قوم میں جہالت بڑھتی گئی اور شاہ خرچیوں اور نکمے پن کے سبب ریاست کمزور ہوتی گئی۔
کچھ قوم کے شوق بھی عیاشیانہ تھے۔ اپنے حالات تو سنبھالے نہ جا سکے لیکن مزاج میں تُرشی رہی۔ کبھی کشمیر کو آزاد کرانے چلے‘ کبھی افغانستان کی گہرائیوں میں اپنا تحفظ ڈھونڈا۔ مہم جوئی کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہوا اور اس جستجو میں جہاد کا علم بلند ہوا۔ جہادی مہموں کے اہداف کو باریکی سے دیکھا نہ گیا لیکن مہم جوئی کی ضرورتوں کے پیش نظر جہادی لشکر تیار کرنا لازمی امر ٹھہرا۔ علمِ جہاد افغانستان میں بلند ہوا پھر کشمیر میں اور جب وہاں کے جنگی میدان ٹھنڈے پڑے تو جہادیوں کی صفوں میں کچھ ایسے بھی اُٹھے جنہوں نے اپنا نشانہ ریاستِ پاکستان کو بنایا۔
بس ان راہوں میں قوم بھٹکتی رہی۔ نکما پن تو تھا ہی‘ وہ تو شاید قومی ورثے کا حصہ تھا لیکن اُس کے ساتھ لوٹ مار اور وہ بھی چھوٹی موٹی نہیں گرینڈ سکیل پر۔ دولت کا ارتکاز ایک طرف‘ غربت کی انتہا دوسری طرف اور یہ خلیج بڑھتی گئی۔ اس کے ساتھ مسلسل مہم جوئی کبھی جہاد کے حوالے سے‘ کبھی فرقہ واریت کی صورت میں۔ کشکول بیچارہ جتنا بھی گہرا ہو‘ کتنا بوجھ اُٹھا سکتا ہے؟ لیکن کشکول کے استعمال کے بغیر کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ قومیں جو اپنے نعروں کی اسیر ہو جائیں‘ اُن کا دھیان پھر دوسری سرگرمیوں پر ذرا کم ہو جاتا ہے۔ تعلیم اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔ ریاست کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ قومی دولت پیدا کرنے کے بجائے ساری توانائیاں مختلف غباروں میں ہوا بھرنے میں صرف ہوتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں یہ سوچ موجود تھی کہ درسگاہیں کھلنی چاہئیں اور فیکٹریاں لگنی چاہئیں۔ ریاست کے اہداف بدلے تو نظامِ درس نجی شعبے کے ہاتھوں میں دے دیا گیا اور فیکٹریاں لگانے والا عمل ذرا پیچھے رہ گیا۔
کیا خوب تاریخ ہماری رہی ہے۔ ریاست کا ارتقا ایسے ہوا کہ اُس نے ایک حسین امتزاج کو جنم دیا۔ توپ و تفنگ کے محکموں نے بڑے فیصلے اپنے پاس رکھے‘ اس سوچ کی بنیاد پر کہ بڑے فیصلے وہی لے سکتے ہیں کیونکہ دوسروں کو یعنی عام سیاست دانوں کو بڑے فیصلوں کی اتنی سمجھ نہیں۔ دوسرے یعنی سیاست دان اس صورتِ حال سے پریشان نہ ہوئے۔ اُنہوں نے اپنی نظریں مال بنانے پر مرکوز رکھیں۔ توپ و تفنگ والے بڑے فیصلے کرتے رہے اور دوسرے مال بناتے رہے۔
ضیا الحق کی سیاست کے طفیل پنجاب میں ایک سیاسی اور کمرشل ایمپائر کھڑی ہوئی‘ ایسی ایمپائر جس کی جڑیں اتنی مضبوط ہو چکی ہیں کہ متعدد بار ختم کرنے کی کوششوں کے باوجود اُس ایمپائر کی وسعت بڑھتی چلی گئی۔ ایسا ہی عمل سندھ میں دیکھنے میں آیا۔ سیاسی ورثہ تو ذوالفقار علی بھٹو کا تھا۔ بے نظیر بھٹو نے اُس ورثے کو سنبھالا‘ اُس میں نئے رنگ ڈالے اور پھر قدرت کا یہ کرنا تھا کہ وہ ورثہ اور ہاتھوں میں چلا گیا۔ اُن ہاتھوں نے اس ورثے کو استعمال کرتے ہوئے ایک الگ کمرشل ایمپائر کھڑی کر دی۔ پاکستانی سیاست بٹ کر رہ گئی‘ ایک جانب پنجاب کی سیاسی اور سرمایہ دارانہ ایمپائر‘ دوسری طرف سندھ کے تخت نشین جن کی حیثیت کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔
توڑنے اس اجارہ داری کو ہمارے خان صاحب نکلے اور لگا یوں کہ توڑنے میں کامیاب بھی ہو گئے ہیں۔ لیکن جہاں خان صاحب کی خوبیاں نمایاں ہوئیں وہاں اُن کا بھولا پن بھی نمایاں ہوا (لفظ بھولا پن حماقتوں کا شریف نعم البدل ہے)۔ پھر یہ بھی ہے کہ مقابلہ اُن کا کن قوتوں سے آن پڑا‘ پنجاب اور سندھ کے اجارہ دار اکٹھے ہوگئے اور اُن پر ہاتھ اُن کا جوہمیشہ سمجھتے آئے ہیںکہ بڑے فیصلے وہی لے سکتے ہیں۔ اس گمبھیر ملاپ کے سامنے ہمارے بھولے بادشاہ کہاں محفوظ رہ سکتے تھے‘ لہٰذا اُن کا جانا ٹھہرا۔
لیکن یہ کھیل ختم نہیں ہوا‘ ابھی توجاری ہے۔ اس کا ایک باب ختم ہوا ہے لیکن ایک نیا اور زیادہ پُرخطر باب شروع ہورہا ہے۔ جس امتحان میں پاکستانی قوم کو ڈال دیا گیا ہے‘ کیا کوئی سمجھتا ہے کہ نوٹنکی کے کرداروں کو اقتدار میں بٹھا دیا جائے تو کام چلتا رہے گا؟ ایسا ہو نہیں سکتا۔ تیل کے کنویں یہاں چل رہے ہوتے پھر ہمارے حکمران جو مرضی کرتے۔ لیکن ریاست اور بڑوں کی فضول خرچیاں کشکول پر ہی انحصار کرسکتی ہیں‘ لہٰذا جو اس صورت حال سے نالاں ہیں اُنہیں پریشان ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ اپنی غلطیوں کا احساس کریں‘ اُن سے کچھ سبق سیکھیں‘ اپنی صفیں درست کریں‘ منظم قوت بننے کی کوشش کریں۔ حالات کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سمجھیں اور اس کے نتیجے میں اپنی حکمتِ عملی مرتب کریں۔ ہمارے خان صاحب کو ناکامی ہوئی ہے‘ اس میں کوئی دو رائے نہیں لیکن جہاں سفر طویل ہو‘ جدوجہد سخت ہو‘ ناکامیاں ہوتی رہتی ہیں۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ آخری جیت کس کی ہوتی ہے‘ نوٹنکیوں کی یا اُن کی جو اُن کے سامنے کھڑے ہیں؟
ہم جیسوں کا مطمح نظر کیا ہے؟ ہم کسی کے رومانس میں گرفتار نہیں۔ ہماری پرستش کا زمانہ گزر چکا۔ جن کو ہم دیوتا سمجھتے تھے وہ کب کے آئے اور چلے گئے‘ لہٰذا سایوں کے پیچھے بھاگنا ہم نے چھوڑ دیا۔ خواہشات ہیں پر بڑی سادہ ہیں‘ اب ہم جیسے صرف یہ چاہتے ہیں کہ ملک کے ساتھ جو کھلواڑ ہو رہا ہے وہ بند ہو اور یہ ایک نارمل ملک بنے۔ اس کے حکمران بیشک تیس مار خان نہ ہوں لیکن کچھ ڈھنگ کے تو ہوں۔ جن کے بارے میں سب کچھ پتا ہو‘ جن کے اعمال نامے ہمارے سامنے ہوں‘ جنہوںنے لمبی حکومتیں کی ہوں اور اُنہیں پھر ہمارے اوپر بٹھا دیا جائے‘ اس سے بڑی زیادتی کوئی ہوسکتی ہے؟