دو تین دہائیاں پہلے جب پاکستان کے مسائل اتنے گمبھیر نہیں تھے ہم سے کچھ نہ ہوا۔ نہ وہ نسبتاً سادہ سے مسائل حل ہوئے نہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکا۔اب جب معاشی اور معاشرتی مسائل بہت پیچیدہ ہو چکے ہیں اور ہماری اجتماعی صلاحیتیں بھی وہ نہیں جو شاید اُن گزرے زمانوں میں تھیں تو کس بنیاد پر امید باندھی جاسکتی ہے کہ پاکستان کے حالات بہتر ہوں گے اور ہم ترقی کی شاہراہ پرلمبے لمبے قدم لینے لگیں گے؟
میری عمر کے لوگوں نے کچھ ایوب کا زمانہ دیکھا‘ یحییٰ دور کی رعنائیاں دیکھیں‘بھٹو کی تقریریں سنیں اور پھربھٹو کا انجام دیکھا‘ ضیا الحق کی پارسائی اور ریاکاری کو قریب سے محسوس کیا‘ اور پھر جنہیں ہم جمہوری ادوار کہتے ہیں اُن کو بھی قریب سے آزمایا۔جن زمانوں کا ذکر یہاں ہوا ہے تب قومی مسائل اتنے خراب نہ تھے لیکن اُن حالات کو بھی ہم درست نہ کرسکے۔ بیرونی قرضہ جات ہی لے لیں‘ ہماری کاوشوں اور دسترس سے باہر ہو چکے ہیں۔ ہرسال مزید قرض نہ لیا جائے توپرانے قرضہ جات کی اقساط ہم سے ادا نہ ہوں۔یعنی پرانے ادھار چکانے کیلئے نیا ادھار لینا ہماری قومی ضرورت بن چکی ہے۔حکمرانی کی حالت پہلے سے زیادہ پتلی ہے۔ تو پھر سوال بنتا ہے کہ کون سی ضمانت ہے کہ نااہلوں کے ہاتھ میں حکمرانی کی باگ ہو اور حالات بہتر ہو جائیں؟ قرضوں کی مد کسی کنٹرول میں رہی ہے نہ آبادی کے بڑھاؤ پر کنٹرول ہے۔ مطلب یہ کہ ہر سال بیس تیس لاکھ نئے پاکستانی اس دنیا میں آتے ہیں جن کی کفالت کا ذمہ اس دھرتی پر پڑتا ہے۔جنرل ضیا الحق کی موت جب 1988ء میں واقع ہوئی تو پاکستان کی کل آبادی دس گیارکروڑ کے لگ بھگ تھی۔ تب بھی آواز اُٹھتی تھی کہ آبادی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ آج وہ آبادی بائیس کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ اگلے دس سال میں اس میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ایسے میںقومی مسائل کا حل کوئی آسمانی مخلوق آکر پیش کرے گی ؟
کئی چیزوں میں ضرور فرق پڑا ہے۔شہروں کی وسعت بڑھتی چلی گئی ہے۔ ضیا الحق کے زمانے میں اسلام آباد ایک متوسط قسم کا گاؤں لگتا تھا۔ آج اس کی لمبائی اور چوڑائی کا اندازہ لگانے بیٹھیں تو مشکل ہو جاتی ہے۔یہی حال ہر چھوٹے بڑے شہر کا ہے۔ سیمنٹ اور سریا کھیتوں پر حاوی ہے۔شہروں کے پھیلاؤ کے ساتھ کنسٹرکشن بے تحاشا ہو گئی ہے۔کہنے کو ہم ایک زرعی ملک ہیں لیکن اپنی ضرورت کا کھانا پیدا کر نہیں سکتے۔گندم باہر سے منگوانی پڑتی ہے‘ خوردنی تیل باہر سے آتا ہے۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا سے پام آئل نہ منگوایا جائے تو ہماری ہانڈیوں میں کچھ پکانے کیلئے نہ ہو۔لیکن ہر ایک کے ہاتھ میں سیل فون ہے جو کہ اچھی بات ہے۔ جسے انگریزی میں کنیکٹیوِٹی (Connectivity)کہتے ہیں‘ ہونی چاہئے۔سڑکوں پر ٹریفک اور کاروں کی بھیڑ اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب کسی کے قابو میں نہیں۔ظاہر ہے کاریں ہوا پر چلتی نہیں‘ انہیں پٹرول‘ ڈیزل درکار ہوتا ہے لہٰذا کوئی حیرانی نہیں کہ پٹرول کی مصنوعات کی درآمد اتنی بڑھی ہے کہ ہماری استطاعت سے باہر ہو چکی ہے۔ ڈالروں کی بھیک نہ مانگیں تو باہر سے پٹرول بھی نہ آئے۔ دانشواران ِکرام کہتے ہیں ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں‘ ہماری حالت سری لنکا جیسی نہیں ہوسکتی لیکن جا تو ہم اُسی طرف رہے ہیں۔
پر کیا رونا رویا جائے‘ رونا شروع کریں تو سلسلہ ختم نہ ہو۔ ملک کا ستیاناس ہو چکا ہے اور یہ صورتحال کسی اور نے پیدا نہیں کی حالات کا ستیاناس ہمارے ہاتھوں سے ہوا ہے۔تو پھر یہ بیکار کی باتیں نہیں کہ ایک بلین ڈالر کی قسط آئی ایم ایف سے مل جائے تبھی بجٹ تیار ہو سکے گااور عالمی منڈیوں میں جاکر ہمارے کشکول میں مزید کچھ پیسے آ سکیں گے۔ یعنی جو ایک دیرینہ مقروض ہوتا ہے ہماری حالت وہ بن چکی ہے کہ ایک سال کا ادھار نہ ملے تو کاروبار ِ مملکت ٹھپ ہو جائے۔
اصل صورتحال یہ ہے اور قومی گفتگو کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ یہ کررہی‘ وہ کررہی ہے‘ نومبر میں ایک تقرری ہونی ہے جس سے زمین اور آسمان ہل کر رہ جائیں گے۔ اتنی بیکار کی گفتگوشاید ہی کسی اور ملک میں سننے کو ملے۔ہندوستان ہمارے ساتھ کا ملک ہے‘ خاک ایک جیسی ہے‘ آب و ہوا ایک ہے‘ شکلیں ایک جیسی ہیں‘ جلد کی رنگت ملتی جلتی ہے۔ وہاں تو ایسی گفتگو نہیں ہوتی۔بڑی تقرریاں تین سال کیلئے ہوتی ہیں‘ کسی کا چناؤہوتو تین سال بعد رخصت ہو جاتا ہے۔یہاں اس بات پر باقاعدہ ڈرامہ رچایا جاتا ہے‘ بحث و مباحثے ہوتے ہیں‘ تخمینے اور اندازے لگائے جاتے ہیں۔اس صورتحال نے تبدیل نہیں ہونا ایسا ہی رہنا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ جن مسائل کے نیچے قوم اور عوام دبے ہوئے ہیں ان کی شدت میں اضافہ ہی ہوسکتا ہے۔ تو پھر رونے پیٹنے کا فائدہ کیا؟
جو قومیں تباہی کی طرف جا رہی ہوں اُن کی ایسی ہی حالت ہوتی ہے۔مغلیہ دورکے زوال کا ہمیں مطالعہ کرنا چاہئے۔ اورنگزیب کی وفات سے لے کر بہادر شاہ ظفر کے انجام تک ایسی کہانی ہے کہ پڑھیں تو یقین نہیں آتا کہ ایک عظیم سلطنت کے ساتھ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ قوموں کے عروج کے اسباب مختلف ہو سکتے ہیں لیکن زوال کے اسباب تقریباً ایک جیسے ہوتے ہیں۔ حکمرانی نکمے اور مکروہ ہاتھوں میں آ جائے‘ خرچے اور عیاشیاں زیادہ ہو جائیں کمانے کی صلاحیت کم پڑ جائے تو پھر قومیں زوال کی طرف جاتی ہیں۔ادھار دینے والے سہارا ہی مہیا کرسکتے ہیںاور اپنا فائدہ دیکھتے ہیں۔یہاں یہ ہوا ہے کہ پاکستان کی کمائی باہر منتقل ہوتی رہی ہے۔ جس کسی کا بس چلا جائیدادیں باہر کے ملکوں میں بنائیں۔حکمرانوںنے تو حدہی کردی‘ اُنہوں نے وہ کیا جیسے پاکستان سے کوئی دشمنی تھی اور اس سے حساب چکانا تھا۔ کس کس کا نام لیا جائے‘ سب نے دولت باہر منتقل کی۔ سیاست اور حکمرانی پاکستان میں کیونکہ حکمرانی باہر کون کرنے دیتا ہے‘ لیکن اپنے ملک پر ذرہ برابر بھی اعتماد نہیں‘ اسی لیے دولت اور جائیدادیں تب ہی محفوظ سمجھی گئیں جب دبئی‘ برطانیہ اور امریکہ میں ہوں۔پھر ہم کہتے ہیں پاکستان موجودہ مسائل سے نکل آئے گا۔ کوئی بتلائے تو سہی کیسے نکلے گا‘ کس ترتیب اور ہنر سے چھاتی پھیلائے آگے کی طرف بڑھے گا؟
ایک اورنعرہ یہاں پر بڑا مقبول ہے کہ بنیادی تبدیلی ہونی چاہئے۔ نظام بدلنا چاہئے۔ روزمرہ کے کام ہوتے نہیں‘ مانگے تانگے پر جی رہے ہیں اور باتیں انقلاب اور بنیادی تبدیلیوں کی۔ جن قوموں نے اپنے حالات سنوارے‘ جن دھرتیوں پر انقلاب نام کی چیز آئی‘ کیا اُن کی ایک خاصیت بھی ہمارے قومی مزاج میں نظر آتی ہے؟ہندوستان نے انگریزی سامراج سے کچھ سیکھا۔سنگاپور اور ملائیشیا نے بھی ایسا کیا۔ہم کچھ نہ سیکھ سکے۔ جو ورثے میں چیزیں ملیں اُن کو تباہ کیا اور اُس میں جو بچا کھچا ہے اُس کی تباہی میں لگے ہوئے ہیں۔نئی چیز کچھ بنا نہ سکے۔ دوسروں کی چوکیداری میں ہم اچھے رہے۔ افغانستان میں امریکہ کی چوکیداری کی توکچھ ڈالر مل گئے اور نعرے لگنے لگے کہ ہم کتنے ہوشیار ہیں۔چوکیداری ختم ہوئی تو ڈالروں کی آمد بھی رک گئی اور ہمارے منہ لٹکنے لگے۔
لہٰذا چھوڑیں ان باتوں کو۔ شاموں کو موسیقی سنیں اور کچھ مزید کرسکتے ہیں‘ وہ کریں۔ ہماری حالت ایسی ہی رہنی ہے‘ رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ دیکھیں تو سہی کیا ہو رہا ہے‘ جو پڑھ جائیں باہر جانے کی کرتے ہیں۔ ہم بہت دیکھ چکے‘ مزید کیا دیکھنا ہے؟