ملک کی ٹھیک ٹھاک حالت ان گناہگار آنکھوں نے دیکھی ہے۔ عمر زیادہ تو نہ تھی لیکن اتنا احساس تھا کہ چیزیں چل رہی ہیں۔ نظام اور حکمرانی کی اتنی سمجھ نہ تھی لیکن غریب ملکوں میں پاکستان کا ایک مقام تھا۔ مقام نہ بھی ہو روپے کی قدر تھی۔ 1974ء میں جب ماسکو میں پوسٹنگ ہوئی تو تقریباً چار روپے ستر اسی پیسے کا ڈالر ملتا تھا۔ دو آنے کی روٹی ملتی تھی اور کئی جگہوں پر دو روٹیاں خریدنے پر دال تھوڑی سی مفت مل جایا کرتی تھی۔ اچھے خاصے ریستورانوں میں سلاد مفت ہوا کرتا تھا اور کھانے کے دوران مزید سلاد منگواتے تو وہ پہنچا دیا جاتا۔
کپتانی کے پھول لگے تو لاہور میں پوسٹنگ ہوئی اور کچھ عرصہ بعد پھر 71ء کی جنگ چھڑ گئی۔ کپتانی کی تنخواہ کیا تھی‘ ساڑھے سات سو روپے ملا کرتے تھے۔ اُن سستے زمانوں میں بھی اتنی رقم میں کچھ زیادہ عیاشی تو نہ ہوسکتی تھی لیکن پھر بھی کبھی کبھار انٹرکانٹی نینٹل چلے جاتے جو اب پی سی ہے۔ تب اس ہوٹل میں بڑی رونق ہوا کرتی تھی۔ گراؤنڈ فلور پر وہ کمرہ تھا جسے بار یا سیلون کہتے ہیں۔ شام کے سائے ڈھلتے ہی یہ جگہ متوالوں اور دوسرے قسم کے تماش بینوں سے بھر جایا کرتی تھی۔ سات سے لے کر نو بجے تک وہاں دستیاب اشیا کی قیمتیں آدھی ہو جایا کرتی تھیں۔ پھرکیا سماں بندھتا تھا۔ آرڈر پہ آرڈر چل رہا ہوتا تھا اور ماحول بھی یوں سمجھئے تھوڑا رنگین مزاج ہو جاتا تھا۔ قہقہے لگ رہے ہوتے تھے اورکچھ اشخاص جھومتے ہوئے بھی نظر آتے تھے۔ پونے نو بجے آواز آتی کہ آخری آرڈرز جنٹلمین‘ پھر کاؤنٹر کی طرف ایک دوڑ لگتی اور جتنے آرڈر دو ہاتھوں میں آ سکتے تھے اُنہیں لینے کی کوشش کی جاتی۔
ہماری عمر تب کیا ہوگی، یہی بیس اکیس سال۔ تنگیٔ حالات کی وجہ سے اُن نظاروں میں بھرپور طریقے سے شرکت تو نہ کر سکتے تھے لیکن ایک کونے بیٹھ کر سب کچھ دیکھتے تو تھے۔ فوجی نوکری کی اپنی مجبوریاں تھیں‘ ڈیوٹی پر بھی جانا ہوتا تھا لیکن اُس کام میں دل نہ لگتا تھا۔ بس ایک جنگ کے ایام تھے جن میں دل لگا کر ڈیوٹی دی ‘نہیں تو باقی وقت دھیان کہیں اور ہی رہتا تھا۔ البتہ اُن بور ہونے والے دنوں میں بھی مطالعہ کا شوق اپنے ساتھ رہا۔ وردی میں بھی کوئی نہ کوئی کتاب ساتھ رہتی۔ بعد میں آنے والے دنوں میں شاید اسی عادت نے بچایا نہیں تو وقت ضائع کرنے میں ہم خاصے ہنرمند ہو گئے تھے۔
اُن دنوں کی یاد دل سے جاتی نہیں البتہ یہ ملال ضرور ہے کہ نوکری کے بجائے لاہور کے فٹ پاتھوںکو ماپتے تو زیادہ اچھا رہتا۔ کسی کالج سے فارغ التحصیل نہ ہوئے‘ طالب علمی کا وہ مزہ نہ چکھا‘ سیاسی و ادبی مجلسوں سے دور رہے۔ اُس زمانے کے لاہور کے جو بڑے نام تھے اُن کا درشن نہ کر سکے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صوفی تبسم جہاں محفل کرتے‘ دروازے کے قریب جہاں جوتیاں رکھی جاتی ہیں‘ ہم بھی کہیں بیٹھ جاتے۔ اُن لوگوں کی گفتگو تو سن لیتے۔ خواجہ خورشید انور تھے‘ کہیں تو بیٹھتے ہوں گے۔ فیض صاحب بھی ایسی محفلوں کی جان تھے۔ استاد امانت علی خان بھی ہارمونیم اور پیالہ لیے شام کو کسی جگہ سماں باندھتے ہوں گے۔ لیکن ہم نوکری کے اسیر تھے‘ ایسی آوارہ گردی کر نہ سکتے تھے۔ یہ ایک ایسا ارمان ہے جس نے اب تک دل میں گھر بنایا ہوا ہے۔ بس کچھ حالات ہی ایسے تھے اور شاید آوارہ گردی کرنے کیلئے ہم میں اتنی ہمت بھی نہ تھی۔
لیکن قدرت کاکمال دیکھئے کہ جو آوارہ گردی ہم جوانی میں نہ کرسکے وہ ڈھلتی عمر میں شروع کردی۔ لاپروائی کا جو لبادہ تب نہ اوڑھ سکے وہ زندگی کا حصہ بعد میں بنتا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ کئی حوالے سے جوانی کے ایام ضائع ہوئے اور اُس ضیاع کی کسر ہم اب پورا کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ جوانی میں کچھ زیادہ ہی سنجیدہ تھے۔ اور اُس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ ایک تو نوکری میں دل نہیں لگتا تھا اور دوسرا کوئی گُرو نہ تھا۔ ایسا گُرو جو بتا سکے کہ راستہ کہاں ہے اور اُسے طے کرنے کا اسلوب کیا ہونا چاہئے۔ لہٰذا ہم اپنے ہی گُرو رہے جس کی وجہ سے زندگی کی اداؤں کو سمجھنے میں بہت دیر لگی۔ اسلوبِ شب بھی بہت دیر سے سمجھ آئے۔ یوں تو محفلوں میں جانا ہوتا تھا اور تب ظاہر ہے ماحول ہی اور تھا لیکن اسلوبِ شب نبھانے میں کوتاہی ہو جاتی تھی۔ گُرو یا رہبر ہوتا تو ان دشواریوں سے بچ جاتے۔ لیکن پھر بھی قدرت کی مہربانی ہے کہ زندگی کی شامیں ختم نہیں ہوئیں۔ روز تو نہیں لیکن ہفتے میں ایک یا دو بار محفلیں جمتی ہیں۔ جو اسلوب پہلے نہ سیکھ سکے اُن کے کچھ نہ کچھ ماہر اب ہو گئے ہیں۔ یہ کوئی چھوٹی بات تو نہیں۔
من کی کھڑکی سے باہر جھانکیں تو حالات اچھے نہیں لگتے۔ لیکن اب خلوت میں رونے دھونے کا جی نہیں کرتا۔ ہم نے تو ایک جوانی ضائع کی‘ اس ملک نے پتا نہیں کیا کچھ ضائع کر دیا۔ بڑے مواقع تھے‘ بہت کچھ ہوسکتا تھا لیکن جیسے عیاش اولاد اپنے بڑوں کا ورثہ برباد کرتی ہے ہم نے اس ملک کے ساتھ کچھ ایسا ہی کیا۔ سمجھدار لوگوں نے اپنا اُلو سیدھا کیا اور اس بات کی پروا نہ کی کہ ملک کہاں جا رہا ہے۔ لیکن ہاں زیادہ کیا روئیں؟ یہ بھی دن آنا تھا کہ پنجاب کا منصب دار حمزہ جیسا شخص بنے۔ یہ کوئی افسانہ نہیں‘ ہمارے سامنے سب کچھ ہو رہا ہے۔ یہ سطور شام کو لکھی جا رہی ہیں۔ کچھ دیر بعد مزدوری کی غرض سے ٹی وی چینل جانا ہے‘ اُس کے بعد ایک دعوت ہے۔ ایک تو یہ ڈیفنس کے علاقے ہمیں راس نہیں‘ مال کے جس سرائے میں قیام ہوتا ہے اُس سے ڈیفنس کا علاقہ بہت دور پڑتا ہے۔ لیکن کیا کریں مجبوری ہے۔ میزبان کو بارہا بتانے کی کوشش کی کہ محفل کوئی ڈھنگ کی ہونی چاہیے۔ آدابِ محفل ملحوظِ خاطر رکھے جائیں۔ بیکار کی اُچھل کود نہ ہو۔ شورشرابا کم ہو‘ موسیقی کسی معیار کی ہو۔ پچھلی بار محفل کچھ اس انداز کی جمی کہ میزبان ہمیں کھانا کھلانا بھول گئے۔ رات گئے جب سرائے لوٹے تو کچھ برگر نما شے کا آرڈر دیا اور اُس پر اکتفا کیے بستر کو ہو لیے۔ آپ کہیں گے ایسے کاموں میں ایسا ہوتا ہے‘ یقینا ہوتا ہے اسی لیے جب ایسی باتیں یاد آتی ہیں مسکرا دیتے ہیں۔
کہنے کو کہتے ہیںکہ گزرے لمحوں کا ارمان دل میں نہیں رکھنا چاہیے۔ لیکن یہ بات کہنی آسان ہے‘ شام کے سائے گہرے ہو رہے ہوں تو یاد بے اختیار ارمانوں کی طرف جاتی ہے۔ یہ بھی خوش نصیبی ہے کہ کچھ تو رونے کو ہے۔ کچھ تو لمحات زندگی کے ایسے گزرے جن کی یاد نہ صرف باقی ہے بلکہ کبھی کبھی خاصی تڑپاتی ہے۔ سوچئے تو ذرا کہ زندگی گزر جائے اور دل میں کچھ بھی ارمان نہ ہوں۔ ایسی زندگی تو پھر بیکار ہی گزری۔ اُس لحاظ سے اعتراف کرنا پڑے گاکہ زندگی اچھی ہی گزری۔ دل ویران نہیں‘ ارمانوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہی شاید ہماری زندگی کا حاصل ہے کہ یادیں ایسی ہیں کہ دل سے جاتی نہیں۔ شام ہوتی ہے تو کچھ میز پہ سجی چیزیں ہوتی ہیں اور پھر اپنی یادیں اور اُن یادوں سے وابستہ گہرے ارمان۔ اور پھر درد بھری دھن کہیں سے اُٹھے‘ باقی چیزیں ثانوی اور بیکار حیثیت کی رہ جاتی ہیں۔
ایک بات البتہ طے ہے‘ شاموں کو خوشگوار آواز ہی اچھی لگتی ہے۔ زیادہ اونچا قہقہہ یا بے سری گفتگو برداشت نہیں ہوتی۔ بہرحال جو بھی میسر ہو اللہ کی مہربانی ہے۔