پنجاب اسمبلی میں ممبران کی گنتی تو نسبتاً آسان کام تھا۔ ملک کی مجموعی صورتحال یہ بن چکی تھی کہ دو اور چیزوں کا اندازہ لگانا بھی ضروری تھا۔جوتے کتنے لگے اور پیاز کتنے کھانے پڑے۔ہونا تو یہی تھا جو ہو گیا لیکن پاکستانی سیاست کیا ہوئی کہ ذلت کسی کے حصے میں نہ آئے۔ جب سے عدم اعتماد کا ناٹک اوپر قومی اسمبلی میں رچایا گیا پنجاب میں کون سا ایسا بھونڈا ہتھکنڈا تھا جو نہ آزمایا گیا ہو۔ ایسی حرکتوں سے صرف یہ ہوا ہے کہ قومی افراتفری میں اضافہ ہوا ۔اور تو کچھ حاصل نہ ہوالیکن آفرین ہے ہماری پولیٹیکل کلاس کو کہ پنجاب میں آخری دم تک شُرلیاں چلائی جاتی رہیں۔
اس ڈرامے میں ایک مریم نواز ہیں جنہوں نے کچھ تہذیب اور شائستگی کا مظاہرہ کیا۔ضمنی انتخابات کے نتائج آئے تو اُسی شام اُنہوں نے بذریعہ اپنی ایک ٹوئٹ کے اپنی جماعت کی شکست تسلیم کی اور یہ بھی کہا کہ شکست کے اسباب پر پی ایم ایل این کو غور کرنا چاہئے۔اس سے اُن کا قد کم تو نہیں ہوا‘ حریفوں نے بھی اُن کی اس بات کی داد دی۔لیکن یہ مریم تھیں۔چچا جان اور کزن حمزہ شہباز تو بس ویلیاں مارتے رہے۔ ان سے کچھ شائستگی کا مظاہرہ ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔لوگوں نے داد دینی تھی لیکن جہاں شائستگی کا خانہ خالی ہو وہاں ایسی امید رکھنا فضول ہے۔رانا ثنا اللہ کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔جس قسم کے انہوں نے بیانات دیے کہ ووٹنگ کے دن اتنے پی ٹی آئی کے ایم پی ایز غائب بھی ہو سکتے ہیں‘ ایسے بیانات کے وہ ماہر ہیں۔اس قسم کے نفسیاتی وار وہ کرتے رہتے ہیں۔لیکن دیکھنا ہو تو کوئی جناب آصف علی زرداری کو دیکھے ۔آخری رات تک لگے ہوئے تھے چوہدری شجاعت حسین کو قائل کرنے کہ وہ اپنا رخ تبدیل کریں۔ جو ترغیبات وہ دے رہے تھے مفہوم یہی بنتا ہے کہ دنیا کے سامنے چوہدری صاحب بدنامی مول لیں۔عقل نام کی چیز بھی کوئی ہمارے نام نہاد لیڈران میں ہے ؟
معرکہ لگا تھا ضمنی انتخابات کا ۔ وہ میدان مارتے تو کوئی بات بنتی۔ وہاں جب منہ کی کھانی پڑی تو خواہ مخواہ کے ہاتھ پیر ہلانے سے عزت میں کوئی اضافہ تو ہونا نہیں تھا۔ دو الفاظ یہ انگریزی کے ہیں Dignity اور Grace ۔ اردو میں پتا نہیں ان کا ترجمہ کیا بنتا ہے۔ان جیسوں کو پتا نہیں کس نے لیڈر بنا دیا ہے۔ یہی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ جب بے نیاز ہوتا ہے تو اُس کی بے نیازی کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ یہ بھی ہونا تھا کہ زرداری صاحب جیسا شخص اس ملک کا ایک لیڈر بنے۔ شریفوں پر ہمارے مہربانوں کی مہربانی تھی۔ یہ پرانی بات ہے ‘ مقصد پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنا تھا اور اس لیے نوازشریف جیسوں کو میدان میں لائے اور انہیں لیڈر بنایا۔آج کے مہربانوں کو بھی دیکھئے ۔محدود سوچ کے مالک‘ اسی محدود سوچ کے تابع انہوں نے یہ سب کچھ کیا جس سے تین ماہ میں ملک و قوم کا برا حال ہو گیا۔اتنے تباہ کن تین ماہ ہماری تاریخ میں نہیں گزرے جتنا یہ وقت جس میں یہ سب ڈرامہ ہوا ۔
آج تک ان کے پاس کوئی جواز نہیں ہے کہ یہ سب کچھ کیوں کیا۔لیکن چھوٹی سوچ کا کوئی علاج ہے؟عقل محدود ہو تووٹامن کے ٹیکوں سے اُس میں وسعت پیدا نہیں ہوسکتی۔یہاں مسئلہ کچھ اوربھی ہے ۔ نقصان صرف سرپرستوں کا نہیں ہوا ۔ نقصان اُن کا ہوتا یا عوام الناس اُنہیں برا بھلا کہتی ہے تو ہمیں اُس سے کیا‘ لیکن یہاں نقصان ملک کا ہوا ہے۔معاشی حالت ابتر ہو گئی ہے ۔ مہنگائی کے ہاتھوں عوام بے حال ہیں۔ڈالر کہاں پہنچ چکا ہے ‘ 230-231 پر۔ عمران خان ڈالر کو 182پر چھوڑ کے گیا تھا اور ان افلاطونوں نے ان تین ماہ میں ڈالر کو یہاں تک پہنچا دیا ہے۔ملک و قوم سے غداری تو یہ بنتی ہے۔ اتنا تو کوئی پوچھے کہ جناب ِ والا یہ سب کچھ آپ نے کیوںکیا ؟
ان کی طرف بھی دیکھیں جنہیںہم پتا نہیں قائد ِ طریقت کہیں گے یا کچھ اور۔ مولانا فضل الرحمن اپنے آپ کو عالم اور فاضل سمجھتے ہوں گے۔ عمران خان پر ضرور گولہ باری کریں ‘ آپ کا حق بنتا ہے ۔ عمران خان نے آپ کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے ‘ خیبرپختوانخوا میں آپ کو ایک کونے تک محدود کرکے رکھ دیا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے آپ کا اپنا حلقۂ انتخاب ہاتھ سے جاچکا ہے۔وہاں آپ کے مقابلے میں کوئی ایسا ویسا شخص نہیں علی امین خان گنڈاپور ہے۔وہاں اُس نے آپ کا ناطقہ بند کررکھا ہے‘ لہٰذا عمران خان سے گلہ تو بنتا ہے۔ لیکن عمران خان کو ٹارگٹ کریں نہ کہ اس روش کا مظاہرہ کریں کہ خواتین کا ذکر آئے تو آپ کی زبان بہکاوے میں چلی جائے۔عمران خان کا یہ بہت بڑا سیاسی کارنامہ ہے کہ وہ خواتین کو گھروں سے نکال کر سیاست کے میدان میں لایا ہے۔ ہماری گھریلو خواتین کہاں سیاسی جلسوں میں جایا کرتی تھیں۔لیکن عمران خان نے اُن میں یہ ہمت پیدا کی ہے کہ وہ ایسا کریں اور آج کوئی مائی کا لعل پاکستان میں نہیں جو خواتین کی اس ایکٹو ازم کو ختم کرسکے۔ مولانا صاحب جیسے حضرات دانت پیستے رہیں پاکستان کی خواتین باہر نکل آئی ہیں اور آئندہ کے ہر سیاسی معرکے میں اُن کا کردار رہے گا۔ اس بات پر کسی کو تکلیف ہو تو اُس کا کیا کیا جاسکتا ہے ؟ لیکن یہ توبدحواسی کا مظاہرہ ہے کہ کبھی آپ خواتین کو آنٹیاں کہہ رہے ہیں اور یہ جو حالیہ ان کی دھمکی آمیز گفتگو ہے اُس میں پی ٹی آئی کی خواتین سپورٹرز کو وہ تتلیاں کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ یہی کہ شائستگی نام کی چیز آپ کے قریب سے نہیں گزری۔اور جب اپنے فرمودات فرما رہے ہوتے ہیں تو وہاں بیٹھے اُن کے حمایتی ایسے قہقہے لگاتے ہیں جن سے اُن کی ذہنی نشوونما کا بھرپور اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
پنجاب کی چیف منسٹری کے معاملے میں کسی اور کی ڈگڈگی پر مہارت دکھانے والوں کے پاس کیا رہ گیا ؟ ایسی وزارت ِ عظمیٰ کے ساتھ اعلیٰ حضرت شہباز شریف چمٹے ہوئے ہیں جس میں کچھ رہ نہیں گیا۔ کوئی اُنہیں سنجیدگی سے لیتا ہے ؟ یہ جو باہر کے ممالک کے سفیر اسلام آباد میں بیٹھے ہیں انہیں کوئی بیوقوف سمجھتا ہے کہ وہ اس مزاحیہ حکمرانی کی نوعیت سمجھتے نہ ہوں؟ کب تک یہ ناٹک چلے گا؟ یہ لوگ اس ملک کی اور کتنی تباہی چاہتے ہیں؟ اب ایک اور نئی چیزپیدا ہوچکی ہے اور اس کا بھی کچھ اندازہ لگانا چاہئے ۔ چھوٹی سوچ تو تھی ہی ‘ اُس کے اوپر خوف طاری ہو چکا ہے۔ خوف اس بات کا کہ آگے جاکر ہمیں پتا نہیں کیا کرنا ہے۔ الیکشن نہ کرائیں تو حالات مزید خراب ہوں گے۔ الیکشن کرائے جاتے ہیں تو عمران خان کو کون روکے گا؟عوامی غصہ عروج پر ہے عمران خان کی حمایت عروج پر ہے۔تازہ مینڈیٹ کے ساتھ اسمبلی میں آیاتو کیا حشر برپا ہوگا۔اب تو یہ خوف حریف دلوں میں بیٹھا جا رہا ہوگا۔
ہاتھ جوڑتے ہیں ۔ بہت ہو گیا اس ملک کے ساتھ ۔ کیا مزید تباہی کی متحمل قوم ہوسکتی ہے؟ لیکن وہ فوٹوتو دیکھی جائے جس میں یہ سارے لیڈر بیٹھے ہوئے ہیںاور کیسے قہقہے لگا رہے ہیں۔اتنی عقل تو ہونی چاہئے کہ ان حالات میں دانت اس انداز سے دکھانا بدذوقی کے زمرے میں آتا ہے۔