غیریقینی صورتحال میں ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے‘ عمران خان کو نکالنے والے سخت پچھتا رہے ہوں گے۔ واردات تو کردی لیکن نتائج سنبھالے نہ گئے۔ نہ سنبھلنے میں جو مسائل ہو رہے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں۔ ایک تدبیر کیا‘ سب تدبیریں الٹ ہو گئی ہیں۔
پنجاب والا معاملہ دیکھ لیں‘ اس سے بڑی خواری کیا ہو سکتی ہے۔ پوری کوشش کی گئی کہ ضمنی انتخابات اپنی مرضی کے ہوں لیکن سب چالیں ناکام ہوئیں۔ ڈپٹی سپیکر دوست مزاری کی رولنگ آخری حربہ تھا لیکن چیف جسٹس آف پاکستان نے ایسا ناکام بنایا کہ اب پلے کچھ نہیں رہ گیا۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ پوری کوششیں کی گئیں کہ سپریم کورٹ بنچ کا فیصلہ مؤخر کروایا جائے لیکن یہ ترکیب بھی بار آور ثابت نہ ہو سکی۔ چیف جسٹس صاحب کا یہ فیصلہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور لوگ اس کا حوالہ دیتے رہیں گے۔ عمران خان کو نکالنے والوں نے کبھی سوچا ہوگا کہ پنجاب ہاتھ سے نکل جائے گا؟ چودھری پرویز الٰہی کو اپنے بیٹے مونس الٰہی کا شکرگزار ہونا چاہیے کیونکہ بیٹے نے باپ کو پھسلنے سے روک لیا۔ چودھری پرویز الٰہی تو پی ڈی ایم کی باتوں میں آ چکے تھے اور اُن کی طرف سے وزیراعلیٰ بننے کیلئے تیار ہو گئے تھے۔ یہ تو بیٹے نے کچھ عقل اور ہمت دکھائی کہ چودھری صاحب اس سے بچ گئے۔ چودھری شجاعت حسین کیلئے افسوس ہی کرنا چاہیے۔ اس عمر میں آکر پھسلے اور ایسے پھسلے کہ آگے پیچھے کا حساب پورا ہوگیا۔ سوچتے تو ہوں گے کہ مجھ سے کیا ہو گیا۔ اب نہ یہاں کے رہے نہ کسی اور جگہ کے۔
ان سارے بیکار کے کرتبوں سے ملک کو کیا نقصان پہنچتا ہے اس کی کارسازوں کو کیا فکر۔ ان تین مہینوں میں معیشت کا جو حال ہوا ہے اُس کا تخمینہ لگانے بیٹھیں تو مشکل ہو جائے۔ ڈالر کو ہی لے لیں‘ کن بلندیوں پہ پہنچ چکا ہے اور رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ ہمارے افلاطونوں نے کچھ نہ سوچا تھاکہ کیا کرنے جا رہے ہیں؟ ایک عام شہری حیرانی کا ہی اظہار کر سکتا ہے کہ جن ہاتھوں میں ملک کا بندوبست ہے ان کی سوچ کا معیار کیا ہے۔ لیکن یہاں انا پرستی اور خود غرضی کی سوچ کچھ زیادہ ہی ہو گئی تھی۔ عمران خان ان کے اعصاب پہ سوار تھا اور اس ذہنی کیفیت میں فیصلہ ہوا کہ جو بھی ہو جائے عمران خان کو نکالنا ہے۔ نکال تو دیا لیکن آگے سنبھالتے بھی۔ سنبھالا کچھ نہ گیا اور ملک اور قوم کو ٹیکہ لگا دیا۔
چلیں یہ سب تو ہو گیا‘ کار سازوں کو منہ کی کھانا پڑی۔ لیکن اب کیا ہونا ہے؟ طرح طرح کی افواہیں گردش کررہی ہیں‘ کس پر کان دھریں۔ ایک بات تو واضح ہے کہ یہ لایا گیا بندوبست چلنے والا نہیں ہے۔ چل سکتا ہی نہیں۔ جنہیں ملک کا رکھوالا سمجھتے ہیں وہ بھی حیران و پریشان ہیں۔ اُن سے کچھ ہوا نہیں‘ آگے کیا کریں ۔ کر سکتے بھی کیا ہیں؟ سیاست کی بساط الٹ ہو چکی ہے۔ پرانے مفروضے ناکارہ ثابت ہو گئے ہیں۔ ایک نئی سیاست کے خدوخال تشکیل پا رہے ہیں۔ پی ڈی ایم والے بیچارے پرانی بولیاں بول رہے ہیں جو متعلق (Relevant) نہیں رہیں۔ اور سیاست کی جو نئی بساط ڈالی جا رہی ہے اُس سے اُن کا کوئی رشتہ نہیں۔ لہٰذا وہ سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔
یہ نہیں کہ نئے انتخابات عمران خان کا مطالبہ ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ نئے انتخابات کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ جو ملک کی صورتحال بن چکی ہے کیا شہباز شریف اُسے سنبھالیں گے؟ اُن میں اتنی صلاحیت ہے؟ وہ سات یا آٹھ تھانے‘ جن پر اسلام آباد مشتمل ہے‘ کے سربراہ رہ گئے ہیں۔ باقی سب کچھ عمران خان کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ سندھ میں آصف علی زرداری اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں کیونکہ اُنہیں معلوم ہے کہ اسی میں اُن کی سیاسی بقا ہے۔ حکومتِ سندھ اُن کے ہاتھ سے چلی جائے تو اُن کے پاس کیا رہ جاتا ہے؟
برے معاشی حالات اپنی ایک حقیقت پیدا کر رہے ہیں۔ لیکن معاشی حالات کے علاوہ بھی پاکستان میں کیا ڈرامائی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ یہ کوئی بے معنی محاورہ نہیں رہا کہ عوام بیدار ہو چکے ہیں۔ بیدارکرنے والا عمران خان ہے جو اقتدا رسے ہٹایا تو گیا لیکن پھر بھی ایسا ڈٹا کہ سب کار ساز اور اُن کے میدان میں اتارے گئے کھلاڑی حیران رہ گئے۔ حکومتیں تو پہلے بھی ہٹائی جاتی رہیں لیکن منصوبہ سازوں کے سامنے کون کھڑا ہوتا تھا؟ اور کوئی کھڑا ہونے کی جرأت کرتا تو وہ بخشا نہ جاتا۔ عمران خان کا ڈبل کارنامہ ہے‘ منصوبہ سازوں کے خلاف کھڑا ہو جانا اور پھر اُنہیں بے بس کردینا۔ اُن کا جی تو چاہتا ہوگا کہ عمران خان کو نگل جائیں لیکن حالات بدل چکے ہیں اور ایسا وہ کر نہیں سکتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی مقبولیت تھی لیکن مقتدر حلقے اُنہیں شک اور نفرت کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ عمران خان کی عوامی مقبولیت ہے اور ساتھ ہی اشرافیہ کے لوگ بھی اُنہیں اپنا ہیرو سمجھتے ہیں۔ ماسوائے قائداعظم کے پہلے پاکستان میں ایسا نہیں ہوا کہ ایک لیڈر ہو جس کی مقبولیت اوپر کے طبقات اور عوام میں بیک وقت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مقتدر حلقے غصیلی نظروں سے قومی منظر نامہ تو دیکھ سکتے ہیں لیکن کچھ کر نہیں پا رہے۔
پھر بھی یہ گومگو کی صورتحال کتنی دیر رہ سکتی ہے؟ قوموں کی زندگی میں بحران آتے ہیں لیکن اُن کاکوئی حل بھی ہوتا ہے۔ اب تو کسی کو شک نہیں رہنا چاہیے کہ پاکستان ایک سنگین سیاسی اور معاشی بحران میں پھنسا ہوا ہے۔ جو اس کھیل میں آگے لائے گئے ہیں اُن کی محدود نظریں ہیں کہ اُن کی کرپشن کے کیس ختم ہو جائیں اور اُن سے جمع کی ہوئی دولت کے بارے میں کوئی نہ پوچھے۔ ملک کا کیا ہوتا ہے اس بارے اُنہیں کوئی زیادہ پریشانی نہیں۔ عرض کیا نا! وہ اپنے ذاتی کام سیدھے کرنا چاہتے ہیں۔ جو پیچھے کھڑے ہیں اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کریں۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات اُن سے مینج نہیں ہوئے۔ سپریم کورٹ کا یہ اہم فیصلہ اُن کے خلاف گیا اور وہ ہاتھ ملتے رہے۔ ذہنوں میں کوئی سوچ ہے؟ کوئی خاکہ ہے‘ آنے والے دنوں کا کوئی زائچہ بنایا گیا ہے؟ واقفانِ حال جانتے ہوں گے‘ ہمیں ان باتوں کا زیادہ علم نہیں۔ بس اتنا جانتے ہیں کہ سب پریشان بیٹھے ہیں۔ پاکستانی سیاست کا ایک مفروضہ ہوا کرتا تھا کہ جو پیچھے کھڑے ہیں اُن کے پاس ہر سوال کا جواب ہے۔ ہر معاملے کے بارے میں وہ بہتر جانتے ہیں۔ عمران خان نے یہ پرانا بھانڈا یا برتن سرِبازار زمین پہ دے مارا۔
عوام سے رجوع ہی موجودہ بحران کا واحد حل ہے۔ یہ ہم سب جانتے ہیں۔ لیکن انتخابات کی طرف کیسے جایا جائے‘ اس بارے کنفیوژن ہے۔ سات یا آٹھ تھانوں کے وزیراعظم کی حالت دیدنی ہے۔ وہ نہ تین میں نہ تیرہ میں۔ اب تو اُن کی خاندانی جنگ بھی شدت اختیار کر چکی ہے۔ لندن والے کہہ رہے ہیں کہ تمہاری مفاہمتی سیاست نے پارٹی کا ستیا ناس کر دیا۔ ان حالات میں شہباز شریف نے کیا کرنا ہے؟ بازار کی گپ یہی ہے کہ زرداری بضد ہیں کہ جو بھی ہو اُنہوں نے سندھ اسمبلی نہیں توڑنی۔ سمجھدار انسان ہیں‘ بخوبی جانتے ہیں کہ انتخابات ہوئے تو سب کی گھنٹی بج جائے گی۔ اور پھر اقتدار ہوگا اور عمران خان۔ نون لیگ کو زعم ہے کہ پنجاب بچا لیں گے لیکن اُن کی صفوں میں جو سوچ کی صلاحیت رکھتے ہیں جانتے ہیں کہ پنجاب ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج نے بہت کچھ بتا دیا۔
ایک بات واضح ہو چکی ہے کہ منصوبہ سازوں کی اب اتنی نہیں چلے گی۔ عوام حاکم تو نہیں ہو گئے لیکن اُن کی رائے کچھ اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ پاکستان کے تناظر میں یہ بھی بڑی بات ہے۔