پاکستانی نظام یہ ہے کہ پیسے یہاں لوٹے جاتے ہیں اور پھرچھپ چھپا کر باہر بھیجے جاتے ہیں۔ آف شور کمپنیوں اور بینکوں میں پیسے رکھے جاتے ہیں اور جائیدادیں خریدی جاتی ہیں۔ پاکستانی نظام کے تو یہ بالکل برخلاف بات ہے کہ باہر سے پیسے بینکنگ چینل سے آئیں اور پاکستان میں استعمال ہوں۔ ایسے پیسے کو ڈکلیئر بھی کیا جائے۔ ہماری سمجھ سے بالکل باہر کی بات ہے کہ کوئی احمق ایسا کرے گا‘ لیکن عمران خان اور پی ٹی آئی نے بالکل یہی کیا ہے۔
عمران خان کے نام پر اگر پیسے باہر سے مل رہے تھے تو وہاں بھی رکھے جا سکتے تھے۔ ایسے پیسے سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ جیسی جائیدادیں خریدی جاتیں تو کس نے پوچھنا تھا۔ لیکن عمران خان اور اُن کے پارٹی کے لوگ عجیب ہیں‘ پارٹی کیلئے پیسہ باہر سے آیا اور اسے ڈکلیئر کیا گیا‘ بینکوں میں رکھا گیا۔ مزید حیرانی اس بات میں ہے کہ باہر کا پیسہ عمران خان کے کسی ذاتی اکاؤنٹ میں نہیں گیا۔ یہ تو بالکل ہی عجیب بات ہے کہ باہر سے پیسہ آئے اور ذاتی ضروریات کیلئے آپ اسے استعمال نہ کریں۔ پاکستانی تناظر میں یہ اول درجے کی بیوقوفی بنتی ہے۔
عارف نقوی والے پیسے ہی دیکھ لیجئے۔ جس کرکٹ میچ کے انعقاد سے انگلستان میں باہر کے لوگوں نے ٹکٹ خریدے اور یوں پیسے اکٹھے ہوئے‘ یہ پیسہ انگلستان میں رکھا جا سکتا تھا۔ عمران خان اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں نہ رکھتے تو کسی فرنٹ مین کا نام استعمال ہو سکتا تھا۔ آخرکار جناب اسحاق ڈار نے ایک قاضی فیملی کے ایسے ہی بینک اکاؤنٹ پاکستان میں کھولے تھے جن کے ذریعے مبینہ طور پر وسیع پیمانے کی منی لانڈرنگ ہوئی تھی۔ عارف نقوی کے پیسے باہر ہی رکھے جاتے اور پھر کسی آف شور کمپنی کے ذریعے عمران خان اپنے لیے انگلستان میں یا فرانس میں جائیدادیں خرید لیتے۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ ان احمقوں نے سارا پیسہ بینکنگ چینل کے ذریعے پاکستان بھیجا۔ یہ پیسہ ہنڈی کے ذریعے بھی آ سکتا تھا‘ لیکن ان احمقوں کو دیکھیے‘ بینکنگ چینل کے ذریعے پیسہ پاکستان آتا ہے۔ جائیدادیں خریدی جاتیں‘ مرسڈیز اور ایسی گاڑیوں کو استعمال میں لایا جاتا۔ لیکن نہیں‘ ان بیوقوفوں نے ایسا کچھ ہاتھ نہ دکھایا۔
مروجہ پاکستانی طریقہ یہ ہے کہ جیسے دیگر لیڈروں نے کیا‘ باہر جائیدادیں خریدی گئیں‘ کمرشل ایمپائر کھڑے کیے گئے۔ اور کہیں نہیں تو عمران خان اور پی ٹی آئی والے دبئی میں تو کچھ خرید ہی سکتے تھے۔ ہر پاکستانی نتھو خیرے کی چھوٹی یا بڑی جائیداد دبئی میں ہے۔ عمران خان کیسا لیڈر ہوا جس کے پاس دبئی میں ایک فلیٹ بھی نہیں۔ ان لوگوں کی تو دماغی حالت دیکھنی پڑے گی۔ جو اپنے لیے کچھ کر نہیں سکتے‘ انہوں نے ہمارے لیے کیا کرنا ہے۔ لیڈر ہو تو نوازشریف جیسا۔ جائیدادیں ہر طرف‘ لندن میں ہی اتنی پراپرٹی اور اتنی اعلیٰ پراپرٹی کہ رشک آ جاتا ہے۔ لیڈروں کا کچھ سٹائل ہوتا ہے‘ کچھ رہن سہن کا طریقہ۔ زرداری صاحب بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ کون سا بڑا ملک ہے جہاں ان کی جائیدادیں نہیں؟ باہر چھوڑیے‘ سندھ میں وسیع زرعی زمینیں‘ شوگر ملیں اتنی کہ حساب لگانا مشکل‘ مویشی اتنے جن میں اونٹ سرفہرست کہ تعداد بتائی جائے تو انسان کو یقین نہ آئے۔ لیڈر کی یہ شان ہوتی ہے۔ عمران خان عجیب لیڈر ہے کہ باہر مقیم پاکستانی جھولیاں بھر بھر کے اس کو دے رہے ہیں۔ اچھی بات ہے‘ دے رہے ہیں لیکن پیسے کو استعمال میں لانے کا ڈھنگ تو عمران خان کسی سے سیکھے۔
ایک فلیٹ لندن میں تھا جو کرکٹ کی کمائی سے خریدا گیا تھا۔ وہ بیچ ڈالا اور اُس پیسے سے بنی گالا والی یہ زمین خریدی۔ دینے والے بڑے بڑے نام حتیٰ کہ دبئی کے حکمران بھی پیسے دے رہے ہیں۔ یہ انکشاف بھی الیکشن کمیشن کے سامنے ہوا ہے۔ لیکن یہ سارا پیسہ بینکنگ چینل کے ذریعے پارٹی کو پاکستان میں پہنچایا گیا۔ ایسی لیڈری عمران خان اپنے پاس رکھے۔ شریفوں کے بارے میں کیا کہا جاتا ہے کہ اگر کھاتے ہیں تو دوسرو ں کیلئے بھی کھانے کا انتظام کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ زرداری صاحب ماشا اللہ رئیس الروسا بن چکے ہیں۔ کہاں کراچی کا بمبینو سینما اورکہاں اُن کی موجودہ پوزیشن۔ یہ اللہ کی دین ہے۔ اور جسے اللہ دیتا ہے اُسے پورا حق ہے کہ لندن اور نیویارک میں جائیدادیں خریدے۔ اب سمجھ آئی وہ بات جو عمران خان کے بارے میں کہی جاتی ہے کہ کسی کو چائے بھی نہیں پلاتا۔ جسے اتنی عقل نہیں کہ اگر باہر سے پیسہ آ رہا ہے تو اُسے وہیں رکھے اُس سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
ایک اور بات یاد آئی۔ عمران خان کی پہلی بیوی جمائما کا والد سر جیمز گولڈ سمتھ تھا جو کہ پونڈوں میں ارب پتی تھا۔ اُس کے وارثوں میں جمائما تھی اور جب عمران خان اور جمائما کی طلاق ہوئی تو انگریزی قانون کے تحت عمران خان جمائما کی جائیداد کے ایک حصے کا طلب گار ہو سکتا تھا۔ اندازہ لگائیے اس نے اپنی سابقہ بیوی کا ایک پیسہ بھی نہ لیا۔ سوچئے تو سہی ہم جیسا کوئی ہوتا تو اُس کا کیا رویہ ہونا تھا؟
ڈھنگِ حکمرانی تو شریفوں کو آتا ہے۔ اقتدار میں آتے ہی اُن کے مختلف کیمپ آفس کھل جاتے ہیں جن کے اخراجات سرکار کے ذمے ہوتے ہیں۔ جاتی امرا پیلس پر سینکڑوں کی تعداد میں پنجاب پولیس اور پنجاب کانسٹیبلری کی گارڈیں لگ جاتی ہیں۔ پچھلے دورِ حکمرانی میں ایک مزیدار چال چلی گئی۔ تب کے آئی جی پولیس مشتاق سکھیرا نے اپنی حکومت کو خط لکھا کہ جاتی امرا کو دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر اشد ضرورت اس امر کی ہے کہ جاتی امرا کے اردگرد بم پروف دیوار کھڑی کی جائے۔ جواب میں محکمہ پولیس سے کہا گیا کہ اگر ایسی دیوار ضروری ہے تو پھر اس کا اہتمام کیا جائے۔ محکمہ پولیس نے اپنے فنڈز میں سے ہی دیوار کا خرچہ‘ جو کروڑوں میں جاتا تھا‘ پورا کیا۔
یہ تو سب کو معلوم ہے کہ بطور وزیراعظم جناب نواز شریف کو لندن کے دوروں کا بڑا شوق رہا۔ غیرملکی دورے ہوتے تو کوشش کی جاتی کہ براستہ لندن ہوں تاکہ وزیراعظم صاحب کچھ دیر اپنے ذاتی فلیٹ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں آرام کر سکیں۔ ایک سے زائد مرتبہ ایسا ہوا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کا پورے کا پورا ایک بوئنگ وزیراعظم صاحب کے استعمال کیلئے لندن بلایا گیا۔ ایک مرتبہ پی آئی اے کا بوئنگ کئی روز تک ہیتھرو ایئر پورٹ پر کھڑا رہا اور ہمیں پتا ہے کہ وہاں جہاز کھڑا ہو تو خاصا کرایہ دینا پڑتا ہے۔ ایک دفعہ تو کہا گیا کہ وزیراعظم صاحب کی طبیعت ناساز ہے تواُن کو لانے کیلئے ایک بوئنگ کا بھیجنا ضروری ہے۔ یہ ہوئی نا حکمرانی۔ اس کے برعکس عمران خان کو دیکھیں‘ اپنے بنی گالا کے گھر کو بھی سرکاری کیمپ آفس کا درجہ نہ دیا۔ یعنی گھر کا خرچہ سرکار سے نہیں اپنی جیب سے ہوتا رہا۔
ایک بات تو واضح ہو چکی کہ عمران خان کا سیاسی طور پر مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے جانے کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ عمران خان ختم ہو جائیں گے اور سیاسی طور پر خطرہ نہیں رہیں گے۔ نتیجہ الٹ ہوا‘ عوامی حمایت عمران خان کی پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی۔ ٹوٹ ٹوٹ کر عوام ان کے جلسوں میں آنے لگے‘ عمران خان ایک کال دیتے اور عوام باہر آ جاتے۔ کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ لیکن ہو گیا اور اگلوں کے پسینے چھوٹ گئے۔ اب یہ الیکشن کمیشن والا آخری حربہ ہے کہ کسی طور پر عمران خان کے خلاف استعمال کیا جائے۔ کس دنیا میں یہ لوگ رہ رہے ہیں؟ بھونڈے ہتھکنڈوں سے کبھی تاریخ کا رخ موڑا جا سکتا ہے؟