ہم عموماً کہتے ہیں کہ قدرت نے اس دھرتی کو سب کچھ دیا ہے‘ بہترین موسم‘ زرخیز زمین‘ اونچے پہاڑ‘ دریاؤں اور سمندر کا پانی اور محنتی لوگ۔ یہ سچ ہوگا لیکن کچھ کمی تو رہ گئی ہوگی کہ آگے چلنے کے بجائے ہم بہت پیچھے جا چکے ہیں۔ پاکستان بنا تو چین میں خانہ جنگی جاری تھی۔ کوریا کے حالات بگڑے ہوئے تھے اور جلد ہی وہ ایک خوفناک جنگ کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ ہانگ کانگ ایک چھوٹی سی برطانوی کالونی تھا۔ سنگاپورکا بھی یہی حال تھا۔ ملائیشیا معرضِ وجود میں نہیں آیا تھا۔ تائیوان کا تب کوئی نام نہ جانتا تھا۔ اب دیکھیں یہ سارے ملک ترقی کی کیسی منزلیں طے کر چکے ہیں اور ہم کن گہرائیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
ہندوستان کے ساتھ ہمارا مقابلہ بنتا ہے۔ آج ہندوستان کا دنیا میں ایک مقام ہے۔ معاشی طور پر ایک مضبوط ملک ہے‘ ہر لحاظ سے ہم سے آگے ہے۔ آبادی کے لحاظ سے اسرائیل اپنے عرب ہمسائیوں سے خاصا چھوٹا ہے لیکن معاشی اور انڈسٹریل اعتبار سے تمام عرب دنیا سے کہیں آگے ہے۔ بات تو تب تھی کہ تعلیم‘ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہم ہندوستان سے آگے ہوتے۔ ہماری یونیورسٹیاں بہتر ہوتیں۔ ہمارے سائنسدان اور انجینئر مانے جاتے۔ محض بڑا پن ترقی کی ضمانت نہیں ہوتا۔ ہم کن بھنوروں میں پھنسے رہے کہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے؟
ایک زمانہ تھا جب اس نکتے پر بحث ممکن تھی کہ ہمارے حالات اچھے یا برے ہیں لیکن اب ہم سب مانتے ہیں کہ ہم سے ملک سنبھالا نہ گیا۔ یعنی اس بات پر قومی اتفاقِ رائے قائم ہو چکا ہے کہ ملکی حالات کو سامنے رکھیں تو ہمارا رونا دھونا بنتا ہے‘ لہٰذا فطری طور پر سوال اُٹھتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کون سی غلطیاں ہم سے سرزد ہوئیں کہ ہم پیچھے ہی پھسلتے گئے؟ہمارے ملک میں اسلام کا نام تو بہت لیا گیا لیکن شروع دن سے سماجی انصاف کا تصور ملک میں پیدا نہ ہوا۔ سمتِ ریاست ایسی رہی کہ اونچ نیچ کی جو دیواریں تھیں اونچی ہوتی گئیں۔ اُن کو ہموار کرنے کی سنجیدہ کوشش کبھی نہ کی گئی۔ عوام الناس کے مسائل پر خاطر خواہ توجہ نہ دی گئی۔ تعلیم‘ صحتِ عامہ‘ پبلک ٹرانسپورٹ‘ ریلوے کا نظام یہ ریاست کی ترجیحات کبھی نہ رہیں۔ انگریز کے چھوڑے ہوئے نظام میں خوبیاں تھیں اور کمزوریاں بھی۔ کمزوریاں ہم نے دور نہ کیں اور خوبیوں کو مسمار کرنا شروع کر دیا۔ مثال کے طور پر ریلوے کا نظام ہندوستان میں چل رہا ہے‘ ہم نے برباد کردیا۔ ہندوستان نے سماجی انصاف پر کچھ نہ کچھ توجہ دی۔ بڑی جاگیریں وہاں ختم کی گئیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو کی حکومت نے تعلیم پر بہت توجہ دی‘ یونیورسٹیاں اور ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ قائم کیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان شعبوں میں ہندوستان کے لوگ ہم سے بہت آگے ہیں۔ لیڈر پتا نہیں ہمیں کیسے ملے‘ بیکار کی چیزوں پر ان کی توجہ رہی۔ دنیا میں سرد جنگ جاری تھی‘ دو متحارب کیمپ تھے‘ ایک امریکہ کے پیچھے‘ دوسرا سوویت یونین کا پروردہ۔ لیڈر ہمارے وسیع النظر ہوتے تو دونوں کیمپوں سے فائدہ اٹھاتے‘ لیکن ہم نے اپنے آپ کو دفاعی معاہدوں میں جکڑ لیا اور یوں ہم امریکہ کی گود میں جا بیٹھے۔ بہت سے ملکوں نے امریکی دوستی سے فائدہ اٹھایا۔ جنوبی کوریا کو دیکھ لیں‘ امریکہ نواز رہ کر کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔ لیکن معلوم نہیں ہماری سوچ کا نقص رہا یا ہمارے لیڈروں کے کردار کا کہ ہم امریکہ دوستی سے سوائے چند ٹینکوں اور جنگی طیاروں کے کچھ حاصل نہ کر سکے۔ ادارے مضبوط ہوئے نہ ملک کو فائدہ پہنچا۔
سیاست کا انداز یہ رہا کہ قومی وحدت پیدا نہ ہو سکی۔ ایک لحاظ سے پاکستان منفرد ملک تھا کہ ملک کے دونوں حصوں میں ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ بنگال کی اپنی زبان‘ اپنا کلچر‘ اپنی پہچان لیکن مغربی پاکستان کے اکابرین بنگالی تشخص کو سمجھ نہ سکے۔ اپنے تصورات بنگالیوں پر ٹھونسنے کی کوشش میں رہے۔ مغربی پاکستان میں بھی جمہوریت قائم نہ ہو سکی۔ جنرل ایوب خان جو بعد میں خود ساختہ فیلڈ مارشل بن گئے‘ اتنے طاقتور ہوتے گئے کہ آخرکار انہوں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ بظاہر لگتا تھا کہ ملک میں استحکام آچکا ہے لیکن اندر ہی اندر بے چینی کا لاوا پکتا رہا اور جب ایوبی دور کے دس سال بعد لاوا پھٹا تو ایوب خان نے فوج کے ایک اور سربراہ جنرل یحییٰ خان کو اقتدار تفویض کردیا۔
شروع کے اقدامات تو جنرل یحییٰ خان کے بڑے اچھے لگتے تھے۔ مغربی پاکستان کے چار صوبوں کا ایک یونٹ بنایا گیا تھا جسے عوامی پذیرائی کبھی حاصل نہ ہوئی۔ جنرل یحییٰ نے پرانے صوبے بحال کر دیے۔ بہرحال یہ بات ملاحظہ ہو کہ ملک کے معرضِ وجود میں آنے کے تئیس سال بعد تک عام انتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکا تھا۔ سیاسی حلقوں میں یہ نکتہ ایمان کا درجہ رکھتا تھا کہ انتخابات کا نہ کرایا جانا پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اگر اقتدار عوام کے نمائندوں کو منتقل ہو جائے تو پاکستان میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ایوب خان کا دیا ہوا نظام بی ڈی ممبروں والا تھا۔ چالیس ہزار بی ڈی ممبر مغربی پاکستان میں اور چالیس ہزار مشرقی پاکستان میں‘ انہی کو ووٹ کا حق تھا۔ اس عجیب نظام کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے تشکیل دیا تھا۔ جنرل یحییٰ خان نے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات کا اعلان کیا اور اُن کے اس اقدام کو ہرطرف سے سراہا گیاکہ دیکھ لیں ایک ڈکٹیٹر ہے لیکن ملک میں جمہوریت قائم کررہا ہے۔
جنرل یحییٰ نے انتخابات تو کرا دیے لیکن نتائج کچھ ایسے نکلے کہ اُن کوہضم نہ کرسکے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی مغربی پاکستان میں بھاری اکثریت سے نمودار ہوئی تھی۔ بھٹو صاحب بھی عوامی لیگ کی حاکمیت قبول کرنے کے حق میں نہ تھے۔ یاد رہے کہ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے جھاڑو پھیر دیا تھا‘ صرف دو سیٹیں باہر گئیں‘ باقی سب عوامی لیگ کی تھیں۔ کڑوی تاریخ کو دہرانے کا کیا فائدہ۔ جنرل یحییٰ خان سے حالات سنبھالے نہ گئے‘ اسمبلی کا اجلاس نہ بلایا گیا اور مشرقی پاکستان میں ایکشن کا فیصلہ کر لیا گیا جس کے ردِ عمل میں مشرقی پاکستان کی آبادی بغاوت پر تل گئی۔
بھٹو صاحب کے دور کا ذکر کیا کیا جائے۔ کرشماتی لیڈر تھے لیکن مخالفت برداشت نہ کر سکتے تھے۔ اچھی چیزیں کیں لیکن سیاسی گھٹن کا ماحول بھی پیدا کردیا۔ 1977ء کے انتخابات غیر ضروری احتیاط کے بغیر بھی کراتے تو جیت جاتے لیکن کچھ ایسے فضول کے اقدامات کیے گئے کہ ایک تحریک شروع ہو گئی جو اتنی لمبی چلتی گئی کہ ایک اور شہسوار‘ جنرل محمد ضیا الحق‘ کو مداخلت کا عذر مل گیا اور اُن کا سلسلۂ حکمرانی ساڑھے گیارہ سال تک جاری رہا۔ اُن کے اقتدار کی دو تین چیزیں نمایاں تھیں۔ سیاست کو دبا کر رکھا‘ افغانستان میں ایسی مداخلت کی کہ افغانستان کے مسائل پاکستان کے بن گئے اور ہم مسلمانوں کو دوبارہ اور سہ بارہ پھر سے مسلمان بنانے میں لگے رہے۔ جنرل ضیا الحق کی مہربانیوں کے بعد پاکستان بس واجبی طور پر ہی قائداعظم کا پاکستان رہ گیا۔ اب مشکل ہو گیا ہے یہ کہنا کہ یہ پاکستان کس کے تصور کا ہے۔
ایک اور بات کا ذکر بھول گئے۔ کچھ جنگی جنون بھی ہم میں زیادہ ہی رہا۔ باہر سے خطرہ تو اتنا نہ تھا لیکن خطرے کے ڈھول ہم پیٹتے رہے۔ بغیر سوچے 65ء کی جنگ میں ہم پھسل گئے اور اُس جنگ سے ملک کو نقصان بہت ہوا۔ اور جیسے عرض کیا ہے جنرل ضیا کے دور میں افغانستان کے مستقبل کے ہم ٹھیکیدار بن بیٹھے۔ اس ٹھیکیداری کی بھی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔