مولاناکوثر نیازی مرحوم جب 'جنگ‘ میں کالم لکھتے تھے تو اُن کے کالم کا عنوان یہ ہوا کرتا تھا اور کل جب سو کے اٹھا‘ کہیں سے یہ پرانی یاد آ گئی۔انگریزی میں کالم لکھتے تو روٹین یہ ہوا کرتی تھی کہ کالی کافی کا کپ صبح پیا اور ٹائپ رائٹر یا کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ گئے۔کچھ دیر بعد دوسرا کپ اور باقاعدہ ناشتہ کچھ دیر بعد ہی ہوا کرتا تھا۔جب سے اردو میں زورآزمائی کرنے لگے ہیں معمول یہ ہو گیا ہے کہ صبح کچھ ٹہل لیا‘ کافی پی‘ ورزش بھی کرلی اورپھر ناشتہ کیا۔ گاؤں میں ہوں تو ظاہر ہے کہ ناشتے میں پراٹھا اور دہی وغیرہ کا استعمال ہوتا ہے۔ ایسے ناشتے کے بعد لکھنا ممکن نہیں رہتا۔ اس لیے معمول یہ بن چکا ہے کہ کچھ سو لیا‘ فریش ہوئے اور پھر جلدی جلدی کالم فون پر ہی ڈکٹیٹ کردیا۔
انسان ہرچیز میں خرچے کے اعتبار سے ہاتھ کھینچے لیکن دو چیزوں میں کنجوسی بیوقوفی کے زمرے میں آتی ہے۔ ایک ڈاکٹروں کے مسئلے میں اور دوم‘ جہاں وکلا کا تعلق ہوتا ہے۔ سطحی اہلیت کا حامل ڈاکٹر اور وکیل آپ کو اپنے انجام تک تھوڑا جلدی ہی پہنچا دیتا ہے۔ 1981ء میں چکوال میں مجھ پر ایک مقدمہ بنا۔ معمولی تکرار ہوئی تھی اور اگلوں نے میڈیکل کروا کر 324کا پرچہ کرا دیا۔ تب 324کی نوعیت آج کل سے کچھ مختلف تھی۔ ضمانت قبل از گرفتار کرالی اور کنفرمیشن کیلئے سیشن عدالت جہلم حاضر ہوئے‘ تب چکوال ضلع جہلم کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ فوجداری مقدمات میں قبل از گرفتاری ضمانتیں مشکل سے کنفرم ہوتی ہیں۔ وکیل ہمارے خواجہ سعید الدین مرحوم تھے جوکہ جہلم بار کے چوٹی کے فوجداری وکیل تھے۔خواجہ صاحب کی طبیعت اُس دن ذرا خراب تھی اور اُنہیں ہلکا سا بخار تھا۔ بات شروع کی تو اُن کی آواز تھوڑی دھیمی تھی۔میں نے سوچا مارے گئے‘ خواجہ صاحب تو بول ہی نہیں پا رہے۔لیکن یقین مانئے کہ جب بولتے گئے تو ہم سب کے سامنے جج صاحب کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہونے لگے۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ 324 میں نیت ِ اقدام کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ یہاں کون سی نیت ظاہر ہوتی ہے؟ تمام شواہد بتاتے ہیں کہ اچانک واقعہ رونما ہوا۔ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ ملزم کے پاس پستول تھا جسے وہ لہرا رہا تھا۔ اگرپستول تھا تو اُس کا کوئی استعمال ہوا؟ اور کچھ نہیں تو پستول کے بٹ کا استعمال ہوا؟ ایک دو ہائیکورٹ کے فیصلے اپنے دلائل کے حوالے سے اُنہوں نے پیش کیے۔جرم ثابت ہوتا ہے تو مقدمے میں سزا ملے گی لیکن فی الحال اگر نیت ثابت نہیں ہوتی تو مدعا علیہ کو ضماعت کا ریلیف ملنا چاہئے۔ہماری ضمانت کنفرم ہو گئی اور تب خیال آیا کہ وکیل کمزور ہوتے تو ہم مارے گئے تھے۔
یہ جو موجودہ کیس اپنے بیٹے کا ہے اور جس کا چرچا بحیثیت گھناؤنے جرم کے پورے پاکستان میں ہوا ہے اس میں بھی ایک اچھے وکیل کی افادیت کا اندازہ ہواہے۔ اس مقدمے میں مجھے بھی 109 میں یعنی مشورے میں دھر لیا گیا تھا۔ گرفتاری بھی ہو گئی‘ کیسے ہوئی یہ کسی اور وقت کیلئے کہانی ہے۔ریمانڈ کی پہلی پیشی پر میں خود بولا کہ میرا تعلق بنتا نہیں ہے۔دوسری پیشی ہوئی وہاں بھی میں نے خود کچھ گزارشات پیش کیں۔ دونوں پیشیوں پر پولیس کو ایک ایک دن کا ریمانڈ ملا۔ دوسرا ریمانڈ ختم ہوا تو مزید ریمانڈ کیلئے مجھے علاقہ مجسٹریٹ سینئر سول جج جناب عامر عزیز خان کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ تب ہمارے وکیل ممتاز قانون دان بشارت اللہ خان ہماری طرف سے پیش ہوئے۔ تفتیشی افسر نے ریمانڈ کی استدعا کی‘ سرکاری وکیل نے بھی مزید ریمانڈ پر زور دیا۔ پھر بشارت اللہ خان بولنے لگے۔ چند منٹ ہی بولے‘ اُن کی معروضات اتنی لمبی نہ تھیں لیکن سنتے ہوئے دلائل کی کوالٹی ایسی تھی کہ مزہ آگیا۔ بنیادی طور پہ اُنہوں نے یہ کہا کہ مقدمہ مثل پرمیرے خلاف پولیس کوئی ثبوت نہیں لا سکی۔ ثبوت لاتی ہے تو اور صورتحال ہوگی لیکن اب تک کچھ لانے میں ناکام رہی ہے۔ فیصلہ محفوظ ہو گیا اور کچھ دیر بعد پتا چلا کہ مقدمے سے میری ڈسچارجی ہو گئی ہے۔ایک بات کہتا چلوں کہ جناب عامر عزیز خان کی عدالت میں مَیں نے بہت ڈسپلن دیکھا۔ کوئی فالتو آواز سنائی نہ دیتی۔جج صاحب کے چہرے کو دیکھ کر میں تھوڑا ڈر ساگیا تھا کیونکہ سخت گیر لگتے تھے۔ لیکن ایک بات عیاں تھی کہ کیس فائل بہت باریکی سے پڑھتے ہیں۔جو سوال پوچھتے پتے کا ہوتا۔ بعد میں مَیں نے بشارت اللہ خان سے کہا کہ مزید میرا ریمانڈ ہو جاتا مجھے ارمان نہیں ہونا تھا کیونکہ آپ سے بہتر دلائل کوئی دے نہیں سکتا تھا۔
یہاں ہم پولیس اصلاحات کی بات بہت کرتے ہیں۔ کتابی باتیں چھوڑیں‘ ایک ریفارم اگر ہو سکے تو پولیس فورس کی شکل بدل جائے۔ اسلام آباد کے سارے نئے تھانے ہیں۔ اور بھی نئے تھانے بنتے رہتے ہیں لیکن کوئی بنیادی وجہ ہے کہ تھانوں میں ٹائلٹ ضروریات کا صحیح بندوبست نہیں کیا جاتا۔ جنرل ضیا کے مارشل لاء کے زمانے میں دو دفعہ گرفتاری ہوئی۔ دوسری گرفتاری اسلام آباد کی تھی اور ایک مشہو رمجسٹریٹ ہوا کرتے تھے نصراللہ ملک جنہوں نے مجھے رات گئے حراست میں لیا اور آبپارہ تھانے پہنچایا۔ از راہِ مہربانی ملک صاحب نے ڈیوٹی پر موجود محرر سے دو بار کہا کہ یہ بڑے معزز آدمی ہیں۔ اتنا معزز تو نہ تھا لیکن ملک صاحب کی مہربانی۔محرر نے کہا: سر حکم کی تعمیل ہوگی۔ مجسٹریٹ صاحب گئے تو محرر نے سامنے لکڑی کے بینچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا بیٹھ جاؤ۔ اور کرتا بھی کیا‘ وہاں صوفے تو کوئی تھے نہیں۔ رات اُس بینچ پر گزری لیکن بتانے کی بات یہ ہے کہ صبح جب میں نے ٹائلٹ کا پوچھا تو مجھے اُس کمرے میں لے جایا گیا جس کا منظر آج تک ذہن میں چسپاں ہے۔وہ ٹائلٹ تھا یا پانی کا ایک تالاب جس میں استعمال کیلئے اینٹیں رکھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہے میں وہیں سے واپس ہو گیا۔
ایک اچھا کام آج کل ہوا ہے کہ کم از کم ایس ایچ او صاحبان کے کمروں کے ساتھ نسبتاً اچھے ٹائلٹ نصب کر دیے گئے ہیں۔ لیکن اگر ہر تفتیشی کمرے کے ساتھ ٹائلٹ بنا دیا جائے تو یقین مانئے چاروں صوبوں کی پولیس کی کارکردگی بہتر ہو جائے۔ افسروں کی سہولتوں پر تو کوئی کمپرومائز نہیں ہوتا۔ اپنی فورس کی سہولتوں کی طرف بھی کوئی توجہ دیں۔آج کل نسبتاً پڑھے لکھے لوگ پولیس فورس میں آ رہے ہیں۔ لیکن تفتیشیوں کے کمرے بس ویسے ہی‘ سامان رکھنے کی کوئی جگہ نہیں‘ استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلیں ادھر ادھر بکھری پڑیں۔ ایسے ماحول میں افسری کہاں قائم رہتی ہے۔ یہ باتھ روم والی میری تجویز مان لی جائے تو پولیس فورس بہتر ہو جائے۔اور باتیں بھی ہیں لیکن کسی اور موقع کیلئے رہنے دیتے ہیں۔
ہر حکومت جو آتی ہے کہتی ہے کہ تھانہ کلچر تبدیل کرنا ہے۔ تھانہ کلچر سے مراد کیا ہے؟ یہی کہ پولیس کا رویہ سائلوں اور عوام کے ساتھ ٹھیک نہیں۔ جس قسم کی ڈیوٹیاں پولیس سے لی جاتی ہیں اُس سے خاص مزاج جنم لیتا ہے۔ نیند پوری نہ ہو‘ کھانے پینے کا صحیح انتظام نہ ہو‘ ادھر اُدھر آپ بھاگتے رہیں ایسے میں مزاج سخت ہو جاتے ہیں۔جو انگریزی کا لفظ cynical ہے‘ ایسے ماحول میں نرم جذبات دلوں سے نکل جاتے ہیں اور انسان ہرچیز کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے یا اندازہ لگانے لگتا ہے کہ مجھے اِس میں سے کیا ملنا ہے۔کوئی بھی کلچر تبدیل تب ہوتا ہے جب اُس کے بنیادی اجزا میں کچھ تبدیلی آئے۔