مبارک رخساروں پر کتنے اور طمانچے پڑیں کہ نازک مزاجوں کو کچھ بات سمجھ میں آئے؟ آپ نے جو ماہِ اپریل میں کیا اُسے عوام کے دلوں میں پذیرائی نہیں بخشی گئی۔ یہ امر عیاں ہو چکا ہے‘ بیسیوں شواہد ہیں جو کہ اس امر کے حق میں گواہی دیتے ہیں لیکن آپ ہیں کہ صرف آنکھیں بند نہیں کی ہوئیں‘ ذہنوں پر تالے بھی لگا رکھے ہیں۔ سلسلہ وار جلسوں کے ذریعے عوام نے اپنی رائے واضح کردی۔ پنجاب کے جو ضمنی الیکشن ہوئے وہ مبارک رخساروں پر پہلا زوردار نشان تھا۔ اب یہ ضمنی الیکشن ہو گئے ہیں‘ جن کی گونج پوری دھرتی پر اور پہاڑوں کے اُس پار سنی گئی ہے۔ یہ بھی نہیں کہ آپ بالکل ہی سمجھنے سے قاصر ہیں لیکن سمجھنے کے بعد آپ کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ آگے کرنا کیا ہے۔
بس قوم کو آزمائش میں ڈالا ہوا ہے۔ حالات گرفت میں ہیں نہیں‘ معیشت پہلے کی طرح ڈنواں ڈول ہے‘ کشکول ہے کہ اُس کی بے حرمتی ہوتی جا رہی ہے‘ غیر کیا دوست بھی اُس میں کچھ ڈالنے سے گریزاں ہیں۔ لیکن 23تھانوں کی سلطنت پر پرچم لہرایا جا رہا ہے۔ نہ آگے کی سمجھ نہ پیچھے کا ادراک‘ بس ہوائی باتیں اور خواہ مخواہ کا رعب۔ کبھی اس کو دھر لیا‘ کبھی فلاں کو‘ کہ عبرت کا نشان بنائیں گے۔ اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ آپ حاصل کیا کرنا چاہتے تھے اور قوم پر ایک مصیبت مسلط کر کے آپ نے حاصل کیا کیا ہے؟ افلاطونی ہو تو ایسی‘ بے مقصد اور بے ثمر۔
یہ اقرار مقصود نہیں کہ عمران خان کوئی صلاح الدین ایوبی ہے۔ غلطیوں اور کوتاہیوں سے بھرا پڑا ہوگا۔ دورانِ اقتدار ہم خود بھی اُن پر تبرے کستے تھے۔ اخبار کے کالم ہوں یا ٹی وی کے شو‘ شروع خان صاحب کی تنقید سے ہوتے اور تنقید پر بات ختم ہوتی۔ ایک موقع پر یہاں تک ہم نے کہا کہ اگلے الیکشن آئیں گے تو امیدوار آگے ہوں گے اور پی ٹی آئی کا ٹکٹ اِن کے پیچھے بھاگ رہا ہوگا۔ لیکن تنقید اپنی جگہ‘ کھلواڑ کرنا تو دوسری چیز ہے اور آپ نے ماہِ اپریل کے اقدام سے کھلواڑ کا سامان اس دھرتی پر بچھا دیا اور ایک مصیبت اُس پر مسلط کر دی۔ یعنی آپ نے ساری صورتحال ہی بدل ڈالی۔ اب عمران خان پر تنقید یاد کرتے ہیں تو اپنے آپ پہ شرم آتی ہے۔ کم از کم چیزیں چل تو رہی تھیں اُس وقت لیکن آپ کا کارنامہ سرانجام ہوا تو حالات جہاں مثالی نہیں تھے‘ ابتر ہو گئے۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ چھ ماہ بعد بھی آپ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ آگے کرنا کیا ہے۔
بس امید کی جا رہی ہے کہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ پہلے تکیہ بیچارے مفتاح اسماعیل پر تھا کہ وہ معجزات کر دکھائیں گے۔ گندا کام اُس سے کروا لیا تو چھٹی کرا دی اور اپنے ٹوڈر مل کو لایا گیا کہ اصلی معجزات کا سلسلہ اب شروع ہوگا۔ اُن کا چہرہ مبارک تو دیکھنے والا تھا جب واشنگٹن گئے اور ایئر پورٹ پر کسی متوالے نے آواز کس دی۔ دیکھتے ہی چہرے پر سارا کلف پگھل گیا اور اُنہیں خوش آمدید کہنے والے حواری تھے جو ننگی گالیوں پر اتر آئے۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ پنجابی دانشوری مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ ننگی گالیوں کا تڑکا نہ لگایا جائے۔ اس کے بغیر منہ میں وہ مزہ ہی نہیں آتا۔ واشنگٹن ایئرپورٹ پر اس بہادری کا مظاہرہ کسی بٹ صاحب نے کیا تھا۔ اُن کا مظاہرہ نہایت ہی متاثر کن تھا۔
مسئلہ تو ہے عمران خان کا لیکن یہ بھی مکمل درست نہیں۔ اصل مسئلہ پاکستانی عوام کا ہے۔ پاکستانی عوام کا بھروسا آپ سے اُٹھ چکا ہے۔ اس کا کیا علاج کیا جائے؟ بات سننا تو دور کی بات ہے‘ حالات یہاں پہنچ چکے ہیں کہ عوام آپ کے چہرے دیکھنے سے بیزار ہیں۔ تیس پینتیس سال بڑا عرصہ ہوتا ہے۔ اتنا عرصہ قوم کی قسمت سے کھیلا جاتا رہا۔ قوم کی حالت وہی لیکن آپ اور آپ جیسے ارب پتیوں سے بھی زیادہ ہوتے گئے۔ جائیدادیں آپ کی براعظموں پر پھیلی ہوئیں لیکن تمنائیں ایسی کہ پوری نہ ہوں۔ بیچارے عوام بھی تنگ آ گئے کہ بہت ہو چکی‘ اب تو ہمارے حال پر رحم کیجئے۔ لیکن کوئی متبادل نہ تھا‘ تیسرا راستہ نہ تھا۔ پیپلز پارٹی یا نون لیگ یا پھر وہ جو اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتے آئے ہیں۔ اب خدا خدا کرکے ایک متبادل نکلا ہے اور اُسے دیکھتے عوام اُس کے پیچھے ہو گئے ہیں۔ کچھ تو اُس متبادل کے عشق میں پیچھے ہوئے ہوں گے لیکن کچھ آپ کی پیدا کردہ بیزاری کی وجہ سے۔ وہی پرانے چہرے کب تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ بڑی سے بڑی فلم سٹار سے لوگ اُکتا جاتے ہیں اور آپ تو کوئی فلم سٹار نہ تھے۔
کچھ تو انصاف کیا جائے۔ نواز شریف صاحب میں بڑی خوبیاں ہوں گی لیکن پینتیس سال کا عرصہ بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ پینتیس سال سے ایک ہی چہرہ رہے تو اس سے بڑا عذاب کسی قوم پر کیا ہو سکتا ہے؟ اور یہی حال سندھ کے درویش جناب آصف علی زرداری کا ہے۔ کہاں سے شروع ہوئے کہاں تک پہنچ گئے لیکن آرزوئے دولت و اقتدار دل سے نہ گئی۔ اپنی صدیوں پرانی تاریخ میں سندھ کے عوام نے بہت کچھ برداشت کیا ہوگا لیکن زرداری صاحب کی شکل میں جو امتحان اُس پر آن پڑا ہے اس سے بڑا امتحان تو شاید کوئی نہ ہو۔
اور ہمارے اکابرینِ ملت‘ محافظانِ اخلاقیات و استحکام‘ اُ ن کی جلیل القدر سوچ کا کیا کہنا۔ دائروں میں گھومتی ہے اور جو آج کل کی ملکی صورتحال ہے اسی وژن کی اختراع ہے۔ عمران خان برے تھے مان لیا‘ اُنہیں ایک سوچی سمجھی سکیم کی بدولت ہٹایا گیا تو 23تھانوں کی سرکار پر کس کو براجمان کیا؟ شہباز شریف کو۔ چلے ہوئے کارتوس ہوں یا استعمال شدہ توپیں‘ اُن کا اثر کیا ہو سکتا ہے۔ البتہ یہ چلے ہوئے کارتوس اتنے بھی بھولے نہیں۔ اور تو ان سے کچھ ہوا نہیں‘ نیب قانون کے دانت‘ جو پہلے بھی کچھ اتنے تیز نہ تھے‘ کو آنکھ جھپکنے میں نکال دیا گیا۔ سارے کیس کمزور کر دیے گئے۔ استغاثہ کے لوگ جو ظاہر ہے سرکار کے تابع ہوتے ہیں‘ بھول ہی گئے کہ کل کے مجرمان کے خلاف الزامات کیا تھے۔ چودہ ارب کے منی لانڈرنگ کیس میں جناب شہباز شریف اور اُن کے ہونہار فرزند حمزہ شہباز بری کر دیے گئے کیونکہ جیسے کہا گیا اُن کے خلاف کچھ ثابت ہی نہیں ہوا۔ ہاں‘ اربوں پر مشتمل بے نامی کے بینک اکاؤنٹ موجود تو ہیں لیکن جنابِ شہباز شریف اور ہونہار فرزند سے ان بینک اکاؤنٹوں کا کوئی رشتہ نظر نہیں آتا۔ انصاف ہو تو ایسا ہو۔
چلیں یہ سب کچھ ہو گیا۔ وزیراعظم صاحب اور حمزہ شہباز کو اپنی بریت بھی مبارک ہو۔ لیکن پاکستانی عوام کا کیا کیا جائے؟ وہ جو قائل نہیں ہو رہے۔ پاکستانی عوام نے آپ کو‘ آپ کے حواریوں کو‘ آپ کے ہتھ رکھوں کو پینتیس سال تو برداشت کیا لیکن مزید برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اس کاکیا علاج کیا جائے؟
آج الیکشن نہیں ہوتے‘ کل تو کرانے پڑیں گے۔ چلیں یہ سال بھی آپ نے بھگتا لیا‘ اگلے سال کا سورج طلو ع ہوگا‘ کسی نہ کسی وقت تو انتخابات کرانے پڑیں گے۔ اور کوئی چارہ نہیں۔ پھر کیا ہوگا؟ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں اگلوں کا بینڈ بج گیا۔ اب دوسرے ضمنی الیکشن میں پورے پی ڈی ایم اور سہولت کاروں کا بینڈ پھر سے بج گیا۔ اس صورتِ حال کا علاج کیا ہے ۔