آپ الیکشن نہیں کرانا چاہتے‘ بات سمجھ میں آتی ہے۔ڈر ہے کہ الیکشن کے نتائج موافق نہ ہوں گے اور جو ہمیں للکار رہا ہے اُس کی آواز مزید زور آور ہو جائے گی۔ دھڑکا لگا ہو توایسے وسوسے ذہنوں میں جنم لیتے ہیں۔لہٰذا فیصلہ شاید کر لیاگیا ہے کہ جو بھی ہو فلاں شخص کو روکنا ہے۔ مسئلے البتہ دو ہیں‘ ایک یہ کہ الیکشن نہیں کرانے تو آئین کے ساتھ کچھ کرنا ہو گا۔ آئین واضح کہتا ہے کہ اسمبلی کوئی ختم ہو تو مقررہ میعاد میں الیکشن کرانے ہیں۔ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ہاں‘ وہ راستہ ہے جو ایوب خان اور ضیا الحق نے اپنایا اور جس کا ایک تجر بہ پرویز مشرف نے کیا‘لیکن زمانہ کچھ بدل چکا ہے‘ آج شاید وہ ممکن نہ ہو جو اُن گزرے ہوئے زمانوں میں ہوسکتا تھا۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر الیکشن نہیں کرانے تو کچھ تو ذہن میں ہوگا کہ پھر کیا کرنا ہے۔یعنی کوئی پلان بی تو ہو گا‘ کہ ہم نے الیکشن سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے اور بطورِ متبادل ہم یہ کریں گے۔ابھی تک ہماری ناقص عقلوں میں کچھ بات نہیں آئی کہ حضور کیا کرنا چاہتے ہیں۔ہمیں تو فقط اتنا پتا ہے کہ معیشت کی جو بھکاریوں والی حالت بن چکی ہے اُس میں سب کی مت ماری گئی ہے۔عوام کی مت مہنگائی نے مار دی ہے اور مابدولت کی مت بگڑے ہوئے حالات کی وجہ سے ماری گئی ہے۔ ایسے تو پھر معاملات نہیں چلنے والے‘ اگر ایک راستے سے چھٹکارا حاصل کرناہے تو پھر لازم ہے کہ کوئی دوسرا راستہ ہو۔ ہماری دانست میں تو کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آ رہا۔ آپ کے ڈر اور وسوسوں سے واقف ہیں‘ آپ کی ضد جو بن چکی ہے وہ ہم جانتے ہیں۔لیکن ان سب چیزوں کا متبادل کیا ہے‘ شاید آپ کے ذہنوں میں کچھ ہو لیکن ہماری پلے ابھی تک کچھ نہیں پڑا۔
محض ضد کی بنا پر کسی ملک کے معاملات چلائے جاسکتے ہیں ؟ ہمارے سامنے حالیہ وقتوں میں تین مثالیں ہیں جہاں جمہوری راستہ روکا گیا۔ایک تھائی لینڈ جہاں مقبول لیڈر شِناواترا کو فارغ کیا گیا۔ اُسے نااہل کیا گیا تو اُس کی سگی بہن یِنگ لُک انتخابات جیت کر وزیراعظم بن گئی۔اگلوں کو یہ بھی منظور نہیں تھا لہٰذا اُسے بھی فارغ کیا گیا۔اُس قت سے لے کر اب تک مقتدر ادارے ہی حکومت سنبھالے بیٹھے ہیں۔دوسری مثال میانمار کی ہے‘ جہاں سالوں سے مقبولِ عام لیڈر آنگ سان سوچی پابندِ سلاسل ہیں اور حکومت مقتدرہ کے سرکردہ افراد نے سنبھالی ہوئی ہے۔تیسری مثال مصر کی ہے جہاں منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹایا گیا‘ اُن پر مقدمہ قائم ہوا سلاخوں کے پیچھے اُن کا ٹرائل ہوتا رہا۔دورانِ قید اُن کی موت واقع ہو گئی۔تختہ الٹنے پر فیلڈ مارشل عبدالفتح السیسی نے اقتدار پر قبضہ جمایااور تب سے لے کر آج تک وہ مصر کے صدر ہیں۔
تھائی لینڈ کی معیشت مضبوط ہے اور گو وہاں جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا دیگر حالات وہاں معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔میانمار کی حالت بہت پتلی ہے لیکن وہاں کی مقتدرہ نے میانمار کو باقی دنیا سے الگ کیا ہوا ہے اور وہ اپنی ہی دنیا میں جی رہے ہیں۔مصر میں فیلڈ مارشل السیسی کو سعودی عرب کی طرف سے امداد حاصل رہی ہے‘ آئی ایم ایف پروگرام بھی وہاں چل رہا ہے لیکن معیشت کی حالت بہت خراب ہے اور جیسے ہمارے مسائل ہیں وہاں بھی اسی قسم کے پرابلم ہیں۔ان تین مثالوں اور ہمارے میں یہ فرق ہے کہ ہمارے ہاںسابقہ فاٹا کے علاقوں میں اور بلوچستان میں شورش برپا ہے۔ بھارت سے تعلقات خراب ہیں افغانستان سے بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں۔اور جہاں تک معاشی حالت کا تعلق ہے وہ میانمار اور مصر سے ابتر ہو گئی ہے۔یہ ہمارے بڑے حکمرانوں کا کارنامہ ہے۔ سال پہلے حالات یوں سمجھئے کہ نارمل تھے۔ معیشت چل رہی تھی‘ ٹیکسٹائل انڈسٹری جو کہ ہماری سب سے بڑی انڈسٹری ہے فُل ٹائم چل رہی تھی۔ برآمدات بڑھ رہی تھیں‘ ٹیکس بھی زیادہ جمع ہو رہا تھا۔ملک میں کوئی بدامنی یا کسی قسم کی شورش نہ تھی۔مداخلت کرنے والے افلاطون آئے اور سب کچھ الٹ پلٹ ہو گیا اور چند ہی ماہ میں معیشت کو وہاں پہنچا دیا گیا جس کی کوئی مثال پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔
گاڑی آپ چلا رہے ہوں اور وہ گاڑی کہیں پھنس جائے تو کوشش ہوتی ہے کہ اُسے وہاں سے نکالا جائے۔ لیکن جن کے ہاتھوں میں ہماری قسمت اس وقت ہے وہ اُسی دلدل میں جہاں گاڑی پھنسی ہے وہیں ریس دیے جا رہے ہیں۔دلدل سے کیسے نکلا جائے اس کی کوئی سوچ نہیں ہے یا کم از کم ہمیں نہیں نظر آتی کہ ایسی سوچ کہیں موجود ہے۔گاڑی کو دلدل میں لے کر خود گئے ہیں لیکن ضد کسی اور سے ہے۔
جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی تھیں اُس وقت خبریں یہ تھیں کہ زمان پارک کے اردگرد پولیس کی بھاری نفری موجود ہے‘ اسلام آباد سے بھی پولیس آئی ہوئی ہے گرفتاری کو عمل میں لانے کیلئے۔گرفتاری ہوتی ہے یا نہیں‘ یہ تو کچھ دیر بعد ہی پتا چلے گا لیکن ملک کے مسائل کچھ اور ہیں اور جن کے ہاتھوں میں ہماری قسمت ہے وہ اور راستوں پر چل رہے ہیں۔مفروضے کے طور پر اگر مان بھی لیا جائے کہ گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے تو اُس سے کیا آپ کے مسائل ختم ہو جائیں گے ؟ ملک میں استحکام آ جائے گا ؟ معیشت سنبھل جائے گی‘ ڈالروں کا کوئی سیلاب آجائے گا؟ہماری ناقص عقل کے مطابق توملک میں جوایک ذہنی خلفشار پایا جاتا ہے اُس میں اضافہ ہوگا‘ افراتفری بڑھے گی‘ نفرتیں جو جنم لے چکی ہیں اُن میں مزید شدت آئے ہوگی۔پاکستان کو سکون میسر نہیں ہوگا‘ تو پھر ایسی حرکت سے کیا حاصل؟
لگ بھگ پینتالیس سال پہلے جنرل ضیا الحق اور اُن کے ساتھی سمجھتے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو راستے سے ہٹایا گیا تو وہ چین سے حکمرانی کر سکیں گے۔ ہٹانے کی ترکیب سوچی گئی اور اُس پر بہت کامیابی سے عمل درآمد ہوا۔لیکن وہ زمانہ اور تھا۔آج بھی جبرواستبداد ہو رہاہے لیکن ساتھ ہی عوامی سطح پر مزاحمت ہو رہی ہے۔سوشل میڈیا کی شکل میں مزاحمت کے ہتھیار بھی ہیں۔ اُس زمانے میں یہ ہتھیار دستیاب نہ تھے۔چند اخبارات ہوتے تھے اور اُنہیں توڑنا موڑنا کوئی اتنا مشکل کام نہ تھا۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے بہت کچھ بدل گیا ہے‘ خبریں آگ سے بھی زیادہ تیز پھیل جاتی ہیں۔یہ بھی ہے کہ روسی افواج جنرل ضیا الحق کی مدد کو آن پہنچی تھیں۔روس نے افغانستان میں اپنی فوج بھیجی تو پوری مغربی دنیا نے ضیا الحق کو اپنا ہیرو بناڈالا۔مغربی دنیا اور بالخصوص امریکہ کو ایک آلہ کار چاہئے تھا اور جنرل ضیا الحق کی شکل میں وہ اُن کو مل گیا۔اندھے کو کیا چاہئے ؟ دو آنکھیں۔ جنرل ضیا الحق کو پذیرائی چاہئے تھی‘ افغانستان پر روسی فوج نے چڑھائی کی تو وہ اُنہیں مل گی۔مالی امداد اور فوجی ساز و سامان‘ سب ملا۔ یعنی مردِمومن و مردحق کے وارے نیارے ہو گئے۔
کوئی پوچھے اب کون ساافغانستان ہے؟کون سی روسی فوج نے آنا ہے کہ مغربی دنیا لپک کر آپ کی امداد کو پہنچ جائے گی؟ اب تو کچھ اور ہی ہو رہا ہے۔ چھوٹی سی قسط ہے جو ہمیں آئی ایم ایف سے ملنی ہے‘ کون سی ناک کی لکیریں ہیں جو ہم سے نہیں نکلوائی گئیں لیکن وہ چھوٹی قسط بھی نہیں مل رہی۔اور کچھ پوچھنے کی پوزیشن میں ہم غریب کہاں لیکن حضور! اتنا توبتائیے کہ ذہن میں کوئی متبادل منصوبہ بھی ہے؟