یہ نالائقوں کا ٹولہ آخر چیف جسٹس آف پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟ سپریم کورٹ میں انتشار ہے تو ہوتا رہے‘ بنیادی بات یہ ہے کہ آئین کا کوئی تقدس ہے یا نہیں؟عمرعطابندیال صاحب کا گناہ کیا ہے‘ صرف یہ کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی اسمبلی ختم ہو جائے تو آئین نئے انتخابات کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ بات حکومت کو ہضم نہیں ہو رہی کیونکہ کسی صورت پنجاب میں حکومت کوانتخابات قبول نہیں۔ اس کے علاوہ آئین میں کوئی راستہ ہے تو بتا دیا جائے۔ لیکن حکومت اور اس کے سہولت کاروں نے جہاں اور زبردستیاں کی ہیں آئین اور قانون کے ساتھ بھی زبردستی کرنا چاہتے ہیں۔ بندیال صاحب یہ ہونے نہیں دے رہے اور حکومت اور سہولت کار سیخ پا ہیں۔ پی ڈی ایم والے بتا دیں قوم کے ساتھ کرنا کیا چاہتے ہیں؟یہ جو سال گزرا ہے تھوڑا نقصان ہوا ہے ملک کا؟ تباہی کے دہانے سے ہم آگے جا چکے ہیں۔ کوئی چیز سنبھل نہیں رہی۔ سیاست میں بحران اور جمود‘ معیشت تباہ‘ دہشت گردی میں اضافہ‘ ہرطرف افراتفری۔ کچھ کرنا ہے تو اپنی کارکردگی بہتر کیجئے لیکن نہیں انہوں نے الیکشن نہیں کرانے اور کوئی کہے کہ بھائی یہ آئینی تقاضا ہے تو اُس سے سینگ اڑا لینے ہیں۔ یہی کچھ ہو رہا ہے۔اب تو دُہائی دینے کا بھی جی نہیں چاہتا۔شاید یہی ہمارے ستاروں میں لکھا تھاکہ جس تجربے کا نام پاکستان ہے اُس کا یہ حال ان نالائقوں کے ہاتھوں ہونا تھا۔
اور سہولت کاروں کو دیکھ لیں‘ ہرچیز میں ٹانگ اڑانی ہے‘ اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنا ہے‘ تاریخ سے کچھ نہیں سیکھنا بس زبردستیاں کرتے جانا ہے۔کتنی بار یہ بات کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کوئی فرشتوں کی حکومت نہ تھی۔ وہ بھی نالائقوں کا ایک ٹولہ تھا لیکن معمول کے مطابق چیزیں تو چل رہی تھیں۔ حالات مثالی نہ تھے لیکن حالات نارمل تھے۔ لیکن جو ہمارے عقلِ کل ہیں اُنہوں نے حالات کو لات مارنی تھی اور ایسی ماری کہ ایک سال میں چوہتر سال کی تباہیوں سے زیادہ تباہی ہو گئی۔کوئی ان سے پوچھنے والا بھی نہیں کہ جسے اب رجیم چینج کہا جارہا ہے وہ آپ نے کیا کیوں؟کہاں ہیں وہ محسنِ قوم باجوہ صاحب ؟ اپنا کام دکھا گئے اور چلتے بنے۔پتا نہیں کہاں مقیم ہیں اور کہاں گالف کھیلتے ہیں۔ ہمارے ساتھ یہی کچھ ہونا ہے‘ اپنی باریاں لگائیں‘ ہاتھ صاف کیے اور چلتے بنے۔ ایسے ایسے سمجھدار کہ ساروں کی جائیدادیں باہر۔یہاں بھی پلاٹوں سمیت بہت کچھ ہے لیکن اصلی سرمایہ کاری کسی باہر کی آماجگاہ میں۔ کسی کے بارے میں سنتے ہیں کہ ان کی رینچ آسٹریلیا میں‘ کسی کی رہائش گاہ کسی اور ملک میں‘ طرح طرح کی باتیں۔ وارے نیارے اُن کے ستیاناس ملک کا۔اتنا برا ملک بھی نہ تھا لیکن جن کے ہاتھوں چڑھا اُن کے ہاتھ ایسے لگے کہ کنگال ہو گیا۔اب شمار ہمارا مسکینوں میں ہوتا ہے‘ کشکول بھی ہمارا بے معنی ہو گیا ہے‘ اس میں کوئی خیرات ڈالنے کیلئے تیار نہیں۔
بہرحال جو وقت گزر رہا ہے اُس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بندیال صاحب ٹھیک کھڑے ہیں اور اُن کا مؤقف آئین اور انصاف پر مبنی ہے‘ کسی کو اچھا لگے یا نہ لگے۔کسی کو چیف جسٹس صاحب کی شکل پسند نہیں تو اور بات ہے۔دیکھنا یہ چاہئے کہ سٹینڈیا مؤقف اپنی ذات کیلئے لے رہے ہیں یا کسی اصول پر کھڑے ہیں؟رجیم چینج آپریشن پورے زور پر تھا تو یہی چیف جسٹس تھے جنہوں نے عدالت رات کو کھولی اورڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ کو ردّ کیا۔ اس اقدام سے ہی پی ٹی آئی گورنمنٹ فارغ ہوئی اور یہ رنگ باز اقتدار میں آئے۔ تب چیف جسٹس صاحب ٹھیک تھے اب غلط ہیں۔ کیونکہ انتخابات بارے ان کا حکم آپ کو ہضم نہیں ہو رہا۔ کیا منطق ہے اور اس ہٹ دھرمی میں جہاں بہت کچھ خراب ہو چکا ہے یہ افلاطون حالات کو مزید خراب کرتے جا رہے ہیں۔ سہولت کار بھی عجیب ہیں‘ کچھ تو دیکھ لیں کہ قوم کو کہاں پہنچا دیا گیا ہے۔
باہر کی دنیا میں کیا کچھ نہیں ہو رہا۔ ایران اور سعودی عرب اپنی پرانی دشمنی بھول رہے ہیں۔ شام کو عرب دنیا میں واپس لایا جا رہا ہے۔ امریکہ کا اثر مشرقِ وسطیٰ میں کم ہو رہا ہے۔ چین اور روس کا اتحاد زیادہ مضبوط ہوا ہے۔ اور ہم ہیں کہ اپنی بنائی ہوئی دلدل میں دھنسے جا رہے ہیں‘ نہ سمجھ نہ عقل نہ ادراک کہ آس پاس کیا ہو رہا ہے۔ حیرانی ہوتی ہے اپنے سہولت کاروں پر۔ اول تو ان کی مداخلت بنتی نہیں تھی‘ اپنے کام سے کام رکھتے لیکن ہمارے ہاں دستور ہی یہی ہے کہ اپنے کام سے کام نہیں رکھنا۔ چلیں مداخلت تو کر دی لیکن لائے کس کو؟ پرانے چلے ہوئے کارتوس‘ جو قوم کی گردن پر چالیس سال کے لگ بھگ بیٹھے ہوئے تھے۔ جنرل ضیا الحق کو گئے ایک زمانہ ہو گیا ہے اور یہ جو لائے گئے ہیں ضیا کی پیداوار ہیں۔ قوم کی جان ہی نہیں چھوڑ رہے۔ اتنا مال بنا چکے ہیں کہ کوئی گننے بیٹھے تو ہار مان جائے۔ آگے ان کی اولادیں آ گئی ہیں لیکن ان کا پیٹ نہیں بھر رہا۔ بس ایسا ہی تماشا ہمارے ہاں چل رہا ہے۔ کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ہماری تاریکی میں کبھی روشنی بھی آئے گی۔
ہاں یاد آیا کہ حکومت کی استدعا ہے کہ انتخابات کیلئے پیسے نہیں۔ کل کے اخبارات میں تھا کہ ہماری مستقل بیمار ایئرلائن پاکستان انٹرنیشنل کو اکنامک کوآرڈی نیشن کمیٹی نے 16 بلین روپے کی امداد فراہم کی ہے۔ اُس کیلئے تو پیسے ہیں الیکشن کیلئے نہیں۔ ویسے ہماری قومی ایئرلائن ہمارے مجموعی حالات کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔ قومی ایئرلائن نے ٹھیک ہونا ہی نہیں ہے۔ اسے جو امراض لاحق ہیں‘ لاعلاج ہیں۔ جو مرضی آپ کر لیں نہ ایئرلائن نے ٹھیک ہونا ہے نہ سٹیل مِل نے نہ پاکستان ریلویز نے۔ اور اب ثابت ہو رہا ہے کہ ملکی مسائل بھی لاعلاج ہیں۔ اس رجیم چینج آپریشن کو دیکھ لیجئے‘ ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن کوئی ترکیب کام نہیں آ رہی۔ جہاں پھنسے ہوئے ہیں مزید پھنسے جا رہے ہیں لیکن کیا رنگ برنگی حکومت اور کیا سہولت کار‘ ایک قدم پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لے رہے۔ ہم فوج میں تھے تو ایک اصطلاح خاصی مقبول ہوا کرتی تھی کہ ناکامی کو تقویت نہیں ملنی چاہئے‘ یعنی ایک اقدام فیل ہو گیا ہے تو اُسے دہرانا بیوقوفی ہے‘ لیکن یہاں صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ سارا تجربہ نہ صرف ناکام ہوا ہے بلکہ تباہ کن ثابت ہو رہا ہے۔ لیکن ڈٹے ہوئے ہیں اسی پر‘ یعنی اس ناکامی کو تقویت دینے پر ہر کوئی لگا ہوا ہے۔ ہماری حرکتیں دیکھ کر یہی سمجھا جائے گا کہ بڑی عقلمند قوم ہے اور کیسے کیسے لیڈر یہاں دریافت ہوئے ہیں‘ ایک سے بڑھ کر ایک۔ عقل کی بات سے تو جیسے ہمیں ازلی دشمنی ہو‘ کرنا وہی ہے جو پرلے درجے کی بیوقوفی کے زمرے میں آئے۔
اور ملاحظہ ہو کہ سکیورٹی صورتحال اور دہشت گردی پر اِن کیمرہ بریفنگ ہو رہی ہے۔ ان عقلمندوں سے کوئی پوچھے تو سہی کہ یہ افغان پالیسی کس کی ایجاد تھی؟ اِس کے اصل محرک عمران خان تھے یا جنرل باجوہ؟ جنرل ضیا کے زمانے سے لے کر آج تک افغان پالیسی ہمارے مہربانوں کی میراث رہی ہے۔ اِس میں کسی اور کو تو وہ گھسنے نہیں دیتے تھے۔ کچھ پوچھنا بنتا ہے تو اِن سے کہ حضور اگر کوئی دہشت گرد یہاں آ گئے تو کیونکر ایسا ہوا اور اِس کے پیچھے کون سی سوچ تھی کہ یہ ملک کیلئے بہتر ہو گا؟ یہ تو چلیں قبائلی علاقوں کی بات ہے کہ یہاں تحریک طالبان پاکستان کے کچھ عناصر کو لایا گیا۔ لیکن بلوچستان میں تو ایسا نہیں ہوا‘ وہاں تو کسی کو نہیں لایا گیا۔ وہاں پھر گڑبڑ کیوں جاری ہے ؟