مملکتِ خداداد ہندوستان دشمنی کا شکار نہ ہوتا تو سوئٹزرلینڈتو نہ بن جاتا لیکن بطورِ قوم ہم بہت سی حماقتوں سے بچ جاتے۔خیال یہ تھا کہ ایک مسلمان پتا نہیں کتنے ہندوؤں کے برابر ہے اور یہی سوچ پاکستان کو 1965ء کے معرکے میں لے گئی۔یہ معرکہ تباہ کن اس لحاظ سے نہ تھا کہ میدانِ جنگ میں ہمیں شکست فاش ہو ئی یا مالی طور پر ہمیں کوئی اور بڑا نقصان ہوا۔ایسا ہرگز نہیں لیکن اس جنگ نے ہماری سوچ بدل دی اور ہمارے قومی وجود پر ہندوستان دشمنی کا خول چڑھا دیا۔جنگ کا سلسلہ شروع ہم سے ہوا لیکن جنگ چھڑ گئی تو ضروری سمجھا گیا کہ تمام الزام بھارت کے سر تھوپ دیا جائے۔اوپر سے میڈم نورجہاں اور نسیم بیگم کے قومی نغموں نے ایسا سماں باندھا کہ حقائق کو پرکھنے کی صلاحیت سے عوام کیاسوچنے سمجھنے والے طبقات بھی محروم ہو گئے۔
ایسی صورتحال میں کہانی ایک ہی ہوتی ہے کہ رات کے اندھیرے میں مذموم ارادے رکھنے والے چالاک دشمن نے حملہ کردیا۔ یہی کہانی بُنی گئی اور سارا بیانیہ چالاک دشمن کی عیاری اور مکاری کے گرد گھومتا رہا اور آج تک گھوم رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جوانوں‘افسروں‘ ایئرفورس کے پائلٹوں اور بحری جہازوں پر مامور افراد نے ہندوستانی افواج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔جوانوں اور افسر وں نے بہادری دکھانی تھی‘ اُنہوں نے ایسا کیا‘حماقت کی داستان رقم کرنے والے تو ایوب خان اور دوسرے چند افراد تھے۔جوانوں نے تو جنگ کا فیصلہ نہیں کیا تھا‘ وہ فیصلہ تو اوپر سے ہوا تھا لیکن جب حماقت ہو گئی تو جنگ کے نتائج قوم کو بھگتنے پڑے۔اُس جنگ نے بطورِ قوم ہماری نفسیات بدل دی اور ہماری ہر پالیسی کا محور ہندوستان دشمنی بن گیا۔حقیقت کو دیکھا اور دنیا کو دیکھا تو اسی عینک سے۔جنگ کی پاداش میں دفاع پر خرچہ ہمارا بڑھنے لگا جس کے نتیجے میں ہماری مسلح افواج تعداد اور مالی وسائل کے اعتبار سے بڑھتی چلی گئیں۔
تقسیمِ ہند کے پس منظر میں ہمارے تعلقات ہندوستان سے اتنے اچھے تو نہ تھے۔کشمیر پر ایک جنگ بھی ہم لڑ چکے تھے اورمسئلہ کشمیر بھی تازہ تازہ تھا لیکن ان عوامل کے باوجود یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کے ساتھ ہمارے تعلقات آج کی نسبت پھر بھی نارمل تھے۔آنا جانا آسان تھا۔ ایک دوسرے کے اخبارات رسائل پڑھنے کو ملتے تھے۔ہندوستانی فلمیں ہمارے سینما گھروں میں چلتی تھیں۔ ہماری جنریشن نے دلیپ کمار‘ راج کپور‘ دیوآنند‘ مدھوبالا اور نرگس کی فلمیں کہیں اور نہیں اپنے سینماؤں میں دیکھیں۔ہندوستانی گانے ہمارے ریڈیوسٹیشنوں پر سنے جاتے تھے۔ انڈین پراپرٹیاں جیسا کہ راولپنڈی میں ہوٹل فلیش مین اور لاہور فلیٹیز کی ملکیت اصل مالکوں کے ہاتھ میں تھی۔نئی دہلی میںپاکستانی سفیر کے گھر کوئی قومی استقبالیہ ہوتا تو ہندوستانی وزیرعظم پنڈت جواہر لال نہرواور کابینہ کے دیگر ارکان وہاں آ جاتے تھے اور اسے اچنبھے کی بات نہیں سمجھا جاتا تھا۔آج کے پاکستانی حیران ہوں گے یہ سُن کر کہ دہلی میں 1955ء کی یوم ریپبلک پریڈ کے مہمانِ خصوصی پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمدتھے۔ کشمیر کا مسئلہ تو چل ہی رہا تھا‘ مخالفانہ بیان بازی بھی ہوتی رہتی تھی لیکن ایک سطح پر روزمرہ کے تعلقات بھی چل رہے تھے۔
جنرل موسیٰ خان فوج کے کمانڈراِن چیف تھے تو ہندوستان کے دورے پر گئے۔دورے کی ڈاکیومنٹری میں نے دیکھی ہے اور دیکھ کر ایک عجیب سی کیفیت محسوس کی۔ بڑے پُرتپاک انداز سے جنرل موسیٰ کو خوش آمدید کہا گیا۔ ایئرپورٹ پر کھڑے جرنیلوں کی لائن سے جب جنرل موسیٰ ہاتھ ملا رہے تھے تو دشمنی کے کہیں آثار نظر نہیں آتے تھے۔آخرجنرل موسیٰ کی عمر کے لوگ اور ہندوستانی ہم منصب ایک ساتھ برٹش انڈین آرمی میں رہے تھے‘ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے۔خوش آمدیدی لائن میں کھڑے کئی انڈین جرنیلوں کو جنرل موسیٰ نے منہ پر تھپکی دی۔ دونوں طرف مسکراہٹیں تھیں۔ اُس زمانے میں صدر ایوب خان اور وزیراعظم نہرو میں ایک دو ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں اور خوشگوارماحول میں ہوئیں۔
کام خراب چین اور ہندوستان کی 1962ء کی جنگ نے کیا جب یہ سوچ پاکستان کے کچھ لوگوں میں پیدا ہوئی کہ جنگ کے دوران ہم بھی کچھ کر لیتے تو کشمیر میں ہم فائدہ حاصل کرسکتے تھے۔یہ بھی تھاکہ اُس زمانے میں ہمیں کچھ امریکی دفاعی سازوسامان مل رہا تھا۔ امریکی ٹینکوں اور ایئرفورس کو مہیا F-86 سیبرجیٹوں کی وجہ سے افواج میں خود اعتمادی پیدا ہوئی۔اس کے ساتھ اس سوچ نے بھی جنم لیاکہ ہم میدانِ جنگ میں ہندوستان سے برتری حاصل کر سکتے ہیں۔ 1965ء کے اوائل میں رن آف کَچھ میں معمولی باتوں پر فوجی جھڑپیں ہوئیں تو ہمارا پلہ بھاری رہا۔اس واقعے نے بھی اس سوچ کو تقویت دی کہ ہم ہندوستان سے پنجہ آزمانی کرسکتے ہیں۔ وزیرخارجہ ذوالفقارعلی بھٹو تھے اور وہ اس سوچ کے پُرزوروکیل تھے کہ وقت کا فائدہ اٹھا کر ہمیں ہندوستان سے دو‘ دو ہاتھ کرنے چاہئیں۔
میرا اپنا خیال ہے کہ صدر ایوب خان 1964ء کے صدارتی معرکے سے نفسیاتی طور پر بری طرح مجروح ہوئے تھے۔جیت تو گئے تھے لیکن وہ بنیادی جمہوریتوں والا سسٹم ہی ایسا تھا جہاں محض چالیس ہزار بی ڈی ممبران مغربی پاکستان میں اور چالیس ہزا رمشرقی پاکستان میں حقِ رائے دہی استعمال کر رہے تھے کہ جو اقتدار میں ہے اُسی نے جیتنا ہے۔ اعدادوشمار سے ہٹ کر عوام کی سوچ تو ظاہر ہو گئی تھی۔ اُس صدارتی مہم میں بھرے جلسے مادرِ ملت فاطمہ جناح کے تھے۔عوامی جھکاؤاُن کی طرف تھا‘ حبیب جالب کی شاعری نے تو کمال ہی کر دیا۔ ووٹنگ کا دن 2جنوری 1965ء تھا۔ شام کو نتائج آئے فیلڈ مارشل صاحب جیت رہے تھے لیکن اُس شام اور اگلی صبح یوں لگا جیسے قوم کی تڑپ اور امنگوں پر کسی نے اداسی کی چادرڈال دی ہو۔ ایسے واقعات اپنا اثر چھوڑتے ہیں اور ایوب خان ویسے بھی کوئی سٹالن یا اتاترک نہ تھے۔مجھے یقین ہے کہ خودساختہ فیلڈ مارشل 1964ء کی صدارتی مہم میں نفسیاتی طور پر اتنے مضمحل نہ ہوتے تو اتنی آسانی سے ذوالفقار علی بھٹوکی باتوں پر کان نہ دھرتے اور نہ ہی 1965ء کی جنگ کا ایڈونچر شروع کرتے۔
یہ انسانی فطرت میں ہے کہ آپ نے کہیں نفسیاتی چوٹ کھائی ہو تواُس کی خفت مٹانے کیلئے انجانے میں آپ کچھ اور کر بیٹھتے ہیں۔کمزوری ایک طرف ہو توآپ مکے کہیں اور لہرانے لگتے ہیں۔میرے پاس کوئی تاریخی دستاویز نہیں ہے‘ یہ میں نے کہیں پڑھا بھی نہیں ہے‘ لیکن شام کی خلوتوں میں بیٹھے جب اُس دور کی طرف خیال جاتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ حبیب جالب کی شاعری میں وہ کاٹ نہ ہوتی اور مادرِملت کے عوامی جلسے اتنے بھرپور نہ ہوتے تو ہمارے فیلڈ مارشل نفسیاتی طور پر اتنے مجروح نہ ہوتے۔لیکن مجروح ہوئے تو اُس امر کو کمپنسیٹ( compensate )یا بیلنس کرنے کیلئے ایک جنگی جرنیل کے روپ میں سامنے آئے۔ وہ ہلاکوخان تو نہ بنے لیکن قوم کے مستقبل کا ستیاناس کر گئے۔فائدے میں رہے توذوالفقار علی بھٹو جو عوامی نظروں میں خواہ مخواہ کے ہیرو بن گئے۔لڑ کوئی اور رہے ہیں‘ سترہ دن سے زیادہ جنگ جاری رکھنے کی سکت قوم میں نہ تھی اورفیلڈمارشل نے اسی میں عافیت سمجھی کہ کوئی آئے اور ہندوستان اور پاکستان میں جنگ بندی کرا دے اور اس سارے ماجرے میں سے ہیروبھٹو صاحب نکل رہے ہیں۔
داستان لمبی ہے جگہ کم۔ بہرحال حالات کا ستم دیکھئے کہ جو عقل ہمیں کوئی اور نہ سمجھا سکا ہماری غربت اور لاچارگی سکھا رہی ہے۔اتنے عرصے بعد ہمارے اوپر کے طبقات میں اب یہ خیال پیدا ہو رہا ہے کہ ہندوستان دشمنی گھاٹے کا سودا رہا ہے۔