لگتا یہ ہے کہ ہم نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ پاکستان کو بخشنا نہیں۔ عمران خان پہ افسوس نہیں ہوا‘ اپنے پہ افسوس ہوا کہ ہم کہاں رہ رہے ہیں اور ملک کا کیا ہو رہا ہے۔ اب تو ہر ایک نے عمران خان کی گرفتاری کی وڈیو دیکھ لی ہو گی کہ کیسے پکڑ کے لے جایا جا رہا ہے ‘ ایک ہاتھ پیچھے سے اُن کے گریبان پر بھی تھا۔ یہ تصویریں ہماری اصلیت بتاتی ہیں کہ ہمارا معاشرہ کتنا مہذب ہے۔ پیچھے سے گریبان پکڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ لیکن ایسا نہ ہوتا تو ہمیں تسلی نہ ہوتی۔ یہاں یہ دستور بن چکا ہے کہ محض گرفتاری کافی نہیں‘ ساتھ بے عزتی بھی ضروری ہے۔ لیکن سمجھنے کی بات ہے کہ ایسی حرکتوں سے بے عزتی کسی شخصِ واحد کی کیا ہونی ہے‘ بے عزتی بطور قوم ہماری ہو جاتی ہے۔
کہنے کو تو آئین زندہ و جاوید ہے لیکن اصل میں آئین کو ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔ جو ہو رہا ہے ذاتی مرضی و منشا کے تحت ہو رہا ہے۔ اقتدار میں جو ہیں‘ اُن کے لیے عمران خان خطرہ بن چکا تھا اور ضروری تھا کہ اُسے راستے سے ہٹایا جائے۔ سپریم کورٹ نے اپنا فرض پورا کر دیا لیکن کس نے یہاں انتخابات کرانے تھے؟ انتخابات ہوتے تو طوفان آ جاتا جس کے سامنے کوئی ٹھہر نہ سکتا۔ ایسے انتخابات کا ڈر کون مول لے سکتا تھا؟ رہ گئے عمران خان تو اُنہیں دبوچنے کی کئی کوششیں کی گئیں لیکن پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ان کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ اب کی بار جو عمران خان اسلام آباد آئے‘ اُن کے وڈیو پیغام سے پتا چلتا تھا کہ اُنہیں گرفتاری کا خدشہ ہے ۔ پیغام میں اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی مجھے ورانٹ دکھائے گا تو میں ساتھ چل دوں گا‘ لیکن اگلے ڈرے ہوئے تھے اور گرفتاری اس انداز سے عمل میں لائی گئی کہ بطور پاکستانی سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ کوئی تو کام ہم ڈھنگ سے کر لیا کریں۔ گرفتاری پُرامن طریقے سے بھی ہو سکتی تھی۔ آخر عمران خان جوڈیشل کمپلیکس کے ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے جہاں شاید اُن کا بائیو میٹرک ہونا تھا۔ اُس کمرے کے شیشوں کو توڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ عمران خان کے وکیل علی گوہر کہتے ہیں کہ جب اہلکار اندر داخل ہوئے تو اُنہوں نے عمران خان پر تشدد بھی کیا۔ یہ سن کر اپنے پہ شرم آتی ہے کہ ہمارے معاشرے کا کتنا بگاڑ ہو چکا ہے۔جاہل پن ہم میں ویسے ہی بہت ہے اور پچھلے ایک سال سے جو کچھ یہاں ہو رہا ہے‘ اوپر کے لوگوں کی ذہنی حالت مزید خراب ہو گئی ہے۔ تبدیلیٔ اقتدار تو ہو گئی لیکن یہ احساس کھائے جا رہا ہے کہ عوامی تائید حاصل نہیں۔ سپریم کورٹ حکم دے چکی ہے کہ اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد پنجاب میں الیکشن ہونے ہیں۔ لیکن کسی کو کیا پروا؟ عدالتی حکم ہے لیکن ہم نے اپنی مرضی کرنی ہے کیونکہ اسی میں ہماری بقا ہے۔ رانا ثنا اللہ نے ٹھیک کہا تھا کہ یا وہ ہے یا ہم اور ایسی بقا کی جنگ میں نہ آئین کوئی معنی رکھتا ہے نہ قانون۔ یہی ہو رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ صرف آئین کی دھجیاں نہیں بکھیری جا رہیں‘ حالات کنٹرول میں نہیں ہیں‘ معاشی طور پر ہم تباہی کے دھانے پر قدم رکھ چکے ہیں اور افق پر کچھ نظر نہیں آ رہا کہ حالات ٹھیک ہوں گے۔ قوم کا ترجمان کیا بننا ہے اپنے دل کی حالت معلوم ہے‘ دل میں دھڑکا لگا ہوا ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ مثالیں ایسی ذہن میں ابھرتی ہیں کہ سر چکرا جاتا ہے۔ یوگوسلاویہ کا نام ذہن میں اٹھتا ہے‘ سری لنکا کی مثال سامنے آتی ہے‘ سوڈان کا نام آتا ہے تود ل ہی دل میں دعا اٹھتی ہے‘ خدا خیر کرے۔ اب سری لنکا کو مثال کے طور پر کیا پیش کیا جائے‘ ہم سری لنکا ہو چکے ہیں‘ بلکہ سری لنکا سے دو قدم آگے ہیں۔ اب حالت ہماری یہ ہو چکی ہے کہ طالبان کا قائم مقام وزیر خارجہ ہمیں نصیحت کرتاہے کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیے جائیں۔ یعنی جن کا بوجھ چالیس سال ہم اٹھاتے رہے اور اُس پر فخر بھی کرتے تھے کہ کیا کمال کررہے ہیں‘ وہ ہمیں اب نصیحت کررہے ہیں۔
لیکن ہم نے کیا کچھ سمجھنا ہے؟ حکمران ٹولہ اپنی موجوں میں مست ہے۔ مالی بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے تمام مقدمات ختم یا بے اثر ہو گئے۔ پر چھوڑیں ان باتوں کو‘ انہیں دہرانے سے اپنا دل ہی خراب کرنا ہے۔ پاکستان کی حالت جو بھی ہو‘ حکمران ٹولے کو اُس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اپنا سارا کچھ باہر ہے‘ یہاں خطرے کی گھنٹیاں بجیں لندن کی راہیں ہمارے لیے کھلی ہیں‘ دبئی میں ہمارے آشیانے ہیں۔ ہم نے تو تاجِ برطانیہ کی تاج پوشی میں جانا ہے۔ ایسے اقدام ہی ہماری ترجیحات میں ہیں‘ باقی قوم روتی ہے تو روتی رہے‘ شاید یہی اس کی قسمت میں لکھا ہے۔ اور یہ جو عمران خان ہے‘ اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے؟ ہم اس سے نمٹ لیں گے۔ نمٹنے کی مہم کا پہلا منظر قوم نے کل دیکھ لیا۔ یہ کہانی ختم نہیں ہوئی‘ جاری ہے۔ اس کے آگے کے مناظر ہم نے دیکھنے ہیں۔ اتنا پتا تھا کہ قوم کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ مزیدکسی ڈرامہ بازی کی متحمل نہ ہو سکتی تھی۔ لیکن ہمیں کون سمجھائے؟ ہم نے وہی کرنا ہے جو مزاجِ یار میں آئے۔ شیکسپیئر کے ڈرامہ ''جولیئس سیزر‘‘ میں جب مارک اینٹنی اپنی مشہور تقریر ادا کرتا ہے اور عوام مشتعل ہوکر تھوڑ پھوڑ پر اتر آتے ہیں تو مارک اینٹنی کہتا ہے کہ گڑبڑ تم اب چل پڑی ہو۔ یہاں بھی گڑبڑ چل پڑی ہے‘ دیکھیں کیا بنتا ہے۔
سادہ لوح لوگ جب آئین اور قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں تو اپنے آپ کو بیوقوف بناتے ہیں۔ پنجاب میں انتخاب ہم دیکھ چکے‘ جس اکتوبر کی امید بیوقوف لگائے بیٹھے ہیں‘ ڈر ہے کہ اُس کا حشر بھی پنجاب کے انتخاب والا ہونا ہے۔ جنرل ضیا الحق مرحوم کیا کہتے تھے؟ کہ انتخابات کی اپنی اہمیت ہے لیکن نتائج مثبت ہونے چاہئیں۔ یہاں ڈر ہی یہی ہے کہ جب بھی انتخابات ہوئے‘ نتائج مثبت نہیں ہوں گے۔ جب تک دلوں میں یہ ڈر قائم رہے گا‘ آئینی باتوں کو بھول جائیے۔ المیہ یہ ہے کہ نکمے ہاتھوں میں قوم کی تقدیر آچکی ہے اور ہم تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ لیکن ایسی قوتوں نے بھی سر اٹھایا ہے جو سرگرمِ عمل ہیں۔ ان قوتوں کے ارادے اچھے نہیں‘ پاکستان کی سالمیت پر حملے ہو رہے ہیں۔ یہ خطرے کی گھنٹی ہے لیکن لگتا یوں ہے کہ ہم کچھ سمجھنے سے قاصر ہیں۔
کتنے مقدمات عمران خان پر قائم کیے گئے‘ لیکن گرفتاری عمل میں لانے کے لیے ایک نیا نیب کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ یعنی تیاری مکمل تھی کہ عمران خان کو ہم پہلے تو نہ دبوچ سکے لیکن اب کی بار جو اسلام آباد آئے گا تو سب کچھ ایک خاص طریقے سے کیا جائے گا۔ اس میں حکام کامیاب رہے لیکن کہانی عمران خان کی ذات تک محدود نہیں۔ داؤ پر عمران خان کا مستقبل نہیں‘ ملک کا مستقبل ہے۔ کیا اس گرفتاری سے ملک میں استحکام آ جائے گا؟ معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے؟ قومی کشکول میں خیرات کچھ گرنے لگے گی؟ اقوامِ عالم میں پاکستان کی بے توقیری کا جو عمل جاری ہے‘ وہ تھم جائے گا؟ دنیا کیا ہمیں عزت کی نگاہوں سے دیکھنے لگے گی؟ بلوچستان میں امن قائم ہو جائے گا؟ ٹی ٹی پی کے حملے تھم جائیں گے؟ کتنے سوال لیکن کوئی جواب نہیں۔ ہم نے ایک شخص کو دبوچنا تھا‘ وہ کر لیا۔ باقی کیا ہوتا ہے‘ دیکھا جائے گا۔