جن نظریات کی حامل یہاں مملکت بن گئی ہے‘ ایسی مملکت آپ کو ہندوستان کی پوری مسلم تاریخ میں نہیں ملے گی۔ قطب الدین ایبک کے بعد جو سلاطین کی سلطنت بنی نہ اُس میں ایسی اقدار پائی جاتی تھیں‘ نہ سیدوں کی سلطنت میں‘ نہ لودھیوں کی بادشاہت میں اور مغلوں کا تو اسلوب ہی بالکل مختلف تھا۔ سارے کے سارے مسلمان بادشاہ یا سلطان تھے لیکن آٹھ سو سالہ تاریخ میں ایسی سلطنت نہ بنی جس کا شائبہ آپ کو ہماری عجیب و غریب مملکت میں ملے۔ باہر سے آئے تھے اور راج اُنہوں نے یہاں کی ہندو آبادی پر کیا‘ تلوار اُن کے ہاتھ میں تھی‘ طاقت اُن کے پاس تھی‘ حکم اُن کا چلتا تھا لیکن ضروریاتِ حکمرانی کو سامنے رکھتے ہوئے اُنہوں نے ایسی تنگ نظر اور تنگ دل روشیں نہ اپنائیں جن سے محکوم آبادی بیزار ہو جائے یا بغاوت پر اُٹھ کھڑی ہو۔ آٹھ سو سال تک اُن مسلمان حکمرانوں نے ایک کامیاب طرزِ حکمرانی اختیار کی۔ یہ جو نظریات کے ڈھول ہم پچھلے 75سال سے بجا رہے ہیں‘ اس کی مثالیں اُن آٹھ سو سالوں میں آپ کو نہ ملیں گی۔
اور اگرکسی حاکم کی یہ خواہش رہی کہ ہندو آبادی مسلمان ہو جائے‘ یہ کوشش کسی نے نہ کی کہ مسلمانوں کو دوبارہ اور سہ بارہ مسلمان بنایا جائے جو کہ ہماری مملکت کا خاصا پچھلی دہائیوں سے رہا ہے۔ حکمرانی ہمارے حاکموں سے ہوئی نہیں لیکن ہمیں مسلمان ہی بناتے رہے۔ یہ بھی سمجھنا شاید ضروری ہو کہ جو مخصوص قوانین ہماری مملکت میں نافذ ہیں‘ ان کی مثال بھی آٹھ سو سالہ مسلم تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس درخشاں تاریخ میں آپ کو کوئی ضیاالحق نہیں ملے گا‘ ایک مثال بھی نہیں دی جا سکتی کہ دیکھو چودھویں یا پندرہویں صدی میں یہ ضیا الحق نما کوئی حاکم تھا۔ حدود آرڈی نینس کے تحت کوتوالِ شہر مسلمانوں یا ہندوؤں کو اندر نہیں کیا کرتا تھا۔ فرقہ وارانہ فسادات کا کوئی رواج نہ تھا۔ اور کم از کم مسجدوں یا امام بارگاہوں پر مسلمان حملہ نہ کرتے تھے۔ نظریات کے نام پر یہ کیسی مملکت بن گئی ہے جس میں ہر تعصب روا رکھا جائے اور جس میں ایک ہی دین کے علم بردار ایک دوسرے کی جان کے پیچھے پڑے ہوں۔ ہندوستان کی پوری آٹھ سو سالہ مسلم تاریخ میں طالبان قسم کے نظریات رکھنے والی تحریک نہیں ملے گی۔ مسلمان حکمرانی کے تقاضے ایسے تھے کہ تنگ نظری سے کام نہ چل سکتا تھا۔
اور پھر اُس تاریخ کے نتیجے میں جو تہذیب پیدا ہوئی‘ اُس میں کیا حسن اور نکھار تھا۔ جسے ہم گنگا جمنا تہذیب کہتے ہیں اور جس کا گہوارہ دہلی اور لکھنؤ تھے‘ اُس کی تو جھلک دُور دُور سے ہماری مملکت میں نہیں ملتی۔ ملاحظہ کیجئے حضرت جوش ملیح آبادی اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب میں ہندو تہوار ہولی کے بارے میں کیا لکھتے ہیں: ''یادش بخیر‘ ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ ہولی دیوالی‘ فقط ہندوؤں ہی کے نہیں‘ ہمارے بھی تہوار تھے۔ ہولی کھیلنے کا بہت پہلے سے اہتمام کیا جاتا تھا‘ ہر سال نئی پچکاریاں بنوائی جاتی تھیں‘ بڑی دیگوں میں رنگ بھرا جاتا تھا اور ایسی پچکاریاں چلتی تھیں کہ ہم سب کے کپڑے شرابور اور گھر کے تمام دروبام رنگین ہو جایا کرتے تھے‘‘۔
مزید لکھتے ہیں ''ہولی کھیلنے کی ابتدا یوں ہوتی تھی کہ ہماری رعایا میں سے‘ دس بیس‘ اونچے طبقے کی ہندو عورتیں‘ صبح نو دس بجے‘ عبیرگلال کے جھَل جھَل تھال‘ سروں پر اٹھائے‘ ہمارے گھر میں گاتی ہوئی آتی تھیں۔ میری دادی اور میری اماں کے ماتھوں پر رنگین ٹیکا لگا کر‘ ان کے دوپٹوں کے پلوؤں پر رنگ چھڑک کر‘ ہماری انگنائی میں‘ حلقہ باندھ کر گانا شروع کر دیا کرتی تھیں‘‘۔ اور بھی لکھتے ہیں لیکن یہاں مزید بیان کروں تو آپ سمجھیں گے کہ حضرتِ جوش کی نہیں بلکہ کسی ہندو کی تحریر ہے۔
دس سال تک حضرتِ جوش نے حیدرآباد دکن میں نظام دکن کی سرکار کی ملازمت کی۔ آئیے اُن کی زبانی سنتے ہیں حیدر آباد کا تب ماحول کیا تھا ''ارزانی اور اُس پر دولت کی فراوانی... ہر طرف چہل پہل تھی۔ امرا کے دروازوں پر صبح شام نوبت بجا کرتی تھی‘ آئے دن جلسے‘ مجرے‘ دعوتیں اور مشاعرے ہوتے‘ متوسطین تک غرقِ نشاط رہا کرتے تھے... وہاں کا علمی و ادبی ماحول‘ مجلسی ابھار اور تہذیبی نکھار۔ وہاں کی رامش و رنگ میں ڈوبی شامیں‘ یارانِ دلنشیں کی ترنگیں‘ باغِ عامہ کی لچکتی ڈالیاں‘ وہاں کے میلے ٹھیلے‘ پریوں کے ریلے‘ ہر چہرے پر رونق‘ ہر گوشے میں ہُو حق‘ بجتی گلیاں‘ تھرکتی رنگ رلیاں‘ ساحلوں پر راتیں اور وہ خیمہ ہائے جشن کی سنہری قناتیں‘‘۔ اعتدال سے کام لیا ہے‘ کچھ چیزیں کاٹ دی ہیں کیوں کہ مفصل تحریر لکھی جائے تو ہمارے نازک مزاجوں پر بھاری اترے۔
جو اَودھ اور لکھنؤ کی تہذیب تھی جسے‘ جیسا عرض کیا‘ گنگا جمنا تہذیب کہا کرتے تھے‘ ایسی ہی تھی۔ چودھراہٹ اور حاکمیت مسلمانوں کی تھی لیکن اُس تہذیب کا امتیاز کشادہ دلی تھا۔ اسی لیے حیرانی کی انتہا نہیں رہتی کہ جب الگ مملکت بننے چلی تو اُس میں بتدریج اتنی تنگ نظری اور دقیانوسی کیسے آتی گئی۔ جس لاہور کے مکین علامہ محمد اقبال تھے‘ کیسا کشادہ دل شہر تھا۔ اکثریت مسلمانوں کی تھی لیکن دوسرے عقائد کے لوگ بھی بھاری تعداد میں اسی شہر کی گلیوں اور محلوں میں رہتے تھے۔ بہت عرصے تک سیاست اکٹھی چلی‘ آپس میں میل جول روا رکھا جاتا تھا‘ لاہور میں کلبوں کی کوئی کمی نہ تھی‘ شام ڈھلے ان کلبوں میں کسی کے آنے پر پابندی نہ ہوتی تھی۔ جنہیں اینگلو انڈین کہا جاتا ہے وہ خاصی تعداد میں لاہور کے مکین تھے‘ اُن کا اپنا کلچر تھا جس کی وجہ سے شہر کی رونق میں ایک نیا رنگ ابھرتا تھا۔ بابائے قوم کے شہر کراچی کی اپنی ایک رونق تھی۔ پارسی آبادی خاصی تھی وہاں پر‘ مسلمان اور ہندو ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ شہر کا ماحول کھلا کھلا تھا‘ تنگ نظری کہیں دور سے نظر نہیں آتی تھی۔
ہندوستان کا بٹوارا ہوا‘ اچھا ہوا‘ ایک نئی مملکت بن گئی‘ خوب تر ہوا‘ لیکن کس حکیم کا یہ درس تھا کہ ہزار سالہ مسلمان تاریخ و تمدن کو ایک طرف رکھ کر ایک تنگ نظر معاشرہ تشکیل دیا جائے؟ نئی مملکت تو ایسی ہونی چاہیے تھی کہ اکبرِ اعظم کی سلطنت کی یاد تازہ ہو جاتی۔ گنگا جمنا تہذیب پیچھے رہ جاتی۔ قرۃ العین حیدر پاکستان چھوڑ کر ہندوستان جانے پر مجبور نہ ہوتیں۔ ساحر لدھیانوی یہیں کے ہو جاتے۔ استاد بڑے غلام علی خان کے گانوں کی گونج یہاں پر ہی اٹھتی۔ تہذیبی زندگی یہاں کی ایسی ہوتی کہ نہ صرف عظیم محمد رفیع اور دلیپ کمار جیسے فنکار پاکستان کو اپنا گھر بناتے بلکہ ہندو عقائد رکھنے والے فنکار بھی سمجھتے کہ اُن کیلئے پاکستان میں مواقع زیادہ ہیں۔ ہندوستان کے باسی ہماری طرف رشک بھری نظروں سے دیکھتے۔ یہاں کی یونیورسٹیاں اور کالج وہاں سے بہتر ہوتے۔ یہاں کا ماحول وہاں سے بہتر ہوتا۔ حضرت جوش ملیح آبادی حیدرآباد دکن کی یادیں بھول جاتے۔ لتا منگیشکر یہاں کنسرٹ کرنے آتیں۔ ثریا جمال شیخ کے نغموں کی صدا یہاں سنی جاتی۔ لاہور ممبئی سے زیادہ بڑا فلمی مرکز بن جاتا۔
لیکن یہاں تو سب کچھ الٹ ہوا‘ کون سی حماقت تھی جس میں ہم نے ہاتھ نہ ڈالا۔ مغربی دفاعی معاہدوں میں خواہ مخواہ کا جانا‘ افغانستان میں جہاد کے نام پر جو کچھ ہوتا رہا‘ بیرونی طاقتوں کا کاسہ لیس بن جانا‘ گنگاجمنا تہذیب کہاں اور یہ دقیا نوسی کی باتیں کہاں۔ اب بھی وقت ہے کچھ ٹھیک کر لیں۔ یہاں گھٹن بہت ہے‘ اسے کچھ کم کریں۔ ذہنوں پر تالے لگے ہوئے ہیں‘ انہیں تو کھولنے کی کوشش کریں۔ تاریخ کا صحیح مطالعہ کریں اور فضول کی افسانہ نگاری سے پرہیز کریں۔