"AYA" (space) message & send to 7575

کیسے الیکشن‘ کون سے الیکشن؟

اپنا منہ آئینے میں دیکھ لیا ہے‘ اپنی کارکردگی کا اندازہ لگ چکا ہوگا‘ عوام کا موڈ بھی دیکھ لیا ہو گا۔ ایسے میں کس نے الیکشن کرانے ہیں‘ کون سے الیکشن ہو سکتے ہیں؟ یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ ٹمپریچر ہر طرف بڑھا ہوا ‘چڑھا ہوا ہے۔ عوام کے صبرکا پیمانہ لبریز ہونا تو اب محاورہ رہ گیا ہے‘ حالات اس سے بہت دور جا چکے ہیں۔ الیکشن کی تاریخ تو آئے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے۔
بڑے امتحانوں سے ملک گزرا ہے‘ شاید امتحانوں کے لیے ہی معرضِ وجود میں آیا تھا۔ لیکن قوم کی درگت جو اِن پچھلے پندرہ‘ سولہ ماہ میں بنی ہے اُس کی مثال نہیں ملتی۔ حکمرانی کے نکمے پن سے یہ قوم بخوبی آشنا تھی لیکن جو جوہر اس دور میں دیکھنے کو ملے وہ منفرد مقام رکھتے ہیں۔ لگتا تو یوں ہے کہ کسی چیز کا بدلہ قوم سے لیا گیا ہے لیکن کس چیز کا بدلہ؟ خطا کار قوم ہے‘ گناہگاری کا الزام اس پر بآسانی لگ سکتا ہے‘ لیکن ایسا بھی کیا ہوا‘ ایسا اس قوم نے کیا کیا کہ اس کے ساتھ یہ کچھ کیا جارہا ہے؟ لہٰذا وہی سوال بنتا ہے‘ کیسے الیکشن‘ کون سے الیکشن؟
مانا کہ ڈنڈے سوٹے کے ماحول میں بہت کچھ ہو سکتا ہے‘ بہت سے کارنامے سرانجام دیے جا سکتے ہیں لیکن اب تو بات کہیں آگے جا چکی ہے۔ مہنگائی کا وہ عالم ہے کہ دعوتِ بغاوت سے کم نہیں۔ بجلی کا بِل ہاتھ میں آئے تو ہر چیز اڑانے کا دل چاہتا ہے۔ یہاں کی ایک کہانی بنی ہوئی تھی کہ بھوکا کوئی نہیں مرتا۔ اب اس کہانی کی حیثیت اک کہانی کی سی رہ گئی ہے۔ اب ایک آبادی کا بہت بڑا طبقہ ہے جو بھوک تک پہنچ چکا ہے لیکن آفرین ہے ہمارے سربراہوں پر کہ حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے بھی اپنی مستیوں میں مست ہیں۔ سرگرمیاں ہوتیں تو سرگرمی کا لفظ موزوں لگتا لیکن جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ سرمستیاں ہیں۔ حالات تو بے قابو ہیں لیکن کسی چیز پر بھی گرفت نہیں۔ غالب کا کیا شعر ہے:
رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
مملکتِ خداداد کی حالت یہ ہے‘ بپھرے گھوڑے کی مانند حالات بے قابو ہیں‘ نہ ہاتھ کسی کام کے نہ پاؤں کسی چیز پر۔ حالت یہ ہو چکی ہے کہ جسے دیکھو ہمارے حالات کا موازنہ ہندوستان سے کررہا ہے۔ اُن کی مالی پوزیشن کیا ہے‘ ہمارے کشکول پر کیا گزررہی ہے۔ وہ چاند کو پہنچ چکے ہیں‘ ہم کہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ کبھی نہ سوچا تھا کہ ایسا بھی ہوگا۔ 71ء کی جنگ میں وردی میں تھا۔ جنگ ہار چکے تھے‘ سانحۂ ڈھاکہ ہو چکا تھا لیکن پھر بھی عوام ہمیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ آنکھوں میں غم تھا غصہ نہ تھا‘ لوگ کہتے تھے ان سے زیادتی ہوئی ہے۔ ہمیں دیکھ کے کہتے تھے کمزوری ان کی نہ تھی‘ ان کے بڑوں کی تھی۔ لیکن یہ کوئی نہ کہتا تھا کہ ہندوستان جیت گیا ہے۔ جنگ ہم ہار چکے تھے لیکن دلوں میں شکست نام کی چیز نہیں تھی۔ آج دیکھئے قومی مورال کی کیفیت کیا ہے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے دل خوش تو نہیں‘ خون کے آنسو رو رہا ہے لیکن پتا نہیں کن ہاتھوں میں قوم کی تقدیر جا چکی ہے۔ آج ہماری معیشت 1971ء کی معیشت سے بڑی ہے۔ آبادی بہت ہی زیادہ ہے۔ پھولے نہیں سماتے تھے یہ کہتے ہوئے کہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں۔ لیکن نفسیاتی اعتبار سے قوم کی حالت آج اچھی نہیں لگتی۔ کس چیز پر فخر کریں؟ ذہن پر زور دیجئے ناز کرنے کی چیز نہیں ملے گی۔ ایک وہ نیزہ باز ارشد ندیم ہی رہ جاتا ہے‘ اُس ایک شخص نے ہمیں کچھ فخر کرنے کو دیا ہے‘ باقی تو پورا قومی منظر چھان لیں تو کہیں رونا ہے کہیں سینہ کوبی۔
اس صورتحال سے نکلنا کیسے ہے؟ کوئی بات سمجھ نہیں آتی۔ جس شاخ پر نظر جائے اُلونہیں بیٹھے ہیں۔ یہ جو نون لیگ والے ہیں ان کے کرتب دیکھے؟ طشتری پر ان کو اقتدار ملا‘ خوب مزے کیے۔ قوم لٹ رہی تھی ان کے شادیانے ختم نہیں ہوتے تھے کیونکہ اس عرصے میں انہوں نے اپنے تمام معاملات سلجھا لیے۔ کرپشن کے لمبے لمبے مقدمات‘ تمام ختم۔ گواہان غائب یا منکر۔ ہر مقدمے میں بریت‘ اب تو یاد بھی نہیں رہا کون کون سے مقدمات تھے۔ وزارتِ عظمیٰ کا وقت ختم ہوا تو سیدھا لندن کی اُڑان جہاں بھائی صاحب پہلے ہی مقیم ہیں۔ لندن کے مہنگے ترین علاقے میں قیام گاہیں‘ لمبی لمبی گاڑیاں‘ نہ ختم ہونے والی دولت۔ یہ ہیں قوم کے مسیحا اور دخترِ انقلاب مریم نواز فرماتی ہیں کہ نواز شریف آئیں گے تو بجلی کے بِل کم ہوں گے۔ انسان ہنسے یا سر پکڑے؟
یہ دھرتی انقلاب کی دھرتی نہیں‘ ہم لوگوں کا مزاج اور ہے۔ جسے ہم آزادی کہتے ہیں وہ بھی انقلاب کے ذریعے حاصل نہیں ہوئی تھی۔ گفت وشنید چلتی رہی تھی‘ پریس کانفرنسیں منعقد کی جاتی تھیں‘ قراردادیں پڑھی جاتی تھیں۔ انگریز سامراج سے خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوتی تھی اور آخرکار برطانوی پارلیمنٹ کے ایک قانون کے ذریعے ہندوستان کو آزادی ملی اور پاکستان ایک علیحدہ ملک کی حیثیت سے معرضِ وجود میں آیا۔ یہاں جو کچھ ہوگا پرچی اور بیلٹ بکس کے ذریعے ہوگا‘ لیکن یاد رہے کہ جب عوام کو پرچی استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے تو طوفان برپا ہو جاتے ہیں۔ آج کل کے حالا ت کے پیشِ نظر اسی لیے یہ خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا کیونکہ دھڑکتے دلوں میں زمین ہل جانے کا اندیشہ ہے۔ بجلی کے بلوں میں افاقہ ہو ہی نہیں سکتا‘ پٹرول کی قیمتیں گِر نہیں سکتیں‘ نااہل حکمران راتوں رات اکبرِاعظم کی بصیرت حاصل نہیں کر سکتے۔ چھوٹے ذہنوں کے مالک چھوٹے ہی رہیں گے‘ نااہل ہاتھوں میں حکمرانی کا ہنر ایک دم پیدا نہیں ہوگا۔ پھر خود ہی فیصلہ کیجئے انتخابات کی نوید کہاں سے آئے گی؟ انتخابات کا مطلب ہے عوام سے رجوع کرنا‘ عوام کی طرف جانا۔ کس میں ہمت ہے کہ موجودہ حالات میں یہ خطرناک راستہ اختیار کرے؟
اوپر انقلاب کا ذکر آیا تھا۔ تشدد کا راستہ ہمارے دو مغربی صوبوں میں دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے ڈھونڈا جا رہا ہے۔ ان دہشت گرد عناصر کے عزائم اور ہیں‘ وہ عزائم کسی آئین کے کتابچے میں بند نہیں کیے جا سکتے۔ اُن کی بات پھر نہ کی جائے کیونکہ وہ کوئی اور راستہ ہے اور ہماری عمومی سیاست مختلف ڈگر پر چلتی ہے۔ بہرحال دہشت گردی کا مقابلہ بھی مضبوط سیاست ہی کر سکتی ہے اور قومی سیاست اس وقت بکھری پڑی ہے۔ مضبوطی کہاں سے آئے گی؟ ایک مقابلہ یا چیلنج ہو تو ہم کہیں لیکن قومی حالت یہاں تک پہنچی ہے کہ ہر طرف مقابلے ہیں۔ چھوٹے ذہنوں کا بھی ذکر ہو چکا ہے‘ یہ بھی ہمارا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ موجودہ حالات میں جو سوچ درکار ہونی چاہیے وہ ناپید ہے۔ مسائل تو ہیں ہی لیکن قوم نااہلی کے نرغے میں بھی پھنسی ہوئی ہے۔
پھر خدا خیر ہی کرے‘ ہم سے تو کچھ ہو نہیں رہا۔ ہر آنے والے دن مسائل کی سنگینی بڑھ رہی ہے اور ہماری اجتماعی نااہلی عیاں ہو رہی ہے۔ لیکن پھر سیلوٹ جاتا ہے قومی مداریوں کو جنہوں نے ایسے ہاتھ صاف کیے ہیں اور قوم کی حالت دیکھ کر یقینا ہنستے ہوں گے کہ کیا بیوقوف عوام ہمارے ہاتھ آئی ہے۔ یہ دو خاندانی بادشاہتیں جو بدقسمت قوم پچھلے پینتالیس سالوں سے بھگت رہی ہے‘ اس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔ جب ان کے ادوارِ حکمرانی شروع ہوئے تھے بیشتر پاکستان کی آبادی پیدا ہی نہیں ہوئی تھی۔ بوڑھے مرکھپ گئے‘ بچے جوان ہو گئے‘ جوان بزرگی کی طرف چل پڑے لیکن یہ دو سیاسی و کمرشل بادشاہتیں قائم و دائم ہیں۔ ایک مہین سی کوشش ہوئی تھی ان کے زور کو توڑنے کیلئے لیکن موقع ملتے ہی اُس کوشش کو ایسا ختم کیا کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں