اب تو یقین ہونا چاہیے کہ پاکستان کی قومی صنعت سیاسی انجینئرنگ ہے۔ اور کچھ ہو نہ ہو سیاسی انجینئرنگ کے پہیے چلتے رہتے ہیں۔ ایک بار پھر تکیہ متعدد بار چلے ہوئے کارتوس پر کیا جا رہا ہے۔ عدالتی آسانیاں پیدا کی گئی ہیں‘ جس ضمانت کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں‘ وہ انہیں باآسانی مل گئی ہے۔ سرکاری آسانیاں بھی پیدا کی جا رہی ہیں۔ میں نے خبر پڑھی تو یقین نہ آیا کہ میاں نواز شریف کو بذریعہ ہیلی کاپٹر لاہور ایئر پورٹ سے شاہی قلعہ لایا جائے گا اور وہاں وہ کار پر سوار ہوکر مینارِ پاکستان کی جلسہ گاہ میں تشریف لے جائیں گے۔ شہری ہوا بازی تنظیم نے اس بات کی اجازت دے دی ہے کہ سیسنا جہازوں کے ذریعے لاہور شہر پر گلاب کی پتیاں نچھاور کی جائیں۔ آسانیاں ہوں تو ایسی ہوں۔ یقینا میاں صاحب مکمل طور پر روبہ صحت ہو گئے ہیں اور چار سال پر محیط ان کا لندن میں علاج مکمل طور پر کامیاب رہا ہے۔
سوال البتہ یہ بنتا ہے کہ استعمال شدہ اسلحہ پر کیوں انحصارکیا جا رہا ہے؟ وہ اس لیے کہ اکابرینِ ملت‘ جنہیں آپ ہمارے کرتا دھرتا بھی کہہ سکتے ہیں‘ کے پاس کوئی اور آپشن نہیں۔ فیصلہ ساز میاں صاحب کے عشق میں نہیں مارے جا رہے بلکہ اڈیالہ جیل کے قیدی سے گھبراہٹ کا یہ عالم ہے کہ ماضی کے ناکام تجربوں پر انحصارکیا جا رہا ہے۔ مسئلہ بہرحال عوام کا ہے کہ ان کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ ایک ہی طرف جھکاؤ ہے‘ سرکاری باتوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ عوام کا موڈ ایسا بن چکا ہے کہ نیم آزادانہ انتخاب پر بھی یقین رکھنا محال ہو گیا ہے۔ سرکاری دانشور بھی جان چکے ہیں کہ آزادانہ انتخاب کی غلطی کی گئی تو پِٹ کے رہ جائیں گے۔ سرکار کی طرف جھکاؤ رکھنے والے مہروں کی ایسی پٹائی ہو گی کہ تاریخ دان دیکھتے رہ جائیں گے۔ اسی لیے ایسے انتخابات کا خطرہ مول نہیں لیا جا رہا جن میں تمام فریقین کو برابر کا موقع ملے۔ ایک جماعت کے ساتھ جو رویہ رکھا جا رہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے‘ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی ایسی باتوں کے حوالے سے تفصیل میں جایا جائے تو بہتوں کے موڈ خراب ہونے لگتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی میاں نواز شریف کی متعدد بار آزمائی اور چلی ہوئی توپ کو تیل اور گریس لگا کر پھر سے میدان میں لایا جا رہا ہے۔
وقتی طور پہ تو مقصد یہ لگتا ہے کہ میاں صاحب کو عوامی توجہ کا مرکز بنایا جائے تاکہ عوام کا دھیان کسی اور طرف مرکوز ہو سکے۔ کیا اس میں ہمارے کرتا دھرتا کامیاب ہو سکتے ہیں؟ شاید سمجھا نہیں جا رہا کہ وقت بدل چکا ہے‘ حالات وہ نہیں رہے جب میاں صاحب پنجاب کے بلاشرکتِ غیرے چیمپئن ہوا کرتے تھے۔ عوام‘ خاص کر نوجوانوں کا موڈ ایسا بن چکا ہے کہ پرانے چہرے دیکھتے ہی طرح طرح کی صلواتیں ان کے لبوں پر آجاتی ہیں۔ ٹک ٹاک ایسی بنتی ہیں کہ ہنسی رکتی نہیں۔ سولہ‘ اٹھارہ ماہ تو میاں شہبازشریف کا تجربہ کیا گیا لیکن وہ کسی کھاتے میں نہ رہا۔ شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے تو ملک کا وہ حال کیا کہ اس کی نظیر پاکستانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ شہباز شریف کی مزاحیہ کارکردگی کا یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ ان میں وہ عوامی ٹچ نہیں جو بڑے میاں صاحب کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ اب نیا تجربہ کیا جا رہا ہے کہ قوم عوامی ٹچ دیکھے اور اس کے مزے چکھے۔ میاں صاحب کے قصیدہ گو بھول جاتے ہیں کہ میاں صاحب جب بھی اقتدار میں آئے آدھا وقت ان کا بیرونی دوروں پر لگ جاتا تھا۔ یوں کہنا چاہیے کہ دنیا کے سیر سپاٹے کا انہیں خاصا چسکا تھا اور کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے کہ باہر کا دورہ نہ کریں۔ اپنی پچھلی وزارتِ عظمیٰ میں انہوں نے تقریباً 120 بیرونی دورے کیے جن میں 22تو صرف لندن کے تھے۔ کہیں جانا ہو‘ کوشش یہی ہوتی تھی کہ براستہ لندن جائیں۔ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کیونکہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی صورت میں وہاں ان کی ایک اعلیٰ قسم کی رہائش گاہ ہے اور لندن میں گھومنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔
حکومت انہوں نے اسحاق ڈار پر چھوڑی ہوئی تھی اور جتنے وہ ذہن و فطین ہیں‘ پوری قوم جانتی ہے۔ تو پھرکیا یہ سمجھا جائے کہ جو انجینئرنگ شروع کی گئی ہے اور جو آسانیاں محترم میاں صاحب کیلئے پیدا کی جا رہی ہیں‘ ان کا مقصد قو م کو زبردستی وہی ناٹک دکھانا ہے جسے قوم بار بار دیکھ چکی ہے؟ کیا کہہ سکتے ہیں‘ ہمارے اکابرینِ گرامی اپنا ہی مزاج رکھتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جو ان کے من میں آئے۔ پہلے جو انجینئرنگ کے کرشمات قوم دیکھ چکی ہے قوم سے پوچھ کر تو نہیں کیے گئے تھے۔ اب بھی اپنی مرضی کا تجربہ کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا کیا یہی سمجھنا چاہیے کہ میاں صاحب کی پھر سے لاٹری نکل رہی ہے؟ لیکن یہ بات نہ بھولی جائے کہ اب کی بار لاٹری اڈیالہ جیل کے مکینوں کی وجہ سے نکل رہی ہے۔ سیاسی منظر نامے پر جو گھبراہٹ طاری ہے اس کا فائدہ میاں صاحب کو پہنچ رہا ہے۔ البتہ دیکھنا یہ بھی ہے کہ جو توقعات پرانی توپوں سے باندھی جا رہی ہیں کیا وہ پوری ہو سکیں گی؟ بات تو تب بنتی کہ میاں صاحب کی آمد کاا علان ہوتا اور اہلِ لاہور ان کے استقبال کیلئے بغیر کسی امداد کے دوڑ پڑتے۔ (ن) لیگی قصیدہ گو بھی شاید یہ بات مان جائیں کہ ایسی کیفیت دیکھنے میں نہیں آرہی۔ ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے کہ مینارِ پاکستان پر حاضری معقول ہو۔ لیگی بینڈ ماسٹروں نے پہلے سے ہی کہنا شروع کردیا ہے کہ مینارِ پاکستان پر حاضری تاریخی نوعیت کی ہوگی۔
چلیں‘ جلسہ جیسا بھی رہے‘ پھر آگے کو کیا ہوگا؟ انتخابات کا مرحلہ تو تب ہی خوش اسلوبی سے عبور کیا جا سکتا ہے اگر دوسرے فریق کے ہاتھ پاؤں ایسے ہی بندھے رہیں جیسا کہ اب ہیں۔ اس پالیسی میں تھوڑی سی بھی نرمی ہوئی‘ اگر ان کے امیدواروں کے ہر حلقے میں کاغذاتِ نامزدگی داخل ہوتے ہیں تو پھر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ پھینٹی کس نوعیت کی ہو اورکس انداز سے پڑے۔ من پسند نتائج کی اول و آخری شرط یہ ہے کہ دوسرے فریق کے ہاتھ پاؤں بندھے رہیں۔ اب امیدواروں کے نام کیا لینا‘ نام لیے جاتے ہیں تو موڈ خراب ہو جاتا ہے۔ کوٹ لکھپت کے مکینوں کا نام لینے سے طوفان کھڑا ہو جاتا ہے۔ حساسیت اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ بات کہاں سے شروع کی جائے اور کہاں ختم ہو۔ غزہ کی پٹی میں شاید اتنے نوگو ایریا نہ ہوں جتنے ہمارے ہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔
یہی کیفیت ہمیں بتاتی ہے کہ میاں صاحب اور ان کی جماعت کو آگے مشکلات کیا ہونی ہیں۔ تھپکی تو مل گئی‘ اشیرباد ہو گئی‘ آسانیاں پیدا کر دی گئیں‘ انصاف کے راستے صاف ہو گئے لیکن بڑا اور بنیادی مسئلہ تو یہ ہے کہ کمبخت عوام کا کیا جائے۔ عوام کا موڈ بہت ہی بگڑ چکا ہے اور اب تک اس صورتحال کا خاطر خواہ علاج نظر نہیں آرہا۔ یقین سے بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ من پسند نتائج حاصل کرنے کیلئے زیادہ انحصار ووٹ دینے والوں کے بجائے ووٹ گننے والوں پر کرنا پڑے گا۔ ایسی کوئی ترکیب ہی کام آسکتی ہے لیکن وہ بھی اس شرط پر کہ دوسری طرف سے میدان عملاً خالی ہو۔ یعنی کبڈی کا میدان سجنا تو ہے لیکن مثبت نتائج کیلئے میدان میں ٹیم ایک ہی ہو جو ڈنٹ بیٹھکیں کر رہی ہو اور ہوا میں ہاتھ لہرا کر نعرے لگا رہی ہو۔
جس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسری جماعتیں‘ جو سرکاری اشیرباد رکھتی ہیں‘ میدان میں نہ ہوں۔ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی جیسی جماعتیں میدان میں ضرور ہوں لیکن بحیثیت بی ٹیموں کے‘ یعنی وہ کبڈی سرکار کی طرف سے ہی کھیل رہی ہوں۔ قوم پھر منتظر رہے‘ نیا ناٹک شروع ہونے والا ہے۔