شاذ ہی کسی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کی بدولت اتنی راحت ملی ہو۔ راحت اس بنا پہ کہ جہاں چارسُو مایوسی اور ڈپریشن پھیلی ہو‘ کہیں سے تو امید کی کرن نظرآئی ہے۔مسئلہ خاصا حساس تھا کہ جن پر مقدمات چلانا مقصود تھا‘ ان پر کن عدالتوں میں یہ مقدمات چلیں گے۔ قومی اسمبلی کو تو دیکھئے‘ اُس نے برق رفتاری سے قوانین پاس کئے‘ جن کا اُسے کہا گیا۔ہمارا سیاسی نظام بڑی مصلحتوں کے تابع تو ہے ہی لیکن جتنی تابعداری قومی اسمبلی نے دکھائی اُس کی نظیر ہماری تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔اوپر سے جو قانون آیا‘ اُس پر ٹھپہ لگادیا گیا‘ بنا بحث کے اور ظاہر ہے بنا سوچ کے۔ آج کل کے حالات میں سوچ رکھنا تو ایک قسم کا تکلف ہے اور قومی اسمبلی ایسے تکلف میں ایک لمحے کیلئے بھی نہیں پڑی۔
قومی اسمبلی کے حوالے سے ذکر اُس قومی اسمبلی کا ہو رہا ہے جو پی ٹی آئی کے ممبران نکلنے کے بعد باقی رہ گئی تھی۔یہ اور بات ہے کہ پی ٹی آئی کو ایسی فضول کی حرکت کرنی نہیں چاہئے تھی۔اُس نے بھی بغیرسوچے یہ بیکار کا قدم اٹھایا اور پھر نقصان بھی خود ہی اٹھایا۔مشکلات میں پی ٹی آئی تو پڑ گئی تھی لیکن جس عجلت سے اُس نے ایسی کارروائیاں کیں وہ سمجھ سے بالاترہیں۔ خیر‘ یہ الگ بحث ہے۔ بات تو یہ ہو رہی ہے کہ جو قومی اسمبلی پی ٹی آئی کے ممبران کے جانے کے بعد باقی رہ گئی اُس نے ماتحتی کا پورا حق ادا کردیا ا ور اس ماتحتی میں اُس قانون کا پاس ہونا بھی شامل ہے جسے اب سپریم کورٹ کے ایک فل بینچ نے رَد کیا ہے۔یہ قانون ایک ترمیم کی شکل میں آیا اور اس ترمیم کی رُو سے عام شہریوں کے مقدمات پسند کی عدالتوں میں چلائے جاسکتے تھے۔ کھل کے بات ہم کرنہیں رہے اور شاید اسی میں بہتری ہے لیکن جب یہ من پسند ترمیم پاس ہوئی توہر طرف سے آوازیں اٹھیں کہ یہ کیا کررہے ہیں‘ جس مقصد کو پورا کرنا چاہتے ہیں وہ آئین کے خلاف ہے‘ یعنی آئین کسی ایسے نرالے قانون کی گنجائش نہیں رکھتا۔ لیکن آج کے موسم میں کس نے ایسے اعتراضات پر کان دھرنا تھا۔ جنہوں نے آوازیں اٹھانی تھیں وہ بولتے رہے اورجنہوں نے اپنا مقصد پورا کرنا تھا وہ اُس پر بڑے اعتماد سے عمل درآمد کرتے رہے۔ قومی اسمبلی سے قانون پاس ہو گیا‘ صدرِ مملکت کے پاس قانون گیا‘ اُنہوں نے اُس پر دستخط نہیں کئے لیکن واویلا اٹھا کہ اتنے دن بیت گئے ہیں جس سے یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ بغیرصدرصاحب کے دستخطوں کے مجوزہ قانون حتمی شکل اختیار کرچکا ہے۔ صدر صاحب نے یہ بیان بھی دیا کہ میں نے یہ قانون واپس کر دیا تھا لیکن میرے سٹاف نے مجھ سے دھوکا کیا اور مجھے اندھیرے میں رکھااورتاثر یہی دیا گیا کہ قانون واپس کردیا گیا ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہ ہوا تھا۔
یہ بیان صدرصاحب کی بے چارگی کا ایک اظہار تھا‘ اس کے علاوہ وہ کرتے بھی کیا۔ صدرِمملکت تو وہ اب تک ہیں لیکن پَر بھی کٹے ہوئے ہیں‘ ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں‘ کسی اور کے شکنجے میں نہیں تو کم از کم حالات کے شکنجے میں ضرور پھنسے ہوئے ہیں۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے البتہ اس قانون کو چیلنج کر دیا۔ریٹائرڈ جسٹس جواد ایس خواجہ کو داد دینی پڑتی ہے کہ اُنہوں نے بھی ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں دائرکر دی۔ بیرسٹراعتزاز احسن بھی بہت چیخے چلائے اور اُنہوں نے بھی سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دی۔تب چیف جسٹس جناب عمرعطابندیال تھے اوراُن پر سرکاری حلقوں کی طر ف سے حملے ہو رہے تھے کیونکہ اہلِ سرکار کو اُن کا رویہ پسند نہ تھا۔ بندیال صاحب دھیمے مزاج کے آدمی ہیں‘ گفتگو ہمیشہ اُن کی بڑی مہذب رہی ہے‘ لہٰذا سرکار کی طرف اُن کا لہجہ ترش تو نہ تھا لیکن اصل اعتراض تو اُن کے فیصلوں پر ہو رہا تھا۔ اس وجہ سے اُن پر خاصا پریشر بھی پڑرہا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ جب یہ پٹیشنیں اُن کے سامنے آئیں اُنہوں نے سب کو مؤخر کر دیا۔ قاضی فائز عیسیٰ صاحب چیف جسٹس بنے تواُنہوں نے ان پٹیشنوں پر کارروائی شروع کی اور ان کو سننے کیلئے ایک فل بینچ مقرر کیا۔ اگر قاضی صاحب چاہتے تو وہ بھی ان پٹیشنز کی سماعت کو مؤخرکرسکتے تھے‘ لیکن اُنہوں نے ایسا نہ کیا اوراس نہایت ہی اہم اور حساس مسئلے کی فوری سماعت کا حکم صادرکردیا۔ایک اور بات پر بھی اُن کو سراہنا بنتا ہے کہ اُنہوں نے کوئی مرضی کے جج صاحب بینچ میں شامل نہیں کئے۔ جو بینچ چنا گیا پھر اُس نے وہ فیصلہ سنایا کہ مایوسی میں ڈوبی قوم کو ایک دلاسا ملا ہے کہ اندھیری شب تو ہے لیکن شب ہی تو ہے‘ کتنی دیر رہے گی اور جیسی بھی شب ہو‘ طلوعِ آفتاب بھی تو ہوتاہے۔
لہٰذا یہ کوئی عام فیصلہ نہیں۔ ہے تو ایک خاص قانون کے بارے میں پر اس کے اثرات بہت دور جانے والے ہیں۔ یہ فیصلہ بتاتا ہے کہ قانون اور آئین پر جتنی بھی چڑھائی کی گئی ہو قانون اور آئین موجود تو ہیں اور جب تک وہ موجود ہیں اُن کی محافظ بہرحال نامساعد حالات میں بھی سپریم کورٹ ہی ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ کی تاریخ اتنی درخشاں نہیں۔ چیف جسٹس محمد منیر سے لے کر بہت سے چیف جسٹس صاحبان تک اعلیٰ عدلیہ مصلحت پسندی کی شکار رہی ہے۔آئین پر حملے ہوتے رہے‘ جمہوریت پامال ہوتی رہی اور ان اقدام کیلئے اعلیٰ عدلیہ عذرتلاش کرتی رہی اور ایسے عذر کہ وہ ہماری آئینی روایات کا حصہ بن گئے‘ اور بار بار کی پامالی کے بعد وہی عذر جو پہلے تراشے گئے تھے‘ اُنہی کا سہارا لیا جاتا رہا۔نظریۂ ضرورت انہی جوازوں کا ایک نام ہے‘جمہوریت کھلونا بنتی رہی اور اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے نہایت خوبصورتی سے تراشے گئے جواز سامنے آتے رہے۔
ہم جیسے تو اب بھی سوچ رہے تھے کہ پھر سے ایسا نہ ہو جائے۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں کہ طاقت کا جھکاؤایک طرف ہے‘ سیاسی نظام بری طرح مجروح ہوچکا ہے‘ اورمخصوص مکتبِ فکر کے سیاستدانوں نے اپنی بدنامی کروانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔وسوسے اگرتھے تواُن کا ایک بیک گراؤنڈ بھی تھا۔ آئین کا اتنی بارکھلواڑ ہوا ہے کہ اس بار بھی ہوتا تو کسی نے کیا اعتراض کرنا تھا۔انتخابات کا مسئلہ دیکھ لیجئے‘ بندیال صاحب کا فیصلہ تھا کہ پنجاب میں نوے دن میں انتخاب ہو۔ اُس فیصلے کی کسی نے کوئی پروا کی؟ قومی اسمبلی اپنی میعاد پوری کرکے برخاست ہو چکی ہے لیکن آئین کے تحت نئے انتخابات کا کوئی واضح نشان نہیں۔تو اس صورتحال میں مرضی کی عدالتوں کے بارے میں کچھ بھی فیصلہ ہوسکتا تھا۔قانونی ذہن جب عذر اور بہانے تراشنے لگیں تو اُن کی ذہانت کی کوئی حد نہیں ہوتی‘ بھونڈے سے بھونڈے اقدام کیلئے بھی بہانہ ڈھونڈ لیا جاتا ہے۔لیکن سلوٹ جاتا ہے اس سپریم کورٹ کے بینچ کیلئے کہ بغیر کسی لگی لپٹی کے اس نے فیصلہ سنادیا ہے کہ آئینی تقاضے بھی کچھ مقام رکھتے ہیں اور ان تقاضوں کے تحت من پسند عدالتوں کا کوئی جواز نہیں۔
جب شب کی تاریکی گہری ہو تو کہیں سے بھی اجالا نظر آئے تو آنکھوں میں امید پیدا ہو جاتی ہے۔ اس فیصلے نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ کچھ تو امید بندھی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ ہماری زندہ ہے اور قانون اور آئین کی اُسے فکر ہے۔انتخابات کا کیس بھی سپریم کورٹ میں لگنا ہے‘ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔