یہ رپورٹ چکوال کی ہے۔ سوموار دوپہر کو یہاں پہنچا اور پھر اگلے روز یعنی منگل پورا دن یہاں گزارا۔ الیکشن کے موسم پہلے بھی دیکھے ہیں اورخود بھی دوتین بار الیکشن کی جھک ماری ہے۔ہارجیت کا مزہ چکھا ہے لیکن جو کیفیت اب یہاں دیکھ رہا ہوں پہلے کبھی نہ دیکھی۔پہلی مہمات بڑی کسمپرسی میں شروع ہوتیں‘ یعنی کچھ ہی ساتھی ہوتے اورپھر راستے ڈھونڈنے ہم نکلتے۔ آہستہ آہستہ مہم میں کچھ زور آتا‘ منتیں ترلے کرتے‘ تقاریر ہوتیں‘ جلسے جلوس ہوتے‘ پھر جاکے کہیں الیکشن کا موڈ بنتا۔2008ء میں تو الیکشن سے دس بارہ روز پہلے ہی کچھ معلوم ہوسکا کہ ہوائیں کس طرف چل رہی ہیں۔ لیکن بخدا جو اَب صورتحال ہے وہ حیرت اُڑا دینے والی ہے۔ لوگ خود بخود باہر نکل رہے ہیں‘ دیہات سے ملنے آرہے ہیں۔ اگر یہ ایک روز کی روداد ہے تو بتائیے آگے چل کے کیسا سماں بندھے گا؟
اس عمر میں پہنچتے پہنچتے بڑی حکومتیں دیکھی ہیں۔ان میں سخت حکومتیں بھی تھیں جن میں سیاست مکمل طورپر حکومتی کنٹرول میں رہتی تھی۔لیکن سخت حکومتوں کا المیہ یہ ہے کہ اُس قسم کا کنٹرول زیادہ طویل مدت کیلئے قائم نہیں رہ سکتا۔ایک وقت آتا ہے جب اندر سے ہی خیال پیدا ہوتا ہے کہ کچھ سیاسی پیش رفت ہونی چاہئے اور جونہی ایسا فیصلہ ہوتا ہے سیاسی سپیس کھلنے لگتی ہے۔ ضیا الحق صاحب کی کتنی سخت حکومت تھی لیکن ایک وقت آیا جب اُنہیں اپنی قبولیت کی خاطر ریفرنڈم کرانا پڑا۔وہ ریفرنڈم مذاق تھا‘ کھلا مذاق‘ لیکن اُس کے انعقاد سے ضیا حکومت کی قلعی کھل گئی۔ اعلان تو ہوا کہ 98 فیصد سے زیادہ لوگوں نے ضیا صاحب کے حق میں ووٹ دیاہے لیکن عوام کے سامنے یہ عیاں ہو گیا کہ پولنگ بوتھ تو خالی تھے اور جن قطاروں کی امید کی جا رہی تھی وہ کہیں نظرنہ آئیں۔اُسی شام ضیاصاحب ٹی وی پر آئے اور قوم کا شکریہ ادا کیا کہ اُن پر اعتماد کیا گیا ہے لیکن چونکہ ضیا صاحب کو بھی پتا تھا کہ حقیقت کیا ہے اور دن کیسا گزرا ہے تواپنے ریکارڈڈ خطاب میں بھی وہ اعتماد نہیں نظرآرہا تھا جس کی وہ خود توقع کرسکتے تھے۔ دورانِ خطاب تین بار اُن کو اپنی ناک پونچھنی پڑی۔اورپھر کچھ ماہ بعد اُنہوں نے غیر جماعتی انتخابات کرائے۔ اپوزیشن جماعتوں نے بالخصوص پی پی پی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا‘جو اُن کی تاریخی غلطی تھی۔ ایئرمارشل اصغر خان کی ایبٹ آباد رہائش میں اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہوا اور ہم جو صحافی وہاں موجود تھے اُن میں سے کچھ چپکے سے رائے دیتے رہے کہ بائیکاٹ کا فیصلہ نہیں ہونا چاہئے۔بائیکاٹ کے بڑے محرک نوابزادہ نصراللہ خان تھے اور وہ یہ سیاسی فلسفہ جھاڑتے رہے کہ ایک آمر کی چھتری تلے انتخابات میں حصہ کیسے لیا جاسکتاہے۔ لندن بیٹھے بے نظیر بھٹو صاحبہ نے فون کیا کہ انتخابات میں حصہ نہیں لینا۔ اُنہیں یہ ڈر لاحق ہو گیا کہ اُن کی غیرموجودگی میں غلام مصطفی جتوئی کہیں وزیراعظم نہ بن جائیں۔ بات بائیکاٹ تک پہنچی اور کہتے ہیں کہ ضیا صاحب نے سکھ کا سانس لیا۔
مزے کی بات البتہ یہ ہے کہ گو غیر جماعتی بنیادوں پر آنے والی قومی اسمبلی قائم ہوئی تھی وہ بھی ضیاصاحب کو راس نہ آئی۔ سپیکرکیلئے اُنہوں نے خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر کا نام تجویز کیا لیکن راتوں رات اُن کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں۔ سارے آزاد ممبران تھے اور انہوں نے سیدفخر امام کا نام تجویز کیا۔ تب تک تو ضیاصاحب سیاہ و سفید کے مالک تھے لیکن جونہی سیاسی عمل آگے بڑھا حالات پر اُن کی گرفت کمزور ہوتی گئی۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کو چنا گیا جو تب کے پیر پگاڑا کی چوائس تھے۔ ضیاصاحب سمجھے کہ جونیجو سیدھی لائن پر چلیں گے لیکن پہلی ہی میٹنگ میں ضیاصاحب کی حیرانی کی انتہا نہ رہی جب جونیجو صاحب نے پوچھا کہ مارشل لاء کب ہٹائیں گے؟دسمبر 1985ء میں مارشل لاء اُٹھالیا گیا‘ اخبارات میں بھی کچھ آزادی آئی‘ مجموعی ماحول بہتر ہونے لگا۔
حالات یہاں تک پہنچے کہ ضیاصاحب اُس اسمبلی اور جونیجو صاحب سے بیزار ہو گئے۔ جونیجو صاحب بڑے سلجھے ہوئے آدمی تھے‘ کسی غیرمہذب حرکت کا سوچ نہ سکتے تھے لیکن وہ ہِز ماسٹرز وائس بھی نہ تھے اورایوانِ صدر سے کوئی ڈکٹیشن نہیں لیتے تھے۔دوتین وزرا کو کرپشن کے الزامات پر کابینہ سے نکال دیا۔ خوداُن پر کرپشن کا دورتک شائبہ نہ تھا۔ دیکھا جائے توپچھلے پچاس پچپن سال میں اُن کی حکومت سب سے صاف حکومت تھی۔ اسی وجہ سے ضیا صاحب کو وہ حکومت کیسے راس آنی تھی؟
جونیجو صاحب چین کے دورے پر گئے ہوئے تھے‘ واپس اسلام آباد ایئرپورٹ پر اُترے تو انہیں اطلاع ملی کہ اُن کی حکومت اور قومی اسمبلی کو برخاست کردیاگیا ہے۔حکومت برخاست تو ہو گئی لیکن ضیاصاحب پہلے جیسے حکمران نہ رہے۔ وہ جیسے کسی کا اپنے پہ اعتماد اوربھروسا متزلزل ہو جاتا ہے یہ اُن کی کیفیت ہو گئی۔ نئی کابینہ اُنہوں نے بنائی لیکن سب چہرے بھلادینے والے تھے۔ آئین کے مطابق ساٹھ روز میں انتخابات ہونے تھے لیکن اُس ڈیڈلائن کا احترام نہ کیا گیا اور الیکشن تاریخ گزرگئی۔ پھر بہاولپور کا سانحہ ہوا جس میں جنرل صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ انتخابات ہوئے اور بے نظیر بھٹو وزیراعظم ہو گئیں۔
کہنے کا مطلب یہ کہ جتنی بھی آپ احتیاط کریں‘ جتنا بھی آپ ڈر اور وسوسوں کو گلے سے لگائے رکھیں‘ جونہی سیاسی پیش رفت ہوتی ہے صورتحال میں تناؤ اور سختی کم ہونے لگتی ہے۔جیسے سپیکرکا الیکشن ہوا اورقومی اسمبلی کے ممبران نے اپنی مرضی کی اسی طرح کوئی بھی الیکشن ہو ووٹر اپنی مرضی کرنے لگتے ہیں۔ہیراپھیرا کی گنجائش رہتی ہے اور پاکستان کے بیشتر الیکشنوں میں تھوڑی بہت ہیراپھیرا ہوتی رہی ہے لیکن جہاں ایک عوامی موڈ بن جائے وہاں حالات کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔اب جو پاکستان میں صورتحال بن رہی ہے جب الیکشن تاریخ کا اعلان ہوچکا ہے اور الیکشن کمیشن شیڈول دے چکا ہے توچیزوں کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔ جب امیدوار کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے آئیں گے تو کون اُنہیں روک سکتا ہے؟لاکھ احتیاط کی جائے ووٹنگ کا مرحلہ جب آتا ہے تو لوگ اپنی مرضی کرتے ہیں‘ خاص طورپر ایسی صورتحال میں جب آنکھیں اوردماغ قدرے کھل گئے ہوں۔ اورمیں یہ کہنے میں قطعاً ہچکچاہٹ محسوس نہیں کررہا کہ جو صورتحال زمین پر ہے وہ خاصی حیران کن ہے۔
اچھا ہے ایسا ہی ہونا چاہئے۔ جو بھی ہمارے حالات ہوں یہ مردہ قوم نہیں ہے‘ دل اس کا دھڑکتا ہے۔ حکمرانی کے انداز نکمے ہوں گے‘ حکمرانی کا معیار اتنا اچھا نہ ہوگا لیکن قوم کے سینے میں دھڑکتا دل ضرور موجود ہے۔اور یہ بھی فرق کرنا پڑے گا کہ ہمارے اوپر کے طبقات کے حالات و خیالات اور ہیں اور عوام الناس کی سوچ مختلف ہے۔صرف اوپر کے طبقات نے ووٹ دینے ہوتے تو پھر بات اور تھی لیکن دردِسر یہی ہے کہ انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اٹھارہ اور اس سے اوپر کے لوگ بالغ کہلاتے ہیں‘ پرچی ڈال سکتے ہیں۔ اوراس وقت دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی اکثریت نوجوان لوگوں پر مشتمل ہے‘ وہ جن کی عمریں پینتیس سال سے کم ہیں۔ ان نوجوانوں کی تو سوچ ہی مختلف ہے۔یہ پرانی نشانیوں سے اُکتائے ہوئے لوگ ہیں‘ پرانی سیاست سے تنگ‘ پرانے سیاسی چہروں سے بیزار۔یہ موجودہ نظام سے بھی تنگ ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکمرانی کے انداز مختلف ہوں۔ اس نوجوان کے دل میں نئی قسم کی اُمنگیں بھڑک رہی ہیں۔ سوچئے تو سہی کہ جب ووٹ کا مرحلہ آئے گا تو یہ نوجوان کیا کرے گا؟
بس اچھاہوا کہ الیکشن تاریخ کا اعلان ہو گیا۔ دیکھتے جائیے کہ صورتحال کیسے بنتی ہے۔ ابھی تو اس کھیل کا آغاز ہوا ہے۔