ہونا تو یہ چاہیے کہ اب آرام کریں‘ زندگی کی شاموں کا مزہ لیں‘ فضول باتوں کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دیں۔ لیکن کچھ نہ کچھ مصیبت پڑی رہتی ہے‘ سیاست کا چسکا نہیں جاتا‘ کبھی الیکشن آ جاتے ہیں اور پھر ایسے ناٹک تو ہوتے ہی رہتے ہیں جو یہاں کا معمول بنے ہوئے ہیں۔ اب تو دنیا کی سیر پہ نکلنا چاہیے۔ پیسے کچھ جیب میں ہوں اور انسان کسی دلچسپ یا انوکھے سفر پر نکل پڑے۔ ہم نے دیکھا ہی کیا ہے‘ دیکھنے کو کتنا کچھ ابھی باقی ہے اور ہم ہیں کہ زندگی کے فضول کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ کتنے ہمارے ہم عمر اس دنیا سے جا چکے ہیں۔ اُس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ اب تک دھرتی پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ گزرتے لمحوں کی قدر ہونی چاہیے۔ وقت گزرنے میں کون سی دیر لگتی ہے‘ اس لیے جو وقت نصیب میں ہے اُسے بھرپور انداز سے گزارنا چاہیے۔
سیاست کے یہاں انداز نرالے ہیں۔ شادیوں اور فاتحہ خوانیوں میں کتنا وقت گزر جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو دل کرتا ہے کہ باقاعدہ کہہ ڈالوں کہ جب بھی وقت پورا ہوا‘ کوئی ہماری آخری رسومات میں نہ آئے۔ لہٰذا کوئی ہم سے یہ توقع بھی نہ کرے کہ دوسروں کی آخری رسومات میں حاضریاں دیتے پھریں۔ اور یہ جو ہمارے ملک میں شادیوں پر وقت برباد ہوتا ہے‘ اس سے آدمی بچ جائے تو کتنا ہی اچھا ہو۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ سوائے شادیوں کے اس ملک میں اورکوئی کام نہیں ہوتا۔ شادی ہالوں کی تعداد دیکھ لیجئے‘ میرا نہیں خیال کسی اور ملک میں اس پیمانے پر شادی ہالوں کا یہ تماشا چلتا ہو۔ شادیاں تو ہونی ہوتی ہیں‘ زندگی کا ایک حصہ ہے‘ لیکن اتنا وقت اور پیسہ برباد کرنے کی تو ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔
کیا اچھا رواج پرانے روس میں ہوا کرتا تھا۔ سنیچر والے دن عموماً شادیاں ہوتی تھیں‘ چونکہ وہ کمیونسٹ ملک تھا اور روایتی مذہب کا کوئی نشان نمایاں نہیں ہوتا تھا تو شادیاں بغیر پادریوں کے ہوتی تھیں۔ شادی بیاہ کیلئے مختص دفتر کے سامنے جوڑوں کی لمبی قطار لگی ہوتی تھی۔ باری پر آپ اندر گئے اور اندر داخل ہوتے ہوئے کوئی آہستہ موسیقی کی دُھن لگی ہوتی۔ شادی کے رجسٹر میں اپنے نام لکھوائے‘ موجود اہلکار کہہ دیتا کہ شادی ہو گئی ہے۔ باہر دروازے کی طرف آپ چل دیے اور اُس لمحے ایک پُرمسرت دُھن ساؤنڈ سسٹم پر آ جاتی۔ نوبیاہتے جوڑے عموماً لینن کے مقبرے پر جاتے‘ وہاں پھولوں کا ایک گلدستہ پھینکتے‘ پھر ٹیکسی پر سوار ایک اونچائی‘ جو ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی کے ساتھ واقع تھی‘ وہاں جاتے‘ شہر کا نظارہ لیتے‘ کچھ پھول پھینکتے اور پھر شام ڈھلے کسی ریستوران میں دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ شغل کی محفل برپا ہوتی۔ خوب ناچ گانا ہوتا، کھانے کی میزیں سجی ہوتیں اور پھر جو دستورِ عالم ہے کھانے کے ساتھ ساتھ دیگراشیا کی بھی کمی نہ ہوتی۔ اور یہ نہیں کہ پورا ریستوران بُک کیا ہوا ہے‘ ایک کونے میں میرج پارٹی بیٹھ جاتی اور گانے گائے جاتے۔ اتوار آرام کا دن ہوتا اور سوموار کو لوگ کام پر ہوتے۔ ہمارے ہاں اتنا عرصہ پہلے شادیوں کی تیاریاں ہونا‘ جہیز وغیرہ اکٹھا کرنا‘ سنیاروں کے چکر لگانا‘ پیسے نہ بھی ہوں پھر بھی پیسے اکٹھے کرنے کی جستجو میں لگے رہنا‘ ایسا تماشا وہاں نہیں ہوتا تھا۔
ہمارے پڑوس میں دیکھئے ان امبانیوں کو۔ بیٹے کی شادی نہیں ہوئی‘ یہ شادی کی تیاری تھی یعنی شادی کا ٹریلر تھا لیکن دنیا بھر سے مہمان آئے ہوئے تھے اور ایسا جشن منایا گیا جس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ مکیش امبانی کے پاس پیسہ تو ہے لیکن لگتا ہے ذوق کی کچھ کمی ہے۔ اور ان بالی وُڈ کے ستاروں کو دیکھئے‘ سلمان خان‘ شاہ رخ خان‘ پتا نہیں اور کون اس شادی کے ٹریلر میں ناچ رہے تھے۔ سوچئے تو ذرا ہالی وُڈ کے جو بڑے سٹار یا سپر سٹار ہیں‘ وہ کسی بڑے سیٹھ کی شادی میں ایسے جا کر ناچنا پسند کریں گے؟ کس کا نام لوں؟ سینما سکرین کے وہاں جو صحیح سٹار ہیں‘ وہ کبھی ایسی حرکت کرتے دکھائی دیں گے؟ پر ہمارے برصغیر کے اور ہی طور طریقے ہیں۔ بہرحال شادیوں کے نام پر لوگوں کو برباد تو نہیں ہونا چاہیے۔ اور ہماری شادیاں تو ویسے ہی بڑی بور ہوا کرتی ہیں۔ ایک تو عورتوں اور مردوں کا الگ الگ ہونا اور پھر کھانے کے انتظار میں ویسے ہی ایک دوسرے کا منہ تکتے رہنا۔ اس لحاظ سے ہمارے سردار جی بھائی ہم سے لاکھ بہتر ہیں۔ میزوں پر کچھ تو پڑاہوتا ہے جس کی وجہ سے وقت کا احساس نہیں رہتا اور نہ ماحول بور ہوتا ہے۔
کس موضوع کی طرف میں چل پڑا۔ بات کرنے کا مدعا تو یہ تھا کہ جو بھی جوانی میں انسان نے جھک ماری ہو‘ اس عمر میں آ کر کچھ اسلوب والے انداز اپنانے چاہئیں۔ شاموں کو صحبت اچھی ہو‘ جانے کو جگہ کوئی اچھی ہو اور سرور میں انسان گھر واپس لوٹے۔ لیکن یہی تو یہاں رونا ہے۔ جانے کی جگہ ہم نے چھوڑی کون سی ہے؟ سوچنے کا مقام ہے پرانے وقتوں میں ایسی جگہوں پر تالے نہیں لگے ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے کتنے سال بعد بھی شام ڈھلے ایسی جگہوں سے موسیقی کی آواز آتی تھی۔ لیکن ہم جو اتنے تیس مار خان نکلے‘ ہر طرف بندشیں قائم کر دیں۔ ملک ہم سے چلایا نہ گیا‘ کشکول لیے ہر دروازے پر دستک دیتے ہیں اور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ خیرات دینے والے ناک چڑھا کر کشکول میں کچھ ڈالتے ہیں۔ لیکن اس بربادی میں بھی پارسائی کا عَلم اٹھایا ہوا ہے۔ یہ نہیں کرنا‘ وہ چیز ممنوع ہے‘ فلاں بے راہ روی کی سزا یہ ہے۔ یعنی قدغنیں اور بندشیں اور ان پر یہ گھمنڈکہ ہم کوئی پہنچے ہوئے لوگ ہیں اور یہ مملکت کوئی خاص قسم کی مملکت ہے۔ بیوقوفی کی بھی کچھ حد ہونی چاہیے لیکن یہاں لگتا ہے کہ تہیہ کیے بیٹھے ہیں کہ سمجھداری کی کوئی بات نہیں کرنی۔ اب تک تو ہم نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے‘ اس میں اب کوئی شک کی گنجائش نہیں رہی لیکن خدارا! بیوقوفی میں تو کچھ کمی آئے۔ یہ جو خواہ مخواہ کی بندشیں ہیں‘ ان کا تو کچھ خاتمہ ہو۔ یعنی اور کام نہیں ہوتے تو سانس لینے کی آزادی تو ہونی چاہیے۔ زندگی تو ویسے ہی ایک مشکل عمل کا نام ہے۔ اس میں خواہ مخوا کی پیچیدگیاں کیوں پیدا کی جائیں؟ پرانے روس میں سیاسی آزادیاں نہیں تھیں لیکن روزمرہ کی زندگی کے حوالے سے سوشل آزادیاں تو تھیں۔ یہاں عجیب ماجرا ہے۔ سیاسی آزادیوں کو چھوڑیے‘ وہ جتنی ہیں ہمیں اچھی طرح معلوم ہے لیکن کچھ چلنے پھرنے کی آزادی تو ہو۔ یہ جو بہاولنگر میں پولیس کی ٹھکائی پر لوگوں نے تالیاں بجائیں وہ اس لیے کہ روزمرہ کی زندگی میں اس محکمے کی کارکردگی اتنی گھٹیا قسم کی ہے کہ اس محکمے کے لوگوں کے ساتھ کچھ ہوا تو افسوس کے بجائے عام آدمی خوش ہوا کہ جو ہوا ٹھیک ہوا۔
سرکاری اداروں کے حوالے سے یہ کون سی روایت یہاں پیدا ہو چکی ہے کہ جو کرنا ہے ٹیڑھے انداز سے کرنا ہے۔ دروازے سے اندر نہیں آنا‘ دیواروں کو ٹاپ کر آنا ہے اورگھروں کے اندر جب تک مکمل بدتمیزی اور ہلڑ بازی نہ رچائی جائے تب تک دل کو تسکین نہیں آنا۔ اور یہ جو روایت حالیہ وقتوں میں پیدا ہوئی ہے کہ تشددتو کرنا ہی کرنا ہے ۔کتنے ہی ایسے ہیں جن کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے۔ سٹالن کے روس میں لاکھوں انسانوں کو گولیوں سے اڑایا گیا‘ اُن کے ساتھ تشدد بھی کیا جاتا تھا لیکن کسی کی عزت پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا تھا۔ یہ ہمارا ہی خاصہ ہے۔
بات شروع کہاں سے ہوئی اور کہاں ختم ہو رہی ہے۔