"AYA" (space) message & send to 7575

واقعہ گُگھ کچھ رنگ بازی کی زد میں

شادیوں کا موسم ہے اور لگتا ہے کہ شادیوں کے علاوہ اس دھرتی پر اتنی اہمیت کا اور کوئی کام نہیں۔ تین روز پہلے چکوال ایک شادی میں مدعو تھا کہ ساتھ بیٹھے مہمان نے پوچھا کہ گگھ والا قصہ آپ کے علم میں آ گیا ہو گا؟ میں نے پوچھا کون سا واقعہ؟ تو بتایا گیا کہ انسانیت نام کی چیز کہاں پہنچ گئی ہے‘ موضع گگھ میں ظالم رشتہ داروں نے ایک بھائی اور اس کی بہن کو دو سال سے مبحوس کر رکھا تھا۔ پولیس کو اطلاع ملی اور وہاں پہنچنے پر دیکھا کہ سردی اور بھوک سے بہن‘ جس کا نام جبین تھا‘ مر چکی ہے اور بھائی حسن رضا ایک کمرے میں سہما ہوا پایا گیا۔ اتنا ڈرا ہوا تھا کہ اس سے کوئی بات نہیں ہو رہی تھی۔ یہ سُن کر میں بھی ہل کر رہ گیا۔ دوسرے دن اخبارات میں دیکھا تو لرزہ خیز قسم کی تفصیلات ان میں تھیں کہ بہن بھائی اچھی خاصی جائیداد کے مالک تھے اور اس جائیداد کو ہتھیانے کیلئے کچھ ظالم رشتہ داروں نے انہیں دو سال سے اندر بند رکھا ہوا تھا اور ذہنی مریضوں کی دوائیاں دے دے کر دونوں بہن بھائی کا برا حال کیا ہوا تھا۔
ایک دفعہ پھر دل ہل کے رہ گیا لیکن ایک خیال ستانے لگا کہ جس قسم کے ہمارے چکوال اور تلہ گنگ کے علاقے کے گاؤں ہیں‘ ان میں کسی کو اتنی دیر گاؤں کے عین وسط میں بند رکھنا آسان کام نہیں۔ بات نکل جاتی ہے اور ایسے بند رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ فون اٹھایا اور گگھ میں اپنے کسی جاننے والے سے رابطہ کیا کہ معاملہ دیکھنے آ رہا ہوں۔ گگھ مشہور گاؤں ہے اور چکوال کے شمالی حصہ میں واقعہ ہے۔ ایک زمانے میں راستہ دشوار ہوا کرتا تھا لیکن جنرل فیض حمید کی بنائی ہوئی سڑک‘ جو کہ ڈھڈیال سے نیلہ دلہہ چوک تک جاتی ہے‘ سے یہ سفر بہت آسان ہو گیا ہے۔ شام کو پہنچا‘ پہلے تو متوفیہ جبین کی فاتحہ پڑھی اور پھر دو تین معززین سے اس واقعہ کی تفصیلات معلوم کرنے کی کوشش کی۔ پتا چلا کہ کسی نے بہن بھائی کو مبحوس نہیں کر رکھا تھا۔ ان کے والد زرین تاج جو کہ اچھے خاصے زمیندار تھے‘ کا انتقال تقریباً دو سال پہلے ہوا اور ان کی زندگی میں ہی دونوں بہن بھائیوں کا ذہنی توازن خراب تھا۔ والد نے مرنے سے کچھ عرصہ پہلے زمین بھی بیچی تھی ان کے علاج کیلئے اور ڈاکٹر رضوان نامی اسلام آباد کے کسی ڈاکٹر سے علاج کرایا تھا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ حسن رضا الشفا میں بھی کچھ عرصہ داخل رہا لیکن اس کی حالت میں کوئی بہتری نہ آئی۔ ذہنی توازن ایسا بگڑ چکا تھا کہ گھر سے ہر گزرنے والے پر پتھر پھینکتا حتیٰ کہ ان کے گھرکے پاس کی جو گلی ہے وہاں لوگوں نے آنا جانا چھوڑ دیا تھا۔ کوئی بھولے سے وہاں سے گزرتا تو اس کے پیچھے ڈنڈا لے کر لگ جاتا۔ ڈاکٹر اشفاق (فارما کے لوگوں کو دیہات میں ڈاکٹر ہی کہا جاتا ہے) جوکہ سابقہ نیوی کے ہیں‘ کا گھر حسن رضا کے گھر کے عین سامنے ہے۔ ڈاکٹر اشفاق نے کہا کہ حسن رضا کا میں سب سے متاثرہ آدمی ہوں کیونکہ میرے گھر میں پتھر پھینکتا رہتا تھا۔ اپنے گھر میں پتھروں کے کچھ نشانات بھی دکھائے۔ حوالدار ملک فضل داد کا بڑا سا مکان وہ بھی سامنے ہے۔ سب نے کہا کہ حسن رضا کو کسی نے بند نہیں کیا ہوا تھا۔ اس کے پاگل پن کی وجہ سے لوگ آتے ہوئے ڈرتے تھے۔ مین گیٹ کے باہر ایک صحن نما جگہ پر وہ بیٹھا رہتا تھا۔ رَمبا لے کر گھاس نکالتا رہتا تھا۔ سامنے حسن رضا کا ہی ایک زمین کا ٹکڑا ہے۔ تین چار دن پہلے اسی زمین سے اس نے مولیاں نکالی تھیں۔ میں نے دیکھیں بھی کہ غسل خانے میں مولیاں پڑی ہوئی ہیں۔ ایک دیوار پر شاپروں پر لٹکا ہوا کھانا تھا جو کہ اُس کے رشتہ دار گیٹ کے اوپر سے دے جاتے تھے۔ مرضی ہوئی کچھ کھا لیا نہیں تو شاپروں میں کھانا پڑا رہتا۔ اور یہ جو کہانی کہ ظالم رشتہ داروں نے بند کر کے رکھا ہوا ہے‘ یہ سب من گھڑت اور بے بنیاد ہے۔
پولیس کے مطابق انہیں ایک گمنام خط ملا کہ ایسے ایک بہن بھائی کو گگھ کے ایک گھر میں بند کیا ہوا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سادہ کپڑوں میں کسی ذمہ دار اہلکار کو بھیجا جاتا کہ پتا کرو کہ معاملہ کیا ہے اور الزام میں کتنی سچائی ہے۔ ایسا فوری ہونا چاہیے تھا۔ گگھ اور تھانہ نیلہ کا راستہ کوئی اتنا زیادہ نہیں ہے۔ خط ملتے ہی کسی ایک اہلکار کو بھیج دیا جاتا۔ لیکن پورے ایک ہفتے کارروائی نہیں ہوئی اور جب کچھ ہوا اور پولیس وہاں پہنچی تو سارے واقعہ کو ایک ڈرامائی رنگ دے دیا گیا۔ ایک کمرے میں بہن کی لاش پڑی تھی جو کہ کچھ وقت یا کچھ دن پہلے مر چکی تھی۔ نہ حسن رضا نے کسی کو بتایا نہ اس کی حالت تھی بتانے کی اور نہ ہی کوئی اندر گھر میں آتا جاتا تھا۔ فوراً ہی میڈیا پر بات چڑھ گئی کہ ظالم لوگوں نے دو سال سے بہن بھائی کو قید رکھا ہوا ہے‘ نہ کھانا نہ کپڑے‘ اور دوائیاں دے دے کر ان کی ذہنی حالت بگاڑ دی گئی۔ میڈیا پر اتنی ہائپ ہو گئی پھر مجرم تو کسی کو بننا تھا۔ جو حسن رضا اور بہن کی ملکیتی زمین ہے اسے ان کا بہنوئی حاجی انصر دیکھتا ہے۔ حاجی انصر کی شادی حسن رضا اور جبین کی کزن اِرم سے ہوئی ہے۔ ایک تو پولیس نے 302کا پرچہ دے دیا اور پھر ساتھ ہی انصر کو نامزد کرکے مقدمے میں گرفتار کر لیا۔ پورا گاؤں حسن رضا کی ذہنی حالت کے بارے میں گواہی دے سکتا ہے۔ گھر میں تو وہ تھا اور اس کی بہن۔ اندر کوئی آ جا نہیں سکتا تھا۔ قتل تو پھر ہوا نہیں‘ نہ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے قتل کے شواہد ملتے ہیں۔ پورا گاؤں یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ کسی نے حسن رضا اور اس کی بہن کو بند کرکے نہیں رکھا ہوا تھا۔ پھر کہاں کا قتل کا مقدمہ اور کیسے انصر کی گرفتاری؟ کچھ پوچھ لیتے‘ معلومات جو ہر کسی کے علم میں ہیں جانی جاتیں‘ تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔
تھانہ نیلہ کا ایس ایچ او فضول قسم کا افسر نہیں ہے۔ پڑھا لکھا ہے اور تجربہ رکھتا ہے لیکن میڈیا میں کوئی چیز آ جائے تو ہماری پولیس کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ یہ واقعہ قطعاً ایسا نہیں ہے جیسا میڈیا میں پیش کیا گیا۔ اور ہمارے میڈیا والے صاحبان بھی کہیں سے بات سُن لیں تو اکثر بغیر تحقیق کیے مرچ مصالحہ لگا کے آگے کر دیتے ہیں۔ پھر یہ بات پھیل جاتی ہے اور پھیلتی ہے تو پولیس کا ردِعمل ہوتا ہے کہ کسی کو پکڑا جائے تاکہ معاملہ ٹھنڈا ہو جائے۔ پھر معمول کی کارروائی چلتی رہتی ہے اور ہمارے ملک میں یہ معمول ایسا ہے کہ اگلے کا تیل نکل جاتا ہے۔ اب بے گناہ انصر اس مقدمے میں پھنس گیا ہے‘ صفائیاں پیش کرتے اور مقدمے سے نکلتے نکلتے اس کا حساب ہو جائے گا۔
یہ صرف اس واقعہ کی حد تک نہیں‘ کوئی معاملہ میڈیا کی زینت بن جائے پولیس جان چھڑانے کی کوشش کرتی ہے۔ توہین مذہب کے اکثر کیسوں میں بھی کسی نے الزام لگایا اور چند مشتعل لوگ متعلقہ تھانے پہنچ گئے تو پولیس کی کوشش ہوتی ہے کہ فوراً سے پہلے مقدمہ درج ہو جائے‘ بندہ گرفتار ہو جائے اور اللہ اللہ خیرسَلّا۔ سالوں بندے سڑتے رہتے ہیں لیکن کسی کی ہمت نہیں ہوتی کے انصاف کے پہلو کو اُجاگر کیا جائے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں