"AYA" (space) message & send to 7575

بدمعاشی کے دانتوں کو کھٹا کرنا

ایران سے متعلق اسرائیلی اور امریکی رویوں کو بدمعاشی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے؟ یہ کھلم کھلا گینگسٹرزم (Gangsterism) ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس بدمعاشی کے نیچے ایران دب نہیں رہا اور اسرائیلی جارحیت کے جواب میں اسرائیل پر میزائل داغے جا رہا ہے۔ اس مزاحمت کی وجہ سے اسرائیل اور امریکہ میں تھوڑی سی فرسٹریشن پیدا ہو رہی ہے۔ سوچا تو اسرائیل نے یہ تھا کہ سخت گیر ہوائی حملے ہوں گے اور ایرانی قیادت کے چوٹی کے افراد مارے جائیں گے تو ایران سے اپنی بات منوانا آسان ہو جائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ایران کا بہت نقصان ہوا ہے لیکن ایرانی حکومت اور ایرانی سپاہ ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ جیسے عرض کیا میزائل حملوں سے اسرائیل کا اچھا خاصا نقصان ہو رہا ہے۔
دنیا بھر کے یہودی ہٹلر کو خوامخواہ کوستے ہیں۔ کوئی بتائے تو سہی کہ ہٹلر اور بینجمن نیتن یاہو میں فرق کیا ہے؟ جو ہٹلر کی پالیسیاں تھیں وہی ریاستِ اسرائیل کی ہیں۔ تعداد تو یہی دی جاتی ہے کہ ہٹلر نے چھ ملین یہودیوں کو قتل کیا۔ تھوڑے سے عرصے میں اسرائیل نے غزہ کی سرزمین پر پچپن ہزار اشخاص جن میں بچے‘ بوڑھے اور خواتین شامل ہیں‘ کو مارا ہے ۔ دوسری جنگِ عظیم کی چھ سالہ مدت کو سامنے رکھیں اور غزہ میں اموات کی اوسط نکالیں تو حساب وہی بن جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہودیوں کے قتلِ عام کو ہولوکاسٹ کا نام دیا جاتا ہے اور جب بات غزہ کی ہوتی ہے تو تمام مغربی ممالک آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔ ہر اسرائیلی بربریت کا جواز وہ مغربی ممالک دیتے ہیں جو انسانی حقوق کے علمبردار بنے بیٹھے ہیں اور ہم جیسی قوموں کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے بھاشن دیتے رہتے ہیں۔
اسرائیلی منصوبہ بندی تو یہ تھی کہ ایرانی شہروں اور جوہری مراکز پر حملوں کے نتیجے میں اسرائیلی مقاصد پورے ہو جائیں گے۔ ایران کی جوہری افزائش کی صلاحیت ختم ہو جائے گی۔ ایسا ہو نہیں رہا۔ ایران نے نقصان تو اٹھایا لیکن شروع کے حملوں کے بعد سنبھل کر جوابی کارروائیاں ہونے لگیں۔ اسرائیل کو شاید اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ ایرانی اس پیمانے پر جوابی حملے کر سکیں گے۔ نیتن یاہو کی شروع دن سے یہ کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے امریکہ کو اس جنگ میں کھینچا جائے اور امریکہ سے ایران کے جوہری مراکز پر حملے کرائے جائیں۔
شروع کے ایک دو دنوں کے بعد جب ایسا لگ رہا تھا کہ ایران کی بڑی تباہی ہو گئی ہے تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی قیادت سے غیرمشروط طور پر شکست ماننے کا مطالبہ کر دیا لیکن جب ایرانی میزائل حملوں کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا تو صدر ٹرمپ کا راگ بھی بدلنے لگا۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے آپ کو مہلت دی کہ ایران پر حملہ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ دو ہفتے میں کریں گے۔ مافیا کے لوگ ایسا کرتے ہیں جیسے امریکہ اور اُس کے مغربی حواری کر رہے ہیں۔ ایران کو برا بھلا کہیں گے لیکن اسرائیل جس نے بغیر کسی وجہ کے ایران پر حملہ کیا اُس پر ان کے لبوں سے ایک لفظ تنقید کا نہیں نکلے گا۔ کس گھمنڈ سے کہتے ہیں کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہیں کر سکتا اور اسرائیل کے جوہری ذخیرے کے بارے میں اشارتاً بھی کچھ نہیں کہتے۔ جب اسرائیل کے پاس عام اندازوں کے مطابق سو ڈیڑھ سو سے زائد جوہری ہتھیار موجود ہیں تو کس منہ سے ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا جاتا ہے؟
بدمعاشو ںکا اور کیا وطیرہ ہوتا ہے؟ اپنے لیے دہرے معیار مقرر کرتے ہیں کہ جو ہم کر سکتے ہیں وہ تم نہیں کر سکتے۔ بڑی غلطی تو ایران کی یہ ہے کہ جب 2018ء میں صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی معیاد میں ایران سے جوہری معاہدہ ختم کیا تھا تو ایران کو جوہری عدمِ پھیلاؤ معاہدے (NPT) سے نکل جانا چاہیے تھا اور یورینیم افزائش پر پورے زور سے کام کرنا چاہیے تھا تاکہ جوہری بم اُس کے ہاتھ لگ جاتا۔ بہرحال گزرے وقت پر رونا کیا۔ لیکن ایک داد تو دینی پڑتی ہے کہ ایران کس ہمت سے اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کررہا ہے۔
بدمعاشی کا یہ عالم بھی ملاحظہ ہو کہ امریکہ اور باقی مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ اسرائیلی حملوں کے دوران ایران پھر سے بات چیت کی طرف آئے۔ یعنی اسرائیلی حملے جاری رہیں اور ایران دُم دبا کر مذاکرات کی میز پر آ جائے۔ ان عقل کے اندھوں سے کوئی پوچھے کہ آپ کیا واقعی سمجھتے ہیں کہ ایران ایسا کرے گا؟ یہی سمجھ ہے آپ کی ایرانی انقلاب کے بارے میں اور اتنا ہی کمزور آپ ایرانی قوم کو سمجھتے ہیں؟ ایران نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا لیکن یہ حتمی بات کہی جا سکتی ہے کہ حملے جاری رہیں اور ایران دبک کر مذاکرات پر آ جائے‘ ایسا ناممکن ہے۔ امریکہ میں بھی وہ لوگ جو بالکل عقل سے فارغ نہیں ہوئے‘ کو احساس ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا اور نہ ہو گا۔ دوسری حتمی بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ اکیلا اسرائیل ایران کو شکست نہیں دے سکتا۔ غزہ میں نہتے فلسطینیوں کے خلاف تو اسرائیل حملے جاری رکھ سکتا ہے لیکن ایران کے خلاف دیرپا جنگ جاری رکھنے سے اسرائیل فیصلہ کن نتائج حاصل نہیں کر سکتا۔ اسرائیل نے جنگ تو اس لیے شروع کی کہ ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کیا جائے۔ نطنز کے ایٹمی سنٹر پر حملے ہوئے ہیں لیکن تمام اندازوں کے مطابق زیر زمین انفراسٹرکچر کو نقصان نہیں پہنچا۔ اور جو جوہری پلانٹ فردو میں ہے اُس کے بارے میں تو دنیا کہہ رہی ہے کہ امریکن حملوں کے بغیر اُن کا نقصان نہیں ہو سکتا۔ تو فیصلہ نیتن یاہو نے نہیں صدر ٹرمپ نے کرنا ہے کہ امریکہ کو اس آگ میں کودنا ہے یا نہیں۔
حملے کا فیصلہ کوئی اتنی سادہ بات نہیں۔ جیسا کہ ایران نے اسرائیل پر جوابی حملے کیے ہیں تو امریکی یہ نہ سمجھیں کہ اُن کے بھاری بمبار ایرانی جوہری تنصیبات پر آگ برسائیں اور ایران چپ کرکے بیٹھا رہے گا۔ ایران نے جوابی حملے ضرور کرنے ہیں۔ لگ بھگ تیس چالیس ہزار امریکی فوجی اس خطے میں موجود ہیں۔ امریکی فوجی اڈے قطر‘ بحرین‘ یو اے ای وغیرہ میں ہیں۔ ایرانی قیادت نے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا لیکن ایران پر امریکی حملے کی صورت میں ایران کی طرف سے جوابی کارروائی ضرور ہو گی۔
جنگ تو اسرائیل نے شروع کی ہے‘ ایران پر تو جنگ مسلط ہوئی ہے اور اپنے دفاع میں ایران لڑ رہا ہے۔ آگے امریکہ کیا کرتا ہے یہ بھی اتنی سادہ بات نہیں کیونکہ ریپبلکن پارٹی میں خود رائے منقسم ہے۔ ایسے لوگ ہیں جو ایران پر حملے کی پُرزور حمایت کرتے ہیں لیکن صدر ٹرمپ کے نزدیک ایسے لوگ بھی ہیں جو ایسے حملے کی شدید مخالفت کررہے ہیں۔ اس گومگو کی حالت میں بہت سے امریکیوں کو عراق پر حملے کی داستان یاد آ رہی ہے۔ مفروضے یہ تھے کہ عراق پر حملہ جلد ہی اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا لیکن امریکہ عراق میں گیا تو پھنستا ہی چلا گیا۔ یہی کہانی ویتنام کی تھی یہی افغانستان کی۔ ٹرمپ کا تو نعرہ تھا کہ مشرقِ وسطیٰ کی دائمی جنگوں سے وہ امریکہ کو نکالیں گے۔ اور یہاں نیتن یاہو اور اسرائیلی لابی کی پاگل پن حد تک کوشش ہے کہ امریکہ کو گھسیٹ کر اس جنگ میں لائیں۔ سوال لہٰذا یہ نہیں کہ ایرانی عزم برقرار رہتا ہے یا نہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نیتن یاہو اور اسرائیلی لابی کا سامنا کر سکتے ہیں یا نہیں۔ یعنی امتحان ایران کا نہیں‘ صدر ٹرمپ کا ہے۔ تمام جنگوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ جنگوں میں جانا آسان ہوتا ہے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں