کیا گھمنڈ ہے لاہور کو اپنے پہ کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا کچھ نہیں دیکھا۔ اگلے روز جب لاہور کو جانا ہوا تو دیوانِ غالب کا کچھ اچھا ایڈیشن لینا چاہا۔ شاعرِ محترم شعیب بن عزیز کو بھی فون کیا اور اُنہوں نے ایک مشہور دکان کا بتایا۔ وہاں گئے اور یقین مانیے کوئی ڈھنگ کا ایڈیشن نظر نہ آیا۔ ایک مہنگی سی طباعت ہاتھ میں تھما دی‘ اچھی تھی‘ چغتائی کی تصویریں بھی تھیں لیکن غزلوں کی طباعت ایسی کہ ایک صفحے سے دوسرے تک غزل چلی جاتی اور پھر وہیں سے ایک اور غزل شروع ہوتی۔ عرض کیا یہ طباعت ہمارے کام کی نہیں اور وہاں سے چلے آئے۔
یہ تو ایسا ہی ہے کہ آپ لندن جائیں اور شیکسپیئر کی کوئی عمدہ جلد نہ ملے۔ شیکسپیئر کی کئی جلدیں ہمارے پاس موجود ہیں اور خوبصورتی میں ہر جلد اپنا مقام رکھتی ہے۔ اور یہاں یہ عالم ہے کہ ایک تو لاہور میں کتب کی اتنی دکانیں ہی نہیں رہ گئیں۔ جو تھیں اُجڑ گئیں اور اُن کی جگہ کمرشل عمارتیں تعمیر ہو گئیں۔ ہال روڈ چوک میں صدیقی نام کی پرانی کتب کی دکان ہوا کرتی تھی۔ متعدد بار وہاں سے خریداری کی لیکن اب کے گئے تو وہ دکان بھی غائب۔ اور پھر لاہوریے کہتے ہیں کہ ہمارا بڑا کمال کا شہر ہے۔ جس شہر میں موزوں تعداد میں کتب خانے نہ ہوں‘ کوئی ڈھنگ کی لائبریری نہ ہو‘ اور مے کدے سرے سے ہی نہ ہوں وہ شہر کہلانے کے لائق بنتا ہے؟
جو عمارتیں کھڑی ہو گئی ہیں اور دھڑا دھڑ کھڑی ہوتی جا رہی ہیں اُنہیں ہم نے چاٹنا ہے؟ مے کدوں کی تو دور کی بات ہے پورے مال پہ جی پی او چوک سے لے کر ہوائی اڈے تک ایک کام کا چائے خانہ نہیں رہ گیا۔ چائے یا کافی کا کپ پینا ہو تو لاچار آواری جائیں یا پی سی۔ اور ان جگہوں میں دام کیا ہوتے ہیں آپ جانتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ دلی کی خان مارکیٹ جاؤں تو دیوانِ غالب کی کوئی اچھی طباعت مل جائے۔ لیکن جس قسم کے ڈھول ہم دونوں ممالک کے درمیان اب پیٹے جا رہے ہیں کون دلی جائے گا اور خان مارکیٹ کا طواف کیا ہو گا۔
غالب کا بھوت اس لیے سوار ہوا کہ یوٹیوب پر ایک سوامی جی کو سننے کا موقع ملا۔ نام تھوڑا عجیب سا ہے‘ سوامی اُما د اَک۔ سوامی جی مجھے جاذب نظر لگے‘ آواز بھی بہت مسحورکن اور نسوانی قسم کی ہے۔ لیکن وہ اپنے آپ کو مرد کہتے ہیں۔ بہرحال غالب پر سوامی اُما کو جو سنا تو یوں سمجھیے ہم برباد ہو گئے۔ کیا الفاظ‘ کیا خیالات‘ گفتگو میں کیا روانی۔ غالب پر کئی مکالمے اُن کے یوٹیوب پر موجود ہیں۔ ہر ایک ایسا کہ سننے لگیں تو ختم ہونے تک آپ ہٹ نہ سکیں۔ پہلی بات تو ایک دم ظاہر ہو جاتی ہے کہ میر تقی میر کا پورا کلام‘ مرزا غالب کا پورا دیوان اور علامہ اقبال کی تمام شاعری سوامی اُما کے حافظے میں محفوظ ہے۔ گفتگو میں کبھی غالب کا شعر آ رہا ہے یا ذکر اقبال کا ہو رہا ہے یا حوالہ شہنشاۂ سخن میر تقی میر کا دیا جا رہا ہے۔ گفتگو میں کوئی رکاوٹ یا لکنت نہیں‘ روانی ایسی جیسے کوئی چمکیلا دریا بہہ رہا ہو۔ غالب کے اشعار پڑھنے کا وہ انداز کہ ہم جیسے غالب کے حوالے سے نسبتاً اَن پڑھوں کو بھی شعر کا مفہوم سمجھ آنے لگے۔
مثال کے طور پر یہ شعر کب سے سنتے آرہے ہیں 'تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم‘ میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے‘۔ ہمیشہ سمجھتے آئے کہ عشق معشوقی کی بات ہو رہی ہے۔ سمجھ تب آئی جب سوامی جی نے بتایا کہ غالب مخاطب ہیں خدا کو کہ تجھ سے ہم کیا کہیں۔ آگے بات نامہ بر کی ہوتی ہے‘ یعنی پیغام پہنچانے والے کی۔ اور اس طرف اشارہ کرکے غالب کہتے ہیں کہ میرا سلام کہیئو اگر نامہ بر ملے۔ یقین مانئے جب اس مفہوم کی تھوڑی سی سمجھ آئی تو یوں لگا جیسے غرق ہو رہا ہوں۔کیا انداز مرزا کا اور وہی یہ بات کہہ سکتے تھے کہ میرا سلام کہیئو اگر نامہ بر ملے۔
کتنی بار اپنے مکالموں میں سوامی اُما غالب کا یہ شعر پڑھتے ہیں‘ یہ مسائلِ تصوف یہ ترا بیان غالب‘ تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا۔ ہنس ہنس کے بادہ خواری کا ذکر ہوتا ہے کہ تمام عمر مرزا غالب تنگدستی کا شکار تو رہے لیکن آخر دم تک عادات اُن کی شاہانہ رہیں۔ نوجوانی میں ماں باپ کا سایہ اٹھا تو کوٹھوں کا طواف ہونے لگا۔ مے پرستی تب سے مزاج کا حصہ بن گئی لیکن تنگدستی میں بھی نقشہ سکاٹ لینڈ کا ہی سامنے رہا۔ گھٹیا قسم کی مے پرستی یعنی جیسا کہ ہم جیسوں کی‘ مرزا غالب نے کبھی ایسا نہ کیا۔ رسم بادہ خواری کا رشتہ رہا تو ہمیشہ سکاٹ لینڈ سے اور یہ مشہور قصہ تو عالم غیب میں بسنے والوں کو بھی معلوم ہے کہ کہیں سے تین ہزار روپے کا وظیفہ ملا جو کہ اُس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی تو اُن پیسوں سے ساری شراب خرید لی۔ گدھوں پہ لاد کر لانی پڑی اور جب بیگم نے دیکھا تو چلا اُٹھیں کہ گھر میں کھانے کو کچھ ہے نہیں اور آپ یہ حرکت کر رہے ہیں۔ اور اس پر غالب کا وہ لافانی جواب کہ رزق کا وعدہ تو رازق کا ہے‘ پلانے کا وعدہ اُس نے نہیں کیا۔
اس ساری گفتگو کا مدعا یہ کہ ہم جیسے جن کو غالب کے اشعار آسانی سے سمجھ نہیں آتے اُن کیلئے سوامی اُما سے بہتر کوئی گُرو یا استاد ہو نہیں سکتا۔ آزما لیجئے اور مزہ نہ آئے تو پھر کہیے۔ غالب کے حالاتِ زندگی بیان ہو رہے ہیں‘ اشعار کی تشریح ہو رہی ہے اور ذہن کے دریچے کھلتے جا رہے ہیں اور یہ بات بھی دھیرے دھیرے سمجھ آ رہی ہے کہ دیوان اتنا طویل تو نہیں‘ مختصر سا ہے لیکن دو سو سال سے دنیا کو پاگل کیے ہوئے ہے۔ بس چلے تو سوامی جی کے مکالمے ہمارے کالجوں میں اردو نصاب کا حصہ بنا دیے جائیں۔
والدین نہ رہے‘ سات بچوں کی کم عمری میں وفات ہو گئی‘ اپنے بھانجے زین العابدین کو گود میں لیا اور بیٹا سمجھا۔ اور زین العابدین جب 35سال کے ہوتے ہیں وہ بھی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ کیا کیفیت غالب پر گزری وہ زین العابدین کی موت پر جو نوحہ لکھا اُس سے کچھ پتا چلتا ہے ''جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے‘ کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور‘‘۔ پوری غزل سامنے آئے تو انسان رو اُٹھتا ہے۔ اور ساتھ ہی حیرانی اندازِ بیان پہ ختم نہیں ہو پاتی۔ سوامی اُما یہ بھی کہتے ہیں کہ پتا نہیں کیا سوچ کر مرزا نوشا نے اپنا تخلص غالب رکھا۔ یعنی وہ جو ہر چیز پہ غالب آ جائے۔ اور ہوا یہی ہے کہ شاعری کا کون سا مفہوم ہے جس پر وہ غالب نہ ہوئے۔
زندگی میں اتنا دکھ سہہ کر ہی غالب خدا سے یوں مخاطب ہو سکتے ہیں''گرنی تھی ہم پہ برق تجلی نہ طور پر‘ دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر‘‘۔ یعنی کوہ طور نے تیرا جلوہ کیا سہنا تھا۔ بجلی گرانی تھی تو ہم پہ کہ ہم سہہ لیتے۔ اور پھر کیا کہتے ہیں دوسری سطر میں کہ ساقی پینے والے کے ظرف کے مطابق بادہ ڈالتا ہے۔ مانیے گا کہ ایسی بات اور اس انداز میں غالب ہی کہہ سکتے ہیں۔