"AYA" (space) message & send to 7575

اطاعت کے نئے انداز

بھاری لفظ لگے تو اطاعت کی جگہ سمجھداری استعمال کر لیں‘ ملکی تناظر میں مفہوم دونوں الفاظ کے ایک ہی بنتے ہیں۔ بہت سے لوگ کچھ دیر سے سمجھے لیکن دھیرے دھیرے سب ہی نئی حقیقتوں کو سمجھنے لگے ہیں۔ کم فہمی میں یہ دور عارضی لگتا تھا لیکن اب سمجھ آ رہی ہے کہ یہ دور لمبا رہے گا اور کسی اہلِ کرم کا کوئی ارادہ نہیں اسے مختصر کرنے کا۔ اب تو رونے پیٹنے میں بھی وہ شدت یا جذبہ نہیں رہا جو شروع کے دنوں میں معمول سا بن گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے حالیہ فیصلے پر کسی کو حیرانی ہوئی ہے؟ مخصوص نشستوں کی جو بندر بانٹ ہونی ہے اُس پر بھی کوئی حیرانی نہیں۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کیا ہے اور مقصد اُس کا کیا ہے اُس پر بھی آہ وبکا رسمی نوعیت کی لگتی ہے۔
زمانے میں کیا نفاست آ گئی ہے۔ گزرے وقتوں میں سیاسی محاذ پر گھڑ سواری ہوتی تو پتا چلتا تھا کہ سیاست کا تختہ پلٹا گیا ہے اور ایک نئی بساط بچھائی جا رہی ہے۔ ٹی وی اور ریڈیو پر ہم وطنوں سے مخصوص خطاب ہوتا یہ بتانے کے لیے کہ اُن کی قسمت میں کیا نکھار آنے والا ہے۔ سب طور طریقے تبدیل ہو چکے۔ سب کچھ ہو جانے کے باوجود کوئی تقریر نہ کوئی شور شرابا۔ دیکھنے کو ہر چیز وہی‘ کیا شوریٰ کیا عدالتیں کیا وہ کتاب جسے کوچۂ دلفریبی میں آئینِ پاکستان کہا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ساتھ کچھ خاص نہیں ہوا‘ یعنی کوئی نیا پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس نافذ نہیں ہوا۔ لیکن کچھ ایسا نایاب عطر میڈیا کو سونگھایا گیا ہے کہ احتجاج تو دور کی بات ہے اُف کرنے کی نوبت نہیں آ رہی۔ لیپا پوتی وہی لیکن حقیقت نہایت ہی نفیس انداز میں بدل گئی ہے۔ اخبارات اور دوسرے ذرائع موجود ہیں‘ سیاسی تجزیوں کے نام پر ایک بے ضرر قسم کی کُشتی سکرین پر جاری رہتی ہے لیکن کیا صراطِ مستقیم اور کیا اُس پر احتیاط سے چلنا۔ کیا کمال کہ سب کچھ ہو بھی گیا اور دیکھنے میں کچھ بھی نہیں ہوا۔
یہ کمال بھی ملاحظہ ہو کہ گزرے ادوار میں کوئی جہادِ افغانستان ہوتا تھا تو ہمارے کرم فرماؤں کو وائٹ ہاؤس کی ضیافتیں نصیب ہوتی تھیں۔ روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو مرحوم ومغفور مردِ حق یعنی جنرل ضیا الحق کا مرتبہ بلند ہوا اور وائٹ ہاؤس سے خصوصی تعلقات استوار ہوئے۔ روسیوں کے افغانستان سے انخلا کے کافی دیر بعد امریکیوں نے افغانستان پر حملہ کیا تو جنرل پرویز مشرف کے نصیب جاگ اُٹھے اور قربتِ امریکہ اُن کو حاصل ہوئی۔ اب کے دیکھئے کہ نہ جہادِ افغانستان نہ افغانستان پر حملہ اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہم پر بچھے جا رہے ہیں اور ایک سے زائد بار ہمارے لیے اچھے کلمات ادا کر چکے ہیں۔ نصیب کی بات ہوتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وائٹ ہاؤس کی قربت حاصل ہوتی ہے تو اُس کا ایک خاص معنی اندرونِ پاکستان لیا جاتا ہے۔ اور یار لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ رائج سیاسی حقیقتوں پر پختہ سیمنٹ کی تہہ جما دی گئی ہے۔
تمہید باندھی یہ درخواست کرنے کے لیے کہ جتنی بھی خوش فہمی بچی ہوئی ہے اُسے کسی الماری میں اچھا خاصا تالا لگا کر بند کر دیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ آگے صبر کا امتحان کوئی معمولی نوعیت کا نہ ہوگا۔ یہ سفر لمبا ہے‘ خاصا لمبا اور جتنی جلدی اس کی طوالت کا ادراک کر لیا جائے اتنا ہی ذہنی و جسمانی صحت کے لیے بہتر ہوگا۔
رموزِ مصر ہمارے سامنے ہیں۔ جذبۂ شوق کے کیسے مناظر قاہرہ کے تحریر سکوائر میں نہیں دیکھے گئے۔ خلقِ خدا اتنی جمع ہوتی تھی کہ انقلابِ فرانس کا گماں گزرتا۔ صدارتی انتخاب بھی منعقد ہوا اور عوام کی اکثریت نے ایک مقبول جماعت کے حق میں ووٹ ڈالے۔ اور پھر تاریخ کا پہیہ اُلٹا پھرنے لگا تو مصری عوام کا محبوب صدر سلاخوں کے پیچھے ایسے گیا کہ اپنی ناگہانی موت کے ساتھ ہی نکل سکا۔ اور پھر اُس سرزمین پر دورِ اصلاح شروع ہوا جس کی طوالت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لیکن ایسے سامنے ہوتے ہوئے واقعات کا ادراک یہاں کیا کرنا۔ اور یہ بھی تو ہے کہ مصر دُور اَست۔ وہ کہاں اور ہم کہاں لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہاں بھی نئی حقیقتوں کا میدان سجتا چلا گیا۔ رونے کی بات نہیں سمجھنے کی ہے۔
پنجاب اسمبلی میں کوئی اتنا بڑا واقعہ نہیں ہوا لیکن اُس کا مفہوم کافی گہرا ہے۔ سرکش جماعت کے متعدد ممبران کے خلاف پنجاب اسمبلی کے سپیکر ہمارے دوست ملک احمد خان نے تادیبی کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو خطوط ارسال ہوئے ہیں اور اسمبلی کارروائی سے اُن ممبران کا کچھ دنوں معزول ہونے کا بھی اعلان ہوا ہے۔ جرم یہ کہ ہر دلعزیز چیف منسٹر صاحبہ کی شان میں اُنہوں نے گستاخی کی‘ یعنی اُن کی تقریر میں خلل ڈالنے کی کوشش کی۔ یاد نہیں پڑتا کہ تقریر کے دوران آوازے کسنے پر ایسی سخت کارروائی کبھی ہوئی ہو۔ یہ دھاک بٹھانے کا ایک نمونہ ہے کہ عام وخاص کو خبر ہو کہ موجودہ نظام مضبوط پیروں پر کھڑا ہو چکا ہے اور کسی کی کوئی مجال نہ ہو کہ ایسی گستاخی پھر سے سرزد ہو۔ چھوٹا سا واقعہ جس نے سوچنے پر مجبور کیا کہ فارم 47 والے طعنے اب قصۂ پارینہ ہوئے۔ بے شک کوئی بٹھایا گیا ہو لیکن اعتماد تو دیکھئے۔ بٹھائے جانے والوں کا اعتماد ووٹ لینے والوں کے اعتماد سے کہیں زیادہ ہو چکا ہے۔ اور تو اور مجاہدینِ یوٹیوب بھی احتیاط کے راستوں پر چلنے لگے ہیں۔ جو باہر بیٹھے ہیں اُن کے نشتر ضرور چل رہے ہیں لیکن اگر میں غلطی پر نہیں اُن کے سامعین کی تعداد بڑھ نہیں رہی۔ جن مخصوص حالات سے مملکت کا گزرنا ہو رہا ہے اُن کا اثر غالباً سب پر پڑ رہا ہے۔
ایسے میں حالات سے لڑنا کیا‘ سمجھوتا ہی کرنا ہے۔ بہت پہلے بات سمجھ گئے تھے اور ہلکے انداز سے کہتے بھی رہے کہ یہاں ہونا ہوانا کچھ نہیں‘ جیسے چل رہا ہے سماں ایسا ہی چلتا رہے گا۔ لہٰذا کتب کا شوق مرا نہیں تو کچھ وقت پڑھنے میں گزر جائے۔ فکرِ شب ہو کیونکہ بے مزہ شب انسان پر بھاری گزرتی ہے۔ داستانِ مملکت پاکستان کی اتنی سمجھ تو آ چکی کہ ہمارے حالات دائروں میں گھومتے آئے ہیں۔ حالات آگے کو نہیں جاتے بلکہ اپنے آپ کو دہراتے رہتے ہیں۔ ایوب خان سے لے کر آج تک چھوٹے موٹے فرق کے ساتھ وہی دائرے‘ وہی اصطلاحیں‘ نظریات کی وہی تکرار۔ گھوم گھوم کے اُسی مقام پر واپس آنا جہاں سے سفرِ کارواں شروع ہوا۔ یہی ہماری کہانی لگتی ہے اور اسی میں ہم جیسوں کی عمریں بیت گئیں۔ اب تو یہ خیال بھی نہیںہوتا کہ کچھ کہا جائے کیونکہ کہنے کو کچھ رہ نہیں گیا۔ ہم جیسوں کی باتیں بھی وہی پرانی۔ بھلے وقت تھے جب اندھیری راتوں کے باوجود لاجواب شاعری کی کرنیں پھوٹتی تھیں۔ ایسا زمانہ آیا ہے کہ فیض نہ فراز نہ کوئی حبیب جالب۔
بتایا جاتا تھا کہ سوشل میڈیا نے عوام کو باخبر کر دیا ہے۔ قبرستان کا سناٹا اور باخبر ہونے کا استدلال۔ ہماری ناسمجھ رائے میں تو سوشل میڈیا نے سیاسی گفتگو کو ختم کر دیا ہے۔ جب ذریعۂ اظہار صرف اخبارات ورسائل ہوا کرتے تھے بحث مباحثے کا معیار خاصا دیدنی ہوتا۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سیاسی ہلچل رہتی تھی۔ مزدور تنظیموں کی کچھ آواز سنائی دیتی تھی۔ اخبارات میں چھپے مضامین کا مطالعہ ہوا کرتا تھا۔ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے اچھی نثر میں لکھے جاتے اور سرکاری اخبار پاکستان ٹائمز میں بھی فیصلوں کی تفصیل چھپا کرتی تھی۔ سوشل میڈیا کی سیاست نے تو سب کچھ مار دیا ہے۔ مدح و ستائش کا اتنازورکہ ذہنوں کا کند ہونا لازمی بن جاتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں