جیسے انسانوں کی عادات عمر گزرنے کے ساتھ مستحکم ہو جاتی ہیں معاشروں کے طور طریقے بھی وقت گزرنے کے ساتھ پختہ ہو جاتے ہیں۔ روشیں کردار کا حصہ بن جاتی ہیں۔ جو بے ہنگم طریقے ہم اپنے معاشرے میں دیکھ سکتے ہیں یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ ہماری اصلیت کی نشاندہی ہے۔ بہتوں کو یہ بات بُری لگے گی لیکن انگریز راج نے ہمارے شکست خوردہ معاشرے میں کسی حد تک نظم وضبط پیدا کیا تھا۔ انگریز چلے گئے تو اس نظم وضبط اور ترتیب کے اثرات کچھ سالوں تک نظر آتے رہے۔ پھر جوں جوں اُس مداخلت کے آثار مدھم پڑے تو ہماری قدرتی روشیں سامنے آنے لگیں۔ اور آج صورتحال یہ ہے کہ ہمارا اصلی معاشرتی کردار پوری آب وتاب سے ہر شعبۂ زندگی میں نمایاں ہے۔
آپ کہیں گے کہ ہمارے ہوابازوں نے تو بھارت کے جہاز مار گرائے تھے۔ بالکل ایسے کیا لیکن یہی کارنامہ ہماری اصلی حالت پر روشنی ڈالنے کا سبب بنتا ہے۔ ہمارے پائلٹوں اور ایئر فورس کا ماحول وہ نہیں ہے جو مجموعی طور پر ہمارے معاشرے کا ماحول ہے۔ جیسے ایک خول میں کوئی چیز پنپتی ہے ہماری ایئر فورس کی اپنی ایک الگ دنیا ہے جس کا معاشرے کے عمومی روشوں سے کوئی تعلق نہیں۔ راجہ بازار یا آبپارہ مارکیٹ سے آپ ای نائن میں واقع ایئر فورس ہیڈ کوارٹر جائیں تو یوں محسوس ہوگا کہ ایک دنیا سے ایک اور دنیا میں قدم رکھ رہے ہیں۔ ٹریفک کا انداز مختلف ہوگا‘ صفائی کا عالم مختلف۔ پولی کلینک ہسپتال سے وہاں کے ہسپتال کو جائیں تو یہی تاثر آپ کے ذہن پر حاوی ہو گا۔ لہٰذا اس حالیہ مختصر سی جنگ میں ہماری ایئر فورس کی کامیابی کو معاشرے کی کسی لحاظ سے کامیابی نہ سمجھا جائے۔ ہم ایک پسماندہ ملک ہیں اور ستتر سال کی بظاہر آزادی نے اس امر کو تبدیل نہیں کیا۔
ہمارے دوست ڈاکٹر رسول بخش رئیس اگلے روز رونا رو رہے تھے کہ لاہور کی نہر کے ساتھ الیکٹرک بسوں کیلئے ایک اور لین بنی تو درختوں کی تباہی ہو جائے گی۔ نہایت دردمندانہ انداز میں اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ نہر کے ساتھ ایک زمانے میں کیا ماحول تھا اور ترقی کے نام پر اُس ماحول کا کیا حشر ہوا ہے۔ ہمارے دوست خالد مسعود ہر دوسرے کالم میں ملتان کی ماحولیاتی تباہی کا ذکر کرتے ہیں کہ جو کچھ ملتان میں تھا اُس کے ساتھ کیا ہوا اور کس انداز سے درختوں اور باغات کو اجاڑا گیا۔ ایسی تحریروں کو پڑھ کر دکھ تو ہوتا ہے لیکن حیرانی بھی ہوتی ہے کہ ہمارے دوستوں کو اتنا احساس بھی نہیں کہ درختوں اور ماحولیات کی تباہی ہماری اصلی فطرت کا ایک قدرتی اظہار ہے۔ ہم ایسے ہی ہیں۔ ذوق نام کی چیز ہمارے معاشرے کی ذہنیت کا حصہ نہیں۔ عام مخلوق کو تو چھوڑیے‘ ہمارے حکمرانوں یا جو اپنے آپ کو اشرافیہ سمجھتے ہیں‘ کے رویوں کو دیکھ لیں۔ ہمارے دیہات میں تو لوگ درختوں کو کاٹتے ہیں لیکن بڑی بڑی ہاؤسنگ سکیموں کو دیکھ لیں‘ ڈویلپمنٹ کے نام پر ان سوسائٹیوں نے کون سی تباہی ہے جو نہیں مچائی۔ لیکن ایسا کرنے کیلئے ماحول کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟ سرکار کی غفلت اور بے اعتنائی سے۔ ہمارا حکمران طبقہ حساس سوچ سے خالی ہے۔ خالد مسعود اسلام آباد لاہور موٹروے پر سفیدہ درختوں کی افزائش کا روتے ہیں۔ بھلا جاتی امرا تو جائیں‘ وہاں کون سے درخت مین گیٹ سے لے کر اندر تک لگے ہیں؟ یہی سفیدے کے۔ عرض کرنے کا مطلب یہ کہ جہاں چالیس سالہ دورِ حکمرانی پر محیط حکمرانوں کی سمجھ کا یہ عالم ہو تو باقی معاشرے پر کیا الزام دھرا جا سکتا ہے؟ جنہوں نے اپنے گھروں میں یہ کچھ کرنا ہے اُنہیں کسی دوسری سڑک کے گرد بربادی کے آثار کا کیا احساس ہو سکتا ہے؟
زندگی میں کئی بڑے گھرانوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ کئی ایسے نامور گھرانے بھی دیکھے ہیں جن میں دنیا کی ہر چیز نظر آئے گی: ببر شیروں کے مجسمے‘ تیتر‘ چکور اور ہرن۔ جسے کتاب کہتے ہیں وہ آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی یعنی ان جیسے ممالک میں پرانے گھروں میں باقاعدہ لائبریریاں ہوتی ہیں۔ میرے علم میں دو ہی پاکستانی لیڈر نما انسان گزرے ہیں جو دیگر چیزوں کے علاوہ اپنے کتب خانوں کے حوالے سے جانے جاتے تھے‘ ذوالفقار علی بھٹو اور سردار شیرباز مزاری۔ یہاں اقتدار کے ایسے بڑے ٹھکانے دیکھے ہیں جہاں کتب خانوں کا تکلف برتنے کا کوئی احساس نہیں ملتا۔ ایک ایسے معاشرے سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟ حکمران طبقہ ایک ایسا ہو جس کا موسیقی‘ آرٹ اور فنِ تحریر سے کوئی خاص شغف نہ ہو اُس کے سامنے یہ رونا کہ بے دریغ ہاؤسنگ سوسائٹیاں کیوں بن رہی ہیں اور ماحولیات کا کیوں حشر کیا جا رہا ہے بیکار کا کام ہے۔
مغل کہیں جاتے تو باغ لگاتے۔ تزکِ بابری میں کتنی جگہ ایسا ذکر ملے گا کہ فلاں جگہ پہنچے تو قدرتی نظارہ بہت اچھا تھا اور ایک باغ لگانے کا ہم نے حکم دیا۔ کلرکلہار میں باغِ صفا کا اسی طرح سے شہنشاہ بابر نے کہا تھا۔ واہ کا باغ‘ ہرن مینار کے گرد جو کچھ تھا‘ بڑے باغات کو تو چھوڑیے‘ چھوٹے مقامات پر بھی باغ لگائے گئے۔ ہم جو اپنے آپ کو مغلوں کا جانشین سمجھتے ہیں ہماری کیا حالت ہے؟ ہمارے حکمرانوں کی سوچ کی سطح کیا ہے؟ فیلڈ مارشل ایوب خان اسلام آباد کی بنیاد رکھنے چلے تو یہ جو ایک بیماری ہے جس کا نام جنگلی شہتوت ہے اس کے بیج پورے اسلام آباد میں پھیلائے گئے کہ اس سے زمین جلد سبز وشاداب ہو گی۔ اس بیماری نے اسلام آباد کے قدرتی حسن پر وہ کلنک لگائی کہ آج تک اُس سے نمٹا جا رہا ہے۔ مارگلہ پہاڑیوں سے کتنے ہی قدرتی چشمے پھوٹتے تھے۔ یہ ہمارا اعزاز ہے کہ ہر آخری چشمے کو گندگی سے آلودہ کر دیا ہے۔ جس دارالحکومت کی خوبصورتی کے اتنے دعوے کیے جاتے ہیں اس میں پچاس سال بعد بھی فضلے کو ختم کرنے کا کوئی نظام نہیں بنایا جا سکا۔ ضیا الحق آئے تو مارگلہ پہاڑوں کے ایک طرف جی ٹی روڈ کے قریب ایک سیمنٹ فیکٹری کی منظوری دے دی۔ لائم سٹون کی کھدائی سے اُس طرف کا پہاڑ کھایا جا رہا ہے لیکن کسی کو کیا پروا۔
گلگت بلتستان سے لے کر بحیرۂ عرب تک‘ تفتان سرحد سے لے کے تھرپارکر تک‘ پاکستان کی سرزمین کو پلاسٹک شاپروں اور پلاسٹک کی دیگر اشیا کی یلغار کا سامنا ہے۔ ہمارے دریا اور نہریں پلاسٹک کی وحشت سے بھر چکے ہیں۔ کراچی کا ساحل اس موذی مرض کی گرفت میں آ چکا ہے۔ سمندر اور سمندر کی مچھلیوں کو بربادی کا سامنا ہے اور خالد مسعود ملتان کے آموں کے باغات کا رو رہے ہیں۔
دونوں کامریڈوں سے میری التماس ہے کہ مملکت کی واہیات سرگرمیوں کے بارے میں کڑھنا چھوڑ دیں کیونکہ اس سے کچھ نہیں ہونا‘ کسی کے کان پر جوں نہیں رینگنی۔ یہاں یہی کچھ ہوتا رہے گا کیونکہ ہماری ترجیحات ہی اور ہیں۔ اوپر سے نیچے جائز وناجائز طریقوں سے دولت سمیٹنے کا ایسا چسکا اس معاشرے کو لگ چکا ہے کہ اب یہ لاعلاج ہے۔ یہاں کسی لینن یا چیئرمین ماؤ نے تو آنا نہیں۔ ہمارے بائیں بازو کے ساتھی ایک زمانے میں انقلاب کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ وہ زمانہ گیا اور اُس کے ساتھ انقلاب کے خواب بھی گئے۔ بہت کچھ یہاں ہو سکتا تھا۔ مغربی پاکستان کا وسیع علاقہ اور اس پر آبادی صرف ساڑھے تین کروڑ۔ دیکھتے ہی دیکھتے آبادی آج چوبیس کروڑ تک پہنچی ہوئی ہے۔ اور یہ ہمارے سامنے کی بات ہے۔ تو کیا پوچھتے ہو سفرِ کارواں اور احوالِ دل۔ اک زمانہ لٹا دیا ہم نے‘ باقی تو چھوٹی باتیں ہیں۔