"AYA" (space) message & send to 7575

اصل دہشت باتھ روموں کی

صحیح لفظ ٹائلٹ ہے لیکن زبان پر کبھی اچھا نہیں لگا۔ ایک دو بار جیلیں بھگتی ہیں حوالات بھی‘ گرفتاری کا ڈر لہٰذا اتنا نہیں۔ وہاں بھی کتاب پڑھی جا سکتی ہے‘ چائے کا ایک عدد اچھا کپ مل جائے تو اور کیا چاہیے۔ مصیبت باتھ روم کی ہوتی ہے۔ تھانوں کا تو حال ہی نہ پوچھیں‘ اب جا کے کہیں ایس ایچ او صاحبان کے دفتروں کے ساتھ باتھ روم کی سہولت مہیا ہوئی ہے۔ لیکن تھانوں کے مجموعی باتھ روموں کا حال نہ پوچھئے۔ 1981ء میں اسلام آباد میں گرفتاری کا مسئلہ آیا تو رات تھانہ آبپارہ میں گزارنی پڑی۔ لکڑی کے بینچ پر رات کیسے گزری وہ الگ بات ہے لیکن صبح محرر صاحب سے باتھ روم کا پوچھا تو وہاں جو منظر دیکھا ذہن سے کبھی نہ جائے گا۔ کم از کم تین چار انچ پانی سے پورا فرش بھرا ہوا اور بیچ میں گندگی تیرتی ہوئی۔ ایک نظر ڈالی اور واپس بھاگنا پڑا۔
جیلوں میں کچھ سہولت مل جائے اور وضع کردہ طریقوں پر عمل کرنے سے مل بھی جاتی ہے تو اور بات ہے لیکن عام بیرکوں میں مقررہ تعداد سے زیادہ قیدی ٹھونسے ہوئے اور کونے میں کہیں چھوٹی سی دیوار کے پیچھے باتھ روم نما جگہ۔ ہٹے کٹے نوجوانوں کیلئے اتنا پرابلم نہ ہو گا لیکن ہم جیسوں کا مسئلہ یکسر مختلف ہے۔ صبح نخروں کے پورے ایک مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ نیم گرم پانی کے دو گلاس اور اُن میں کچھ لیموں نچوڑے ہوئے‘ دو کپ کالی کافی‘ اخبارات اور حالاتِ حاضرہ کا مطالعہ اور پھر کہیں جا کے طبعٔ نازک کی تکمیل۔ اس سارے سلسلے میں تھوڑا سا بھی خلل پڑ جائے تو بگاڑ ہو جاتا ہے۔
کچھ تین چار سال پہلے اسلام آباد کے شہزاد ٹاؤن تھانے میں دو تین راتیں گزارنی پڑیں۔ دن کو ملاقاتیں ہو رہی ہیں‘ ضرورت سے زیادہ چائے آ رہی ہے‘ یعنی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا۔ لیکن وہی مسئلہ باتھ روم والا‘ ایس ایچ او کے کمرے کے ساتھ ایک باتھ روم تھا اور صبح صبح ہمارے استعمال میں ہوتا لیکن وقفے وقفے سے ایس ایچ او صاحب کا کوئی چہیتا آتا وہ بھی دروازے پر چٹکی لگا لیتا۔ باقی تھانے کا کیا حال تھا نہیں جان سکا لیکن تھانہ آبپارہ سے مختلف نہ ہوگا۔ آج کل حالت یہ بنی ہوئی ہے کہ کہیں چھوٹا سا بھی اجتماع ہو تو فکر رہتی ہے کہ دھر نہ لیے جائیں۔ دھر لیے جانے کی کوئی بڑی بات نہیں لیکن یہ فکر ضرور ہوتی ہے کہ پتا نہیں کس تھانے میں جانا پڑے اور وہاں باتھ روم کا پتا نہیں کیسا انتظام ہو۔
ہمارا مسئلہ چلیں ایک طرف رہا‘ جن پولیس والوں کو ان حالات میں رہنا پڑتا ہے اُن پر کیا گزرتی ہو گی۔ جو انسان ہمارے تھانوں کے باتھ روموں کا استعمال کرے اُس کی ذہنی حالت پر کیا اثر پڑتا ہو گا۔ جو تھانہ آبپارہ کا ذکر ہوا ہے صبح ہوئی تو محرر صاحب نے اپنے لیے ناشتہ منگوایا۔ وہ جو چھوٹی پیالی چائے والی ہوتی ہے وہ آئی اور اُس کے ساتھ شاید ایک دو رَس تھے۔ مجھے بھی اُنہوں نے چائے آفر کی لیکن اُن کی چائے کی پیالی دیکھ کر میں نے کیا لینی تھی۔ باتھ روم ویسا ہو جیسا کہ وہاں کا ہے اور پھر ناشتہ ایسے ہو جیسا کہ میں دیکھ رہا تھا‘ انسان کا ہوش ٹھکانے رہ سکتا ہے؟ اور پھر آپ کا واسطہ پبلک سے پڑے تو آپ کا رویہ اُن کی طرف کیا ہو گا۔ یہ تو آپ خود تجربہ کر لیں‘ ایک رات جگ رَاتا کریں اور دوسرے دن انسان سے ٹھیک طرح بات نہیں ہوتی۔ جگراتے کے بعد کوئی بات کرے تو لگتا ہے بھونک رہا ہے۔ جس حالت میں پولیس کو رکھا ہوا ہے اُس کے جوان پھر وہی کر سکتے ہیں جو کہ کرتے ہیں۔ جو آتا ہے کہتا ہے تھانہ کلچر تبدیل ہونا چاہیے۔ حضور‘ یہ بھاری بھرکم الفاظ استعمال نہ کریں جن کا مفہوم آپ کو پتا نہیں۔ تھانہ کلچر کی فکر چھوڑیں‘ تھانوں کے باتھ روم کلچر میں ذرا تبدیلی لائیں تو شاید آپ کو بہتری نظر آنے لگے۔ تفتیشیوں کے دفتر اور ساتھ کوئی باتھ روم نہیں۔ آئی جی صاحبان سے درخواست ہے کہ اور کام چھوڑ کر پہلے اس مسئلے کی طرف کچھ توجہ دیں۔
ہمارے چھوٹے شہروں کا معمول ہے کہ صبح صبح آس پاس دیہات سے لوگ آنے لگتے ہیں۔ کچھ کام کی غرض سے کچھ گپیں مارنے اور سیر سپاٹے کے لیے۔ چھوٹے ہوٹل بہت ہیں جہاں چائے وغیرہ اور کھانا مل جاتا ہے لیکن پورے شہر چکوال میں کوئی پبلک باتھ روم نہیں۔ میونسپل کمیٹی کا ایک عدد باتھ روم ٹیلیفون ایکسچینج سے ملحقہ واقع ہے لیکن کوئی دل گردے والا ہی اُسے استعمال میں لائے۔ خواتین اور نوجوان لڑکیاں دیہات سے آتی ہیں اور آدھا دن یا اُس سے زیادہ چھپڑ بازار اور اُس کی ملحقہ گلیوں میں خریداری کی غرض سے پھرتی ہیں۔ پہلوان والوں کا مرغ پلاؤ کھائیں گی‘ بوتلیں پئیں گی لیکن سوچتا ہوں کہ یہ باتھ روم والی ضروری چیز ہے‘ اس کا کیا بنتا ہو گا؟ عبادت گاہیں ہمارے ہاں چپے چپے پر ملیں گی لیکن کیا مزاج ہے ہماری قوم کا کہ جس کا ذکر یہاں ہو رہا ہے ان چیزوں کی طرف ہمارا اجتماعی خیال نہیں جاتا۔ مرد حضرات کا تو چلیں اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ گلی سے لوگ گزر رہے ہوں تو کسی نالی پر بیٹھ کر یا کسی کونے کو استعمال کر کے کام چل جاتا ہے اور ہماری پارسائی میں کوئی فرق بھی نہیں آتا لیکن خواتین کا سوچیںاُنہیں کتنا مسئلہ درپیش ہوتا ہو گا۔ پر فکر کرنے کی کوئی بات نہیں‘ ایسی چیزیں ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔ ایٹم بم بن جائے گا باتھ روم نہیں۔
اب کے لاہور گئے تو ایک خوشخبری سنی کہ ہمارے چینی بھائیوں نے جو پلانٹ جَو کے پانی کے نچوڑ کے لیے غالباً حب بلوچستان میں کھڑا کیا ہوا ہے وہ اب جَو کے پانی کے علاوہ اُس سے کچھ اور بھی بنانے لگا ہے۔ شام اُس سرائے میں بیٹھے جہاں ہمارا قیام ہوتا ہے‘ ہمارے ایک دوست خان صاحب ہماری تواضع کے لیے چینی مارکہ اشیا لائے۔ کیا بتائیں کیسی شام گزری۔ نہایت ہی عمدہ اور اس کے لیے ہمارے چینی بھائیوں کی بھرپور داد بنتی ہے۔
ان معاملات میں سندھ کے ہمارے بھائی ہم پنجاب والوں سے آگے ہیں۔ جو مسئلہ ہمارے لیے اتنا دردِ سر بنا ہوا ہے وہ وہاں ہے ہی نہیں لہٰذا سندھ کی بات چھوڑیں‘ یہاں جن مقامات پرپرمٹ راج کا نفاذ ہے وہ گنتی کی ہیں اور ان جگہوں پر پاکستانی اشیارکھی جا سکتی ہیں۔ چونکہ ہمارے چینی بھائیوں کی یہ مخصوص کاوش بھی پاکستان میں ہی ہوئی ہے لہٰذا اس سے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ یہاں کچھ کرنا ہو تو چینی معاونت ساتھ ملائی جائے تو اچھا ہے۔ دیسی صنم کدہ یا صحت کدہ ہو تو چھاپوں کا ڈر ہمیشہ رہے گا۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ پولیس کی ناقابلِ اصلاح نفسیات بن چکی ہے کہ ذریعۂ نشاط جو بھی ہو اُس پر چھاپہ مارنا ضروری ہے۔ لیکن جہاں چینی شراکت داری ہو وہاں شاید چھاپوں کا خطرہ کم ہو جائے۔
یہ فرق کرنا البتہ ضروری ہے کہ رشوت‘ بے ایمانی حتیٰ کہ کسی قسم کی حرام خوری کی یہاں کوئی ممانعت نہیں۔ لیکن پارسائی کے لبادے میں کوئی چھید کرنے کی تو سوچے‘ ہمارے غیظ وغضب ہمارے چھاپے سے نہ بچ سکے گا۔ یہ اور بات ہے کہ ایک یا دو دن بعد بطریق احسن معاملہ طے ہو جائے گا۔ نظریۂ قائد پتا نہیں البتہ قائدکی تصویر پر یہاں سب کچھ چلتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں