معافی تلافی تو ٹیپو سلطان بھی کر سکتا تھا۔ انگریزوں سے لڑنا محال تھا‘ انگریز تب صرف ایک ہندوستانی طاقت نہیں تھے بلکہ عالمی طاقت بن چکے تھے۔ طاقت اور وسائل کے لحاظ سے ٹیپو سلطان کا اُن سے کوئی مقابلہ نہ تھا لیکن جھکنے کا سبق اپنے نامور باپ حیدر علی سے اُس نے سیکھا نہیں تھا۔ لہٰذا مفاہمت یا عملیت پسندی کے نام پر انگریزوں کے تابع نہ ہوا اور اس راستے میں شہید ہو گئے۔ راجے مہاراجے تو ہندوستان میں بہت رہے لیکن آج تک صرف ٹیپو سلطان کے مزار پر لوگ حاضریاں دیتے ہیں۔
مفاہمت اور عملیت پسندی خوبصورت الفاظ ہیں۔ اپنی جگہ حکمت اور دانش مندی کا نام ہیں لیکن بہت سے تناظر ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں بزدلی کے مترادف بن جاتے ہیں۔ 1958ء میں تب کی مسلم لیگ کا سربراہ خان عبدالقیوم خان بہت بڑا لیڈر مانا جاتا تھا۔ فروری 1959ء میں ملک میں پہلے عام انتخابات ہونے تھے اور سمجھا یہی جا رہا تھا کہ خان قیوم اور مسلم لیگ میدان مار جائیں گے‘ لیکن مارشل لاء لگ گیا‘ خان قیوم کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ جیل کے حالات خان صاحب کی طبیعت پر ناگوار گزرے اور جیل سے ہی اُنہوں نے ایک لمبا خط جنرل ایوب خان کو لکھا کہ طبیعت ناساز ہے‘ فلاں فلاں بیماریاں ہیں‘ لہٰذا رہائی ہو جائے تو آپ کی مہربانی ہو گی۔ خان صاحب کی رہائی ہو گئی اور گو سیاست میں آخری دم تک رہے مگر جو لیڈری اُن کی تھی وہ اُس خط سے ہمیشہ کیلئے چلی گئی۔ 1977ء میں پی این اے کے جنرل سیکرٹری رفیق باجوہ تھے‘ بھٹو مخالف تحریک کے حوالے سے بڑی شہرت اُن کی ہوا کرتی تھی۔ اُن کی قسمت ہاری جب ذوالفقار علی بھٹو سے ایک خفیہ ملاقات کر بیٹھے اور یہ خبر لیک ہو گئی۔ جنرل سیکرٹری کے عہدے سے فارغ ہوئے اور گوشۂ گمنامی میں ایسے گئے کہ پتا ہی نہ چلتا تھا کہ اُن کا کیا بنا۔
تحریکِ آزادیٔ ہند میں کانگریس کے کتنے لیڈر تھے جنہوں نے جیلیں کاٹیں۔ جواہر لال نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد سالہا سال جیلوں میں رہے۔ پنڈت نہرو کی جو انگریزی میں ایک دو مشہور کتابیں ہیں‘ جیلوں ہی میں لکھی گئیں۔ انگریز سرکار کے ساتھ یہ لیڈر معاملات کر سکتے تھے لیکن کرتے تو پھر لیڈر نہ رہتے۔ نیلسن منڈیلا کی بات تو یہاں کرنی نہیں چاہیے۔ ہماری سیاست میں اُن کی بات فِٹ ہی نہیں ہوتی۔ وہ کہاں اور ہمارے حالات کہاں لیکن اتنا تو یاد رہے کہ پچیس چھبیس سال رابن جزیرے کی جیل میں رہے جہاں کے حالات بہت ہی کٹھن تھے۔ جوانی چلی گئی‘ زندگی کا اتنا بڑا حصہ جیل کی نذر ہو گیا لیکن اپنے قدموں پر رہے اور تاریخ عالم میں امر ہو گئے۔
بھٹو بھی معافی مانگ سکتا تھا لیکن پھر بھٹو نہ رہتا۔ کیا کچھ اُنہوں نے جیل میں برداشت نہیں کیا۔ آخر میں تو بہت کمزور ہوکے رہ گئے تھے‘ کھانا زیادہ کھاتے نہیں تھے‘ کافی اور سگار اور کتابوں پر گزارہ ہوتا تھا۔ سپرنٹنڈنٹ پنڈی جیل یار محمد دریانہ نے بلیک وارنٹ کی اطلاع دی‘ لمحہ بھر تو شاک ہوا لیکن جلد ہی سنبھل کے دریانہ سے کہا کہ شیو بڑھی ہوئی ہے‘ شیو کا سامان چاہیے‘ کسی مولوی کی موت نہیں مرنا چاہتا۔ موت سر پر منڈلا رہی ہو اور ایسی بات کہنا‘ یہ کوئی ہمت والا شخص ہی کر سکتا ہے۔ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ مجید قریشی‘ جس نے صبح بھٹو کو پھانسی گھاٹ لے جانا تھا‘ نے کہا ہے کہ ایک ڈیڑھ بجے سیل میں پہنچا تو بھٹو گہری نیند سوئے ہوئے تھے اور اُنہیں ہلا کر جگانا پڑا۔ تختہ دار آپ کا منتظر ہو اور آپ کو نیند آ جائے‘ کن مضبوط اعصاب کا وہ شخص ہو گا۔
معافی یا مفاہمت کی رائے دینے والے اپنی دانست میں بہت مخلص ہوں گے لیکن بھول جاتے ہیں کہ ہمارے جیسے حالات میں بات صرف معافی تک نہیں رہتی۔ کوئی جھکنے کو تیار ہو جائے تو جب تک ناک نہ رگڑے اگلوں کو چین نہیں آتا۔ بڑے ایوانوں کو ایک طرف رکھئے‘ تھانوں میں تھانیدار سے معافی مانگیں تو جب تک آپ پورا ذلیل نہ ہوں جان بخشی نہیں ہوتی۔ جسے ہم تقدیر کہتے ہیں وہ کیا چیز ہوتی ہے؟ کسی کا کردار اور مزاج وہی تقدیر ہوتی ہے۔ Character is destiny۔ زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں جب انسان کو کھڑا ہونا چاہیے لیکن کمزور آدمی ایسا نہیں کر سکتا اور یہی اُس کی تقدیر ہوتی ہے۔ بھٹو جنرل ضیا سے معافی مانگ ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ اُس انداز سے جھکنا اُس کے ٹمپرامنٹ کا حصہ نہیں تھا۔ اکڑ خان تھا اور آخری دم تک اکڑ خان رہا۔ نواب محمد اکبر خان بگٹی جنرل مشرف سے سمجھوتا نہیں کر سکتا تھا؟ تھوڑا جھک جاتا اور جان بچ جاتی۔ بڑھاپے میں ہیٹ پہن کر اور اونٹ پر سوار ہو کر پہاڑوں پر جانے کی ضرورت کیا تھی۔ نواب آدمی تھا نوابی میں زندگی کے آخری دن گزارتا۔ ایسے بلوچ سرداروں کی کمی نہیں جو مفاہمت اور چاپلوسی کے بادشاہ نہ ہوں۔ لیکن نواب اکبر خان اور ڈھنگ کا انسان تھا۔ ہماری زبان میں اتنا عملیت پسند نہیں تھا اور ہوتا تو شاید کچھ اور سال جی لیتا۔
عمران خان کو نصیحت کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ اب تو نصیحت پر مامور ایک باقاعدہ انڈسٹری قائم ہو رہی ہے۔ معافی یا مفاہمت کی نصیحت کرنے والوں کا اصل مدعا یہ ہے کہ وہ تھوڑا جھک جائیں۔ آنکھوں میں التجا کا تاثر لے آئیں اور ایسا کریں تو اُن کیلئے آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ ایسے حضرات پہلے تو یہ بتائیں کہ '' قیدی‘‘ کے مزاج میں جھکنے کا عنصر تھوڑا سا بھی موجود ہے؟ جب کسی انسان میں ایک چیز سرے سے موجود ہی نہیں تو پھر یہ سوال کس طرح بنتا ہے کہ اُسے اس طرف مائل کیا جائے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر جھکنے پر اپنے آپ کو آمادہ کر بھی لیتا ہے تو کیا بات وہاں ختم ہو جائے گی؟ امیر تیمور کے سامنے بایزید نے ہتھیار ڈالے تو اُسے ایک پنجرے میں ڈال دیا گیا تاکہ پوری دنیا اُس کی حالت دیکھ سکے۔ بغداد پر ہلاکو خان کا قہر نازل ہوا تو خلیفہ مستعصم کی شکست اور بے بسی اُس کی تسکین کے لیے کافی نہ تھی‘ عباسیوں کے آخری خلیفہ کو قالین میں لپیٹا گیا اور اوپر سے منگول گھوڑے دوڑائے گئے جب تک کہ اُس کا آخری سانس ختم نہ ہوا۔ ہمارے ماحول میں مفاہمت کا درس ابدی رسوائی کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ عام آدمیوں کے المیے عام اور چھوٹی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ تاریخی کردار ہوں تو اُن کے المیے بھی تاریخی نوعیت کے ہوتے ہیں۔
اس سے انکار نہیں کہ عمران خان سے غلطیاں ہوئیں۔ بڑے آدمیوں سے بڑی غلطیاں ہوتی ہیں۔ بھٹو سے بھی بہت غلطیاں ہوئیں اور اُن کا خمیازہ اُنہوں نے بھگتا۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے جیسے معاشروں میں انصاف اور احتساب کے پیمانے دہرے معیار کے ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے واقعات کی پوچھ گچھ یہاں ناممکن ہو جاتی ہے۔ کوئی پیمانۂ انصاف نہیں جو ایسے سانحات کا احاطہ کر سکے۔ عام سیاستدان بیشتر چیزوں سے بری الذمہ ہوتے ہیں‘ مگریہاں تاریخ یہ رہی ہے کہ مملکتِ خداداد میں گناہِ عظیم مقبول لیڈر ہونا ہے۔ عوام نے قبولیت کا شرف بخشا تو اقتدار کے بوسیدہ ستونوں کو خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ مقبولیت زیادہ ہو تو لرزہ طاری ہونے لگتا ہے۔ پھر ایسے مقبول عام لیڈر کے لیے کسی کوتاہی یا غلطی کی گنجائش نہیں رہتی۔
ایوب خان ریٹائرڈ ہو گئے تو اُن سے کسی کو کیا ڈر تھا۔ اقتدار سے فارغ یحییٰ خان بے ضرر ہو گئے۔ بھٹو کی بات اور تھی‘ تب کے حکمرانوں کے لیے خطرہ تھا۔ 1977-79ء میں اُنہیں معاف نہیں کیا جا سکتا تھا۔ باقی نتیجہ سمجھدار لوگ خود اخذ کر سکتے ہیں۔