بارشوں کا زور‘ پانیوں کا بپھرنا اور اس دوران جاپان کے کامیاب دوروں کا سوچنا۔ ایسے کرشمات یہاں ہوتے رہتے ہیں کیونکہ حکمرانی کے ڈھنگ یہاں ایسے ہی پائے جاتے ہیں اور پھر صدیوں کے نشیب و فراز سہہ کر یہاں بسنے والوں میں برداشت کی صلاحیت بہت پیدا ہو چکی ہے۔ حماقتیں جیسی بھی ہوں حکمرانی کا یہاں کچھ بگڑتا نہیں۔ آفتیں جیسی بھی آئیں لوگ برداشت کر لیتے ہیں۔ اُٹھتے پانیوں سے بستیاں برباد ہو جائیں گی لیکن بچا کھچا سامان لے کر کسی پگڈنڈی یا چوراہے پر‘ دھوپ ہو یا چھاؤں لوگ اپنے نصیبوں کو دیکھتے رہیں گے۔
تصویریں چھپی ہیں اس بستی کی جو کہتے ہیں راوی کے بہاؤ میں بنائی گئی تھی۔ بستی بن رہی تھی تب بھی واویلا اٹھا کہ غلط جگہ پر کام ہو رہا ہے لیکن بنانے والے اثر و رسوخ کے مالک تھے اور انہی کی مرضی چلی۔ تب کے حکمران آج کے قیدی نمبر 804تھے۔ انہوں نے اعتراض اٹھایا‘ اثر ور سوخ رکھنے والا ان کے قریب سمجھا جاتا تھا‘ ناراض ہو گیا‘ ہٹ گیا لیکن بستی بنانے میں اسی کی مرضی چلی اور آج جب بستی پانیوں میں گھِری ہے تو کیا ہو گا۔ یہ وقت بھی گزر جائے گا‘ لوگ اپنی زندگیوں میں مشغول ہو جائیں گے۔ ایسی بستیاں بنتی رہیں گی اور کسی کو کوئی زیادہ پروا نہ ہو گی۔ پانیوں کا مسئلہ آج کا ہے‘ یعنی کچھ کرنا ہے تو اب کرو لیکن وزیراعظم فرماتے ہیں کہ پانی کے ذخیروں کا بندوبست کیا جائے گا۔ یعنی سوچ و بچار ہو گی اور جب اللہ نے چاہا کچھ ہو جائے گا۔ تب تک یہ پانی نیچے آ جائیں گے اور آفت اگلے وقتوں تک ٹل جائے گی۔ یہاں یہی کچھ ہوتا ہے اور صدیوں کے سبق کے نتیجے میں یہاں کے باسی سب کچھ سہہ لیتے ہیں۔
پورے اس خطے میں یعنی پورے برصغیر میں تہذیب ایک ہی ہے۔ زبانیں مختلف ہیں‘ عبادت اور پوجا کرنے کے طریقے مختلف ہیں‘ چہروں کی رنگت مختلف ہے لیکن بنیادی طور پر تہذیب ایک ہے۔ تصوراتِ زندگی ملتے جلتے ہیں۔ یہاں کے سارے لوگوں کا یقین ہے کہ جو ہونا ہوتا ہے وہ ہو کے رہتا ہے۔ تقدیر لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ لہٰذا انسان بے بس ہے کیونکہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ انگریزی میں اسے Resignation اور Fatalismکہتے ہیں۔ لہٰذا کوئی عجوبہ نہیں کہ جوتشیوں اور ستاروں میں یقین رکھا جاتا ہے یہ جاننے کے لیے کہ جو ہونا ہے وہ کیا ہے۔ تقدیر یا نصیب میں کیا لکھا گیا ہے۔ یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ اس تہذیب میں بغاوت کا عنصر اتنا زیادہ نہیں۔ جو لکھی گئی ہے وہ کیسے مٹ سکتی ہے۔ لہٰذا بغاوت کا کیا فائدہ۔ مسلمان آئے تو ان کی حکمرانی مان لی گئی۔ انگریز آئے تو برصغیر کے سارے لوگ یکے بعد دیگرے ان کے سامنے سرنگوں ہوتے رہے۔ ایک دو جو نہ ہوئے مارے گئے۔ انگریز گئے اور ان کی جگہ دیسی حکمرانوں نے لی تو جتنا نکما بھی کوئی ٹھہرا اسے برداشت کیا گیا۔ بھرے بازار پولیس کا اہلکار کسی راہگیر کو تھپڑ رسید کر دے تو برداشت کر لیا جاتا ہے۔ تھانوں اور دیگر سرکاری دفتروں میں خدا کی مخلوق ذلیل ہوتی ہے اور اس ذلالت کو کمال صبر اور خندہ پیشانی سے برداشت کیا جاتا ہے۔ آئے روز پولیس مقابلوں کی خبریں آتی ہیں۔ کم ہی لوگ بولتے ہیں‘ احتجاج کی طرف تو کوئی نہیں جاتا اور ایسے سلسلے چلتے رہتے ہیں۔ جب سارے معاشرے کا مزاج صدیوں سے ایسا ہو تو بپھرے پانیوں نے کسی کا کیا بگاڑنا ہے۔ وقتی آہ و پکار ہوتی ہے‘ جن کا پیشہ آرام دہ صوفوں پر بیٹھ کر 'جہاد‘ کرنا ہے وقتی طور پر لبوں پر جھاگ لے آتے ہیں لیکن جلد ہی جذبات ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں اور اس خطے میں جیسے بھی معمول کی زندگی ہے پھر سے چلنے لگتی ہے۔
جتنی اونچ نیچ ہمارے معاشروں میں ہے یعنی جس قسم کی زندگیاں بالائی طبقات بسر کرتے ہیں اور ایک ہی شہر میں جس قسم کی زندگیاں نچلے قسم کے لوگ گزارتے ہیں یہ تفریق کہیں اور ہو تو انقلابِ فرانس کی داستان روزانہ کی بنیاد پر رقم ہو۔ ٹوٹی پھوٹی بستیوں میں لوگ اٹھ کھڑے ہوں۔ لیکن برداشت کا مزاج ایسا بن چکا ہے کہ لاکھ تکلیفوں کے باوجود ایسے سرکش خیالات دبی ہوئی ذہنیتوں میں نہیں آتے۔ جسے خطِ غربت کہتے ہیں اس کے نیچے ہماری آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ اس بہت بڑے طبقے کی زندگیاں شروع سے اجیرن ہوتی ہیں۔ کھانے کو کافی نہیں ملتا‘ تعلیم کے ذرائع میسر نہیں آتے‘ صحت کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔ جسمانی کمی عیاں ہوتی ہے۔ وقت آنے پر ایسی ویسی نوکریوں پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ملکی وسائل کی قدرے منصفانہ تقسیم کا ذکر کرنا بھی کسی کفر کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ اور مزے کی بات یہ کہ اس ناہمواری کو بھی نصیبوں کا لکھا ہوا سمجھا جاتا ہے۔
ہماری موسیقی اور گانے دیکھیے۔ درد بھرے‘ اُداس اور اس احساس سے بھرپور کہ جینا کٹھن ہی ہوتا ہے۔ ہیرو اکثر ٹریجک ہیرو (Tragic hero) ہی ہوتا ہے اور نسوانی کرداروں کی زندگی غموں سے بھری ہوتی ہے۔ کسی طوائف کی زندگی پر مبنی ڈرامہ یا کہانی ہو گی تو وہ بھی غم سے بھری۔ ہماری موسیقی کا کمال ہے کہ رقاصہ کے گھنگھروؤں کی جھنکار میں بھی کسی ٹریجیڈی کا عنصر نظر آتا ہے۔ بیشتر شاعری میں عاشق نامرادی کا گمان دیتے ہیں۔
حالات اور تاریخ کے جبر اور کچھ آب و ہوا نے ہمارے معاشروں کو مایوسی پسند (Pessimistic) بنایا ہے۔ جہاں تک ہمارا حال ہے یعنی مملکتِ خداداد کا حال‘ تاریخ اور حالات جیسے بھی تھے اُس کے اوپر سماجی رجعت پسندی کا ایک خول چڑھا دیا گیا ہے۔ زندگی کی رعنائی اور خوشی کے اظہار کو جب پارسائی کے نام پر دبانے کی ہمہ وقت کوشش ہو تو معاشرے پر مزید بیماری کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ پارسائی کے سبق اس تواتر سے بیان کیے جائیں کہ منافقت کا روپ دھار لیں تو وہاں بغاوت کی خُو کہاں سے قائم رہ سکتی ہے۔ زندگی حرکت کا نام ہے‘ حرکت اور جستجو۔ جہاں زندگی کی ان نشانیوں کو مسخ کرنے کی کوشش کی جائے ایسا معاشرہ بدقسمت ہی کہلا سکتا ہے۔
انسان سوچنے بیٹھے تو ذرا حیرانی سی ہوتی ہے کہ پاکستان کو بنے اتنے سال ہوئے لیکن یہاں کوئی اتنے سرکش سوچ رکھنے والے لیڈر پیدا نہ ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو میں سرکشی کی چنگاری تھی اسی لیے عوام کے دلوں میں مقبول ہوئے۔ لیکن ان کا دورِ حکمرانی اس طرح کا رہا کہ بدنصیب قوم کو ضیا الحق کی رجعت پسندی کے حوالے کر گئے۔ رجعت پسندی کی اس چکی میں قوم گیارہ سال پستی رہی۔ وہ ایسا امتحان تھا کہ اس کے نتائج قوم کے چہرے پر آج تک نمایاں ہیں۔ عمران خان دوسرے سرکش رہنما کہلائے جا سکتے ہیں لیکن ان کی سرکشی تب شروع ہوئی جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔ علمِ بغاوت پہلے ہاتھ میں پکڑتے لیکن خوئے بغاوت تب سر چڑھی جب قمر جاوید باجوہ کے ہاتھوں پِٹ چکے تھے۔ یعنی ہمارے ہاں کی داستانِ سرکشی کچھ اتنی حوصلہ افزا نہیں۔ بھٹو ضیا سے مات کھا گئے اور زمانۂ موجود کے ہیرو ایک خاصے اوسط درجے کے فنکار کو نہ سمجھ سکے۔ باہر کی قوموں سے ہم نے کیا مقابلہ کرنا ہے۔ جب اظہار پر تالے لگ جائیں تو ذہن زنگ آلود ہونے لگتے ہیں۔ باہر کی دنیا میں سیاسی حماقتوں کا ایسا تمسخر اڑایا جاتا ہے کہ چھپنے کی جگہ نہیں ملتی۔ یہاں میڈیا کی اب ایسی حالت کہ ایسا تمسخر مشکل ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ پھر بھی کچھ ہمت دکھاتے ہیں لیکن وہاں بھی گرفت ڈالنے کی کوشش جاری رہتی ہے۔