جتنے ہنگامے‘ جتنی ریاستیں اور جتنے مظاہرے اُتنے ہی تبصرے اور تجزیے۔ میرا ذاتی خیال مگر اُن سے سوا ہے۔ مظلوم کشمیریوں کی آہیں‘ سسکیاں اور فریادیں۔ جلتے گھروں میں محبوس حوّا کی بیٹیوں کے نالے‘ زمین سے اُٹھے اور سات آسمان چیر گئے۔
جب دنیا کے سارے بڑے اداروں نے کشمیریوں کا مقدمہ سُننے سے انکار کیا تو عرشِ معلّیٰ سے جواب آ گیا۔ آج ہندوستان کی بہت سی ریاستوں میں so-called ''دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کی ارتھیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ ''ڈیتھ آف لارجسٹ ڈیمو کریسی‘‘ کے نعرے لگ رہے ہیں۔ یہ نعرے لگانے والے 137 دن سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی بڑی جیل میں محصور کشمیری نہیں‘ بلکہ ان میں راہول گاندھی جیسے سیاستدان اور ہندوستان کی کئی ریاستوں جیسے مغربی بنگال‘ پنجاب‘ کیرالہ‘ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کی منتخب حکومتوں کے چیف منسٹرز بھی شامل ہیں۔
''ہمیں مودی کا ہندوستان نہیں آئین کا ہندوستان چاہیے‘‘ کی آوازیں دن بدن اونچی ہو رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی یونیورسٹی میں نہیں... وہ تو ہے ہی بند‘ مگر اس کی بجائے یہ نعرے اب ہندوستان کی بے شمار دوسری یونیورسٹیز سے بلند ہو رہے ہیں۔ صرف دہلی کی جامعہ ملّیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہی نہیں‘ بلکہ پٹنہ یونیورسٹی‘ بنارس ہندو یونیورسٹی‘ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ممبئی‘ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز اور لکھنئو یونیورسٹی سے بھی۔ حیدر آباد کی دو درجن سے زائد یونیورسٹیز میں ہونے والے احتجاج کے ساتھ ساتھ ہارورڈ‘ آکسفورڈ اور Yale جیسی دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے بھی مسلسل احتجاج سامنے آ رہا ہے۔ ہندوستان کے طول و عرض میں ہر طرف نام نہاد آئینی جمہوریت کے کریا کرم کا غوغا ہے کہ ہر آنے والے دن بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ 72 سال سے بے نوا مسلمان پہلی بار '' بلوائی‘‘ نہیں رہے‘ بلکہ بے نوائی کا شکار ہو کر ان کی پذیرائی مودی کے علاوہ ہر ہندوستانی پارٹی‘ RSS چھوڑ کر‘ ہر تعلیم یافتہ بھارتی کے لبوں سے ادا ہو رہی ہے۔
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
ان سب کا مخاطب مودی کا ماورائے آئین ہندواستھان ہے‘ موہن داس کرم چند گاندھی جی کا ہندوستان ہرگز نہیں۔ مہاتما کے ''دیش‘‘ میں اُن کی آتما بھی سوگوار اور ماتم گزار ہے۔ یہی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پر سوالیہ نشان ہے‘ کیونکہ مودی کی ہندوتوا حکومت اپنے مقتول باپو کی بجائے باپو کے قاتلوں کی پشت پر کھڑی ہے۔ خفیہ طور پر نہیں‘ بلکہ علی الاعلان۔ قاتل نتھو رام وینایک گوڈسے اُن کا ہیرو ہے۔ مقتول کرم چند گاندھی اُن کی نظر میں زیرو ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں فوجی طاقت سے مسلط کیا گیا‘ اس قدر طویل Landlock اور کرفیو شاید ہی بر صغیر پاک و ہند میں کسی اور جگہ نافذ کیا گیا ہو۔ جس طرح کا ظالمانہ سلوک 9 لاکھ بھارتی سینا کے پالتو غنڈے 8 ملین نہتے کشمیری عوام پر جاری رکھے ہوئے ہیں‘ بالکل اسی طرح کا دوسرا ایکشن ریاست آسام میں ری پلے (Replay) کیا گیا۔ جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے دور ہونے کے باوجود دونوں ریاستوں میں ایکشن کی تھیم ایک ہی تھی‘ یعنی ہندی مسلمانوں کی نسل کی صفائی (Ethnic cleansing)۔ دونوں جگہ بے رحمی سے بھارتی آئین سے ماورا اقدامات کیے گئے‘ جن کے نتیجے میں دونوں دفعہ/ مواقع پر بھارت کی رائے عامہ ‘ سول سوسائٹی اور عالمی برادری کو دھوکہ دینے کے لئے قانون کا پردہ یعنیCover استعمال کیا گیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر اور لدّاخ میں آرٹیکل 35A اور 370 آئین سے حذف کیے گئے ‘ جن کا مقصد ان علاقوں کی خصوصی حیثیت پر UNSC اور UNGA کے فیصلوں کو کہے بغیر سبوتاژ کرنا تھا‘ جبکہ آسام میں تقریباً 1000 سال سے پہلے کی آباد محمڈن کمیونٹی کی شہریت ماننے سے انکار کیا گیا۔ دراصل یہ اُن کی شناخت کے خانے میں منصوبہ بندی کے تحت ہندوتوا گھسیڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ زمانۂ جہالت کے اس رواج کو قانون بنانے پر ہر با شعور ہندوستانی چیخ اُٹھا‘ جس میں لیڈ رول کالجوں یونیورسٹیوں کی لڑکیوں اور خواتین رہنمائوں کے پاس ہے۔ اُس کی کئی وجوہات ہیں۔ مثال کے طور پر!
پہلی وجہ‘ Forced ستی کی رسم: ستی جسے شادی کی آخری رسم یعنی (Closure of marriage) بھی کہا جاتا ہے‘ شدت پسند ہندو پنڈتوں کی وضع کردہ ہے‘ جس کے مطابق خاوند کی تابع دار بیوی کو مُردے کی ارتھی کی آگ بھڑکنے کے بعد آگ میں کودنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بھارت میں ایک راجستھانی ہندو لڑکی کی ستی نے ینگ ہندو لیڈیز کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس 19 سالہ لڑکی کی شادی ہوئی‘ شادی کے چند ماہ بعد ہی 19 سالہ لڑکی کا خاوند ایک حادثے میں مر گیا۔ بستی کے پنڈتوں نے لڑکی کو اچھی بیوی بننے کا بھاشن دیا مگر لڑکی نے ستی ہونے سے انکار کر دیا؛ چنانچہ اُسے زبردستی اُٹھا کر زندہ آگ میں جھونک دیا گیا۔ ہندوتوا کی لہر اُٹھنے کے بعد ‘ اس پریکٹس کو دوبارہ شروع کرنے پر بھی بھاشن شروع ہو گئے اور چلتی پھرتی زندہ عورتوں کو جلانے کے لئے ستی سٹونز کی یادگاریں حکومتی سر پرستی میں بننا شروع ہو گئیں۔
دوسری وجہ‘ بے شرمی کا دارالخلافہ
مودی دور میں بھارت کو بین الاقوامی طور پر Rape capital of the world کہا گیا۔ مغرب کے سارے اہم ممالک نے اپنے شہریوں اور خاص طور پر خواتین کو بھارت یاترا پر منفی ایڈوائزری جاری کرنا شروع کر رکھا ہے‘ جس میں یورپ‘ برطانیہ‘ امریکہ‘ کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔
تیسری وجہ‘ بے رحم قانون :مقبوضہ کشمیر میں 6000 سے زائد عفت مآب مائوں‘ بیٹیوں کی آبرو ریزی کے سانحات رپورٹ ہوئے‘ مگر بھارتی قانون‘ راج اور سماج کسی ایک ملزم کو بھی سزا نہ دے سکا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان ملزموں میں سے 95 فیصد نے اپنے کندھوں پر ترنگا اور بدن پر فوجی وردی پہن رکھی تھی۔
چوتھی وجہ‘ مجرموں کی سرکاری سر پرستی:بھارت کے طول و عرض میں شاید خالصتان والے پنجاب اور بھارتی مقبوضہ کشمیر ہی دو واحد علاقے ہیں جہاں غنڈے وزیر اور اُٹھائی گیرے مشیر نہیں بنے۔ باقی تقریباً سب جگہ کرائم سنڈیکیٹ کے پروردہ یا پھر سپانسرڈ لوگ قانون ساز اداروں میں براجمان ہیں۔
پانچویں وجہ‘ لا قانونیت‘ وحشت اور درندگی کا راج ہے۔ مذہبی تقسیم ‘ منافرت اور تضحیک پر مبنی شہریت کے قانون پر اپوزیشن نہ لوک سبھا میں بول سکی نہ راجیہ سبھا میں‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ راہول گاندھی اور پریانکا گاندھی کو بھی اپنی آواز سڑک پر مظاہرہ کر کے سنانی پڑی۔
بھارتی فوج کے چیف جنرل بپن راوت نے اپنی ریٹائرمنٹ سے 14 دن پہلے ایک دفعہ پھر ٖFalse-flag الارم بجایا ہے۔ بپن راوت اس دسمبر کی 31 تاریخ کو ریٹائر ہو جائے گا۔ اس نے ایل او سی پر جنگی جنون کی چڑھائی کا بیانیہ پھر سے دُہرا دیا‘ بظاہر جس کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی ایل او سی پر نئے سرے سے در اندازی۔ جوتم پیزار ہونے اور پاکستانی چائے (Fantastic tea) سے تواضع کا شوق یا دوسری مدت ملازمت میں ایکسٹینشن۔ اگر موجودہ بھارتی چیف وقت پر ریٹائر ہو جاتا ہے تو سینئر موسٹ جنرل منوج مکنڈ نروان بھارت کا اگلا آرمی چیف ہو گا۔ ہاں البتہ 2020ء کا پہلا سورج طلوع ہونے تک یہ بے چینی بھارتی فوج کو پریشان حال رکھے گی۔ بھارت جانتا ہے اس کی در اندازی کا مشغلہ اُسے پھر سے مہنگا پڑے گا۔
اُلجھیں گے کئی بار ابھی الفاظ سے مفہوم
سادہ ہے بہت وہ نہ میں آسان بہت ہوں