اپنی 75سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو اُم الخبائث کسی شیشے کی بوتل میں بند نہیں ملے گی بلکہ اس کے لیے چند ورق پلٹنے کی زحمت کرنا ہوگی۔ پاکستان کو کمزور‘ تقسیم‘ پھر دولخت اور اب بے حال و بدحال کرنے کے ذمہ دار یہی اُم الخبائث ہیں۔ جس کا نشہ ہے کہ اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
مدہوشی کا پہلا جام... شہیدِ ملت لیاقت علی خان کے 16اکتوبر 1951ء کو دن دہاڑے قتل کے ساتھ جو دور شروع ہوا‘ اس میں نہ آئین بن سکا نہ پاکستانیوں کو قوم بننے دیا گیا‘ نہ ہی ہم معاشی طور پر خطے کی قوموں کے ساتھ کوئی توازن رکھ سکے۔ اس دور میں گورنر جنرل ملک غلام محمد (دورِ اقتدار 1951ء تا1955ء) سے شروع کرکے سیاستدانوں کو نظام سے باہر نکالنے والے ٹیکنو کریٹس باریاں لیتے رہے۔ پاکستان جو خالصتاً سیاسی راہ پر حضرت قائد اعظمؒ کی قیادت میں معرضِ وجود میں آیا تھا‘ اس سرزمین کے آزاد ہوتے ہی ٹیکنو کریٹس ملکی نظام پر چھا گئے۔ سوٹ‘ بوٹ‘ ٹائی‘ ہیٹ‘ انگریزی زبان والے یہ کالے انگریز اقتدار کے نشے میں آزاد مملکتِ خداداد کو میوزیکل چیئر بنانے میں کامیاب ہوئے۔ قانون‘ آئین‘ پارلیمان اور سب سے بڑھ کر عوام ثانوی حیثیت میں آئے اور بیک برنر پر چلے گئے۔ عوامی راج کا آزاد پنچھی زور آور ریاستی طاقت کے پنجرے کا قیدی بنا لیا گیا۔
مدہوشی کا دوسرا جام... پاکستان کے پہلے عیّار ٹیکنو کریٹ اسکندر مرزا نے اُٹھایا۔ پاکستان کی وحدت کے لڑکھڑانے کا دور تب شروع ہوا جب اسکندر مرزا 7اگست 1955ء میں ایسٹ پاکستان کا گورنر جنرل بنا‘ پھر اس نے وزیر داخلہ‘ پھر وزیر مملکت برائے سرحدی علاقہ جات‘ پھرگورنر جنرل مشرق بنگال‘ پھر سیکرٹری ڈیفنس‘ پھر وائس چیئرمین ریپبلک پارٹی اور پھر وزیر دفاع کے عہدے دیکھے۔ اس دوران وہ تقریباً 12 سال اقتدار میں رہا۔ آپ اسے آزاد پاکستان کا پہلا وائسرائے بھی کہہ سکتے ہیں۔ میجر جنرل اسکندر مرزا کے دورِ اقتدار میں تحریکِ پاکستان کے لیے قربان ہونے والے بھلا دیے گئے اور وہ گھرانے جنہوں نے قیامِ پاکستان کے لیے سب کچھ داؤ پر لگایا وہ سب کہنے پر مجبور ہوئے کہ منزل اُنہیں ملی‘ جو شریکِ سفر نہ تھے۔ اسکندر مرزا کا سارا Backgroundبرٹش انڈیا امپیریل اِزم کی غلامی نما فرمانبرداری سے جڑتا ہے۔
مدہوشی کا تیسرا جام... اس دور نے اسکندر مرزا دور کے وزیر دفاع فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کو ون مین رول کا موقع فراہم کیا جو27اکتوبر 1958ء کو شروع ہوا اور 25مارچ 1969ء کو پاکستان کو المیہ بنا کر آغا محمد یحییٰ خان کے حوالے کر گیا۔ اس دور کو محمد شاہ رنگیلا iiiکے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جس نظام میں شیشے کے جام والی اُم الخبائث کا غلبہ پاکستان بچے کھچے نظام کو بھی لے ڈوبا۔ جنرل ضیا الحق اور پرویز مشرف کے دورِ اقتدار کے دو عشرے سے زائد ریاست کے اندر کئی ریاستیں بنانے کا دور مانا جاتا ہے۔
بات ہو رہی تھی 71ء والے الیکشن کی۔ اس الیکشن میں دو سطح پر پولیٹکل انجینئرنگ کی گئی۔ پری الیکشن سٹیج پر مذہبی جماعتوں کی زوردار سپورٹ ملی۔ خیال یہ تھا کہ مغربی پاکستان ترقی پسند سیاسی کارکن اور ایسٹ پاکستان میں نیشنلسٹ بنگالی لیڈر شپ کو اسٹیبلشمنٹ کے ٹوڈی شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ملک کے دونوں حصوں میں ایسا نہ ہو سکا۔ مغربی پاکستان میں مولویوں کو گنتی کی سیٹیں مل سکی۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن والی عوامی لیگ پوری قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ ظاہر ہے اکثریتی پاریٹی کی حیثیت سے بنگالی وزیراعظم منتخب ہونے کا موقع پیدا ہو گیا تھا۔
بنگال کے لوگ پاکستانی حکومت بنانے کے لیے پر جوش تھے۔ متحدہ پاکستان کی آخری قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں طلب کیا گیا مگر اقتدار اور خمار کے نشے میں مدہوش آغا یحییٰ خان ایوب ماڈل کے اقتدار کی خواہش میں بنگالیوں کی اکثریت پر مبنی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ یحییٰ ڈاکٹرائن میں ان الیکشن سے مثبت نتائج حاصل کرنے کا پلان بنا جس کے نتیجے میں بنگالی ایک پاکستان کے مشرقی صوبہ میں اقتدار سے تو محروم ہو گئے لیکن ساتھ ہی پاکستان کا بڑا بازو کٹ گرا اور بنگالیوں نے بنگلہ راج قائم کرنے کے لیے بنگلہ دیش بنا لیا۔
1971ء کی شکست سیاسی تھی یا فوجی یہ طے کرنے کے لیے ایک فاضل جج کے نیچے انکوائری کمیشن قائم کیا گیا۔ جسٹس حمود الرحمن انکوائری کمیشن کی رپورٹ بھارت میں شائع ہوگئی لیکن پاکستان میں حمودالرحمن کمیشن رپورٹ آج بھی ایک سیکرٹ ڈاکیومنٹ ہے اور اسے ہاتھ لگانے والے کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے نیچے پوری عمر کی قید والی سزا مل سکتی ہے۔
آج ایک بار پھر ملک کی 65فیصد آبادی پر مبنی دوصوبوں میں آئین کے تحت الیکشن منعقد ہونے ہیں مگر فیصلہ ساز حلقے مثبت نتائج حاصل کرنے کے لیے آوازِ خلق سننے پر تیار نہیں۔ جس کے بڑے ثبوت دیوار پر لکھے ہیں۔
پہلا بڑا ثبوت... الیکشن ایکٹ 2017ء کا سیکشن 230جو اس وقت نافذالعمل ہے‘ اسی کے ماتحت صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا میں کیئر ٹیکر کابینہ اور عارضی چیف منسٹرز 90روز کے لیے بٹھائے گئے ہیں۔ کیا یہ کیئر ٹیکرز اس قانون کے مطابق چل رہے ہیں یا ماورائے قانون؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے الیکشن ایکٹ مجریہ 2017ء کی طرف چلتے ہیں۔
سیکشن 230الیکشن ایکٹ: جس میں نگران حکومت کے فرائض کو محدود کر دیاگیا ہے۔ نگران حکومت کی پہلی ڈیوٹی سب سیکشن (a)میں دی گئی ہے۔ جس کے مطابق نگران حکومت صرف روز مرہ کے ایسے کام سرانجام دینے کا اختیار رکھتی ہے جس کے تحت نگران حکومت کا نظام چلتا رہے۔ اسی طرح سے ذیلی دفعہ (b)نگران حکومت کو پابند کرتی ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو ہر طرح سے معاونت فراہم کرے تا کہ الیکشن قانون کے مطابق انتخابت منعقد ہو سکیں۔ اسی سیکشن کی ذیلی دفعہ (c)میں نگران حکومت کی جو ڈیوٹی لگائی گئی ہے‘ اس کے لیے English Textدیکھنا زیادہ ضروری ہوگا۔
(c) Restrict itself to activities that are of routine, non-controversial and urgent, in the public interest,۔ (جاری)