وہ پاکستان ہنستی ہوئی آئی تھی‘ اطمینانِ قلب لینے کیلئے۔ واپس جاتے جاتے اس کے دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے۔ وہ صرف جانی پہچانی خاتون نہیں بلکہ ہر اعتبار سے ایک اثر و رسوخ والی گلوبل شخصیت بھی ہے‘ جس کے سامنے سیلیبرٹی لفظ چھوٹا لگتا ہے۔ اسکا آبائی علاقہ جرمنی ہے لیکن وہ بیک وقت امریکہ اور کمبوڈیا‘ دونوں ممالک کی شہریت رکھتی ہے۔ وہ 4 جون 1975ء کے روز پیدا ہوئی۔ وہ بلاشبہ دنیا کی معروف ترین فلمی ہیروئن ہے۔ ہالی وُڈ کی ایسی مہنگی ہیروئین جو ایک فلم سائن کرنے کا کم از کم 15 ملین ڈالر معاوضہ لیتی ہے۔ اسے دو دفعہ آسکر‘ گولڈن گلوب‘ فریڈم ایوارڈ سمیت اتنے اعزازات ملے اور اتنے اعزازی عہدے عطا ہوئے ہیں جس نے اسے گلوبل شہری بنا دیا ہے۔ 2001ء میں وہ ہالی وُڈ کی فلم لارا کرافٹ ٹومب ریڈر کی شوٹنگ کرنے کے لیے طویل خانہ جنگی کے زخم خوردہ کمبوڈیا پہنچی جہاں اس نے ہولناک انسانی بحران دیکھا۔ چائلڈ امیگریشن اور ایجوکیشن بھی اس کے دلچسپی کے خاص موضوعات میں سے ہیں۔ یہ گلوبل شخصیت Angelina Jolie Voight ہے جو بیک وقت فلمی سٹار‘ ہدایتکار‘ فلم ساز‘ ماڈل‘ سکرپٹ نویس اور سب سے بڑھ کر شہزادی ڈیانا کی طرح‘ انسان دوست عالمی شخصیت ہے۔
آج سے 14سال قبل‘ ستمبر 2010ء میں‘ پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین سیلاب کی زَد میں آگیا۔ یہ سیلاب کئی اعتبار سے تاریخی تھا جس میں اس وقت کے ایک وزیراعظم پر تُرک خاتونِ اوّل کی طرف سے سیلاب متاثرین کے فنڈ میں اپنے گلے سے اتار کر دیا گیا نیکلس غائب کرنے کا الزام لگا‘ جو بعد میں برآمد بھی ہو گیا۔ جبکہ ایک وزیراعلیٰ پر انگلینڈ سے آنیوالے ڈالروں اور پاؤنڈز کو اپنے اور اپنے بیٹے کے اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کرنے کا سکینڈل سامنے آیا۔ انجلینا جولی نے اقوامِ متحدہ کے سفیر کی حیثیت سے اپنا پاکستان کا دورہ اس نیت کے ساتھ شیڈول کیا کہ وہ سیلاب زدگان کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ متاثرین کے لُٹے پٹے خیموں اور گھروں کے اندر جا کر اس بات کا تعین کریں کہ متاثرینِ سیلاب کو کس قدر اور کیسی فوری امدادی ریلیف کی ضرورت ہے۔ انجلینا جولی پاکستان سے واپس گئی تو اس نے اپنے دورے کے تاثرات‘ مشاہدات اور تجربات پر مبنی رپورٹ اقوام متحدہ میں تحریری طور پر پیش کی۔ ویسے تو اب یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ عالمی سطح پہ کسی انسانی مسئلے پر ہمارا مذاق اُڑایا جائے اور جگ ہنسائی ہو‘ وہ بھی ہمارے ایلیٹ حکمران مافیا کے ہاتھوں۔ انجلینا جولی کی طرف سے دورۂ پاکستان پر تیار کردہ رپورٹ کے چند انتہائی دل آزار نکات یوں ہیں۔
یو این او رپورٹ کا پہلا نکتہ: انجیلنا جولی نے پاکستانی متاثرینِ سیلاب کے بارے میں اپنی رپورٹ میں تحریر کیا کہ مجھے یہ دیکھ کر شدید دکھ ہوا کہ میرے سامنے سیلاب کے متاثرین کھڑے تھے لیکن حکومت کے بااثر افراد سیلاب متاثرین‘ جن کے لیے میں پاکستان آئی تھی‘ اُنہیں دھکے دے کر مجھ سے ملنے نہیں دے رہے تھے۔
یو این او رپورٹ کا دوسرا نکتہ: مجھے اس وقت اور زیادہ تکلیف اس بات سے ہوئی جب پاکستان کے پرائم منسٹر نے پہلے اپنی خواہش میرے سامنے رکھی اور پھر مجھے مجبور کیا کہ میں پرائم منسٹر کی فیملی کے لوگوں سے ضرور ملوں۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ مجھ سے ملنے کے لیے بے چین ہیں اور میں ان کی بے چینی کو دور کروں۔ اصرار کے باوجود میں نے پاکستانی پرائم منسٹر کی فیملی سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا۔ مگر میری اجازت کے بغیر اور میرے انکار کے بعد بھی وزیراعظم کی فیملی مجھ سے ملنے کے لیے ملتان سے ایک سپیشل طیارے کے ذریعے لائی گئی۔ اس طیارے میں سیلاب سے تباہ حال ملک کے وزیراعظم کی فیملی میرے لیے مہنگے ترین تحفے بھی اپنے ساتھ لائی۔
یو این او رپورٹ کا تیسرا نکتہ: انجلینا جولی نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا کہ مجھے اس بات پر شدید رنج ہوا کہ جس ملک میں لوگ فاقوں سے مر رہے تھے‘ اسکے وزیراعظم کی فیملی نے میرے لیے ڈائننگ ٹیبل پر کئی قسم کی مہنگی ڈشز اور انواع و اقسام کے کھانے سجائے جس نے مجھے بے حد رنجیدہ کر دیا۔ جولی مزید لکھتی ہیں کہ یہ کھانا کئی سو لوگوں کیلئے کافی تھا جو صرف آٹے کے ایک تھیلے اور پانی کی ایک بوتل لینے کیلئے ہماری ٹیم اور ایک دوسرے کو دھکے دے کر اتنا سا ریلیف حاصل کرنے کے خواہشمند تھے۔
یو این او رپورٹ کا چوتھا نکتہ: انجلیناجولی مزید لکھتی ہے کہ مجھے اس بات نے بھی حیرت زدہ کیا کہ پاکستان میں ایک طرف بھوک‘ غربت اور بد حالی چھائی ہوئی تھی جبکہ دوسری جانب وزیراعظم ہاؤس اور کئی دوسری سرکاری عمارتوں کی شان و شوکت‘ ان کے مکینوں کا ٹھاٹ باٹ اور حکمرانوں کی بے پناہ عیاشیاں سامنے تھیں۔ انجیلنا جولی کے خیال میں‘ اس طرح کا ''ویلتھ ڈِسپلے‘‘ یورپ والوں کو حیران کر دینے کے لیے کافی تھا۔
انجلینا جولی نے اپنے تجربات اور آنکھوں دیکھے حالات و واقعات کی روشنی میں یو این او کو ہمارے کام کا مشورہ دیا۔ یہی کہ پاکستان کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ امداد مانگنے سے پہلے شاہی پروٹوکول‘ عیاشیاں اور حد سے زیادہ فضول اخراجات کو ختم کرے۔
حالیہ بجٹ کے ذریعے پاکستان کی معاشی خود مختاری 100 فیصد امریکی نجات دہندہ کمرشل بینک‘ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ماتحت کر دی گئی ہے۔
فارم 47 والی اسمبلیاں نہ عوام کی نمائندہ ہیں اور نہ ہی عوام کو ان سے کوئی شنوائی کی توقع ہے۔ ایک بڑے محکمے کے بااثر آدمی اگلے روز ملے‘ کہنے لگے: آپ موجودہ حکومت سے کس بات کا گلہ کرتے ہیں‘ جس کے بڑے بڑے اندر بیٹھ کر کہتے ہیں کہ عمران خان نے الیکٹ ایبلز کی سیاست کا جنازہ نکال دیا۔ ہم ان عوام کی کیوں پروا کریں جنہوں نے ہماری جگہ بینگن اور بینجو کو ووٹ دیا۔ کچھ ہفتے پہلے ایک 'وکالت نامہ‘ سے انقلاب کی بحث نکلی تو دسترخوانِ اقتدار کی شریک ٹولی اس بات پر سخت پریشان ہو گئی۔ پاکستان میں انقلابِ فرانس کا ذکر موجودہ صورتحال میں کیوں سامنے آیا۔ انقلابِ فرانس کے بعد چین کا سوشلسٹ انقلاب بھی تو آیا تھا۔ پھر اب کی بات کریں تو انقلاب کسی سے پوچھ کر آج بھی نہیں آرہے۔ سرلنکا میں پر بھارکرن جیسے بڑے دہشت گرد کو فتح کرنیوالے راجا پاکشا فیملی کے خلاف پڑھی لکھی یوتھ اور لڑکیوں نے ایسا انقلاب برپا کیا کہ وہاں حکمران خاندان تو کیا اُس کی باقیات کا بھی نام و نشان باقی نہیں رہا۔ کینیا میں آئی ایم ایف کے بجٹ اور بجلی کے بلوں کے خلاف پبلک اَپ رائزنگ ہوئی جس نے پارلیمنٹ اور ایوانِ صدر کو جلا کر راکھ کر دیا۔ یوں لگا کہ کینیا والوں نے اقبال کو پڑھ لیا ہے۔
بولیویا کے آرمی چیف جنرل Juan Jose Zunigaنے امریکہ کو منرل بیچنے پر صدر کے اعتراض کے بعد مارشل لاء لگایا اور یہ بیان دیا: Armed forces intend to restructure democracy to make it a true democracy۔ اس جنرل اور اس کے ساتھیوں کو سول اداروں اور پولیس نے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔
انقلاب وہاں آتا ہے جہاں لوگ بھوک‘ مہنگائی‘ لوٹ مار سے تنگ ہوں اور بڑوں‘ ان کے چھوٹوں اور ان سے بھی چھوٹوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں‘ خزانے کا گھی اور سر‘ بجٹ کی کڑاہی میں۔ آفاقی شاعر کہہ گئے۔
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو؍کاخِ اُمرا کے در و دیوارہلا دو
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے؍کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
شاہیں سے یاد آیا‘ جو شاہیں سپیشل ٹریننگ سے تیار کیے جائیں وہ امریکہ کی بچہ برانڈ ٹیم کے سامنے بھی ڈھیر ہو جاتے ہیں۔
حق را بسجودے صمناں را بطوافے؍بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھا دو