"SBA" (space) message & send to 7575

فیڈرل سکیورٹی فورس سیزن ٹُو … (2)

کچھ لوگ ملک کا تماشا بنانے کی ڈیوٹی بڑی سرتابی سے سرانجام دیتے جا رہے ہیں۔ ان کی شاندار خدمات کا سلسلہ ریٹرننگ افسر سے شروع ہوتا ہے اور الیکشن کمیشن تک بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ پھر شاہراہِ دستور پر ایستادہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے تک پہنچتا ہے۔ جس کے نتیجے میں جسٹس منصور علی شاہ صاحب کے بقول ''ایک آئینی بنچ ہے اور ایک غیر آئینی بنچ‘‘۔ ملک کے وفاقی یونٹس کو اپنی فرماں روائی میں لانے کے لیے وفاق اور پنجاب میں متوازی قانون سازی شروع ہے۔ آپ اسے ANF+FSF سیزن ٹُو کہہ لیں۔ دورِ شریف میں آٹھ‘ نو قسم کے پولیس ڈپارٹمنٹس بن چکے ہیں۔ جرائم میں کمی کا ذریعہ دنیا بھر کے ملکوں میں اچھی آرگنائزڈ پولیسنگ ہوتی ہے‘ مگر یہاں پہ پولیس مقابلوں پر زور ہے۔ اگلے روز لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم صاحبہ نے ریمارکس دیے ''ہر پولیس مقابلے میں پولیس والوں کی گولی نشانے پر لگتی ہے اور ملزموں کی گولی اپنے ساتھی کو‘‘۔ ساتھ ساتھ 1973ء کے دستور کو بھی گھریلو ٹوٹکا بنایا جا رہا ہے۔ نام اصلاحات کا اور کام اپنی ذات کا۔ جس کی دو بڑی اور تازہ ترین مثالیں یوں ہیں۔
دستورکو گھریلو ٹوٹکا بنانے کی پہلی مثال: کون نہیں جانتا پاکستان کے دستور میں جو محکمے چلانا وفاقِ پاکستان کی ذمہ داری ہے‘ ان محکموں سے متعلقہ قانون سازی دستور کی وفاقی فہرست میں شامل ہے۔ جس کی ایک مثال The Anti Narcotic Force Actمجریہ سال1997ء‘ ایکٹ نمبرIII آف 1997ء سے لی جا سکتی ہے‘ جو 12اپریل 1997ء کے روز ایکٹ آف پارلیمنٹ بنا۔ اس ایکٹ کے سیکشن نمبر 1ذیلی دفعہ (2) کے ذریعے اسے ان لفظوں میں پورے پاکستان پر لاگو کر دیا گیا تھا:It extends to whole of Pakistan۔ جبکہ ایکٹ کی دفعہ تین کے تحت واضح کر دیا گیا کہ وفاقی حکومت ایک ایسی فورس بنا رہی ہے جس کا نام اینٹی نارکوٹکس فورس ہو گا۔ اگلے روز پنجاب پولیس کے نیچے اسی نام سے صوبائی حکومت نے اپنا علیحدہ محکمہ بنانے کا اعلان کیا۔ جس کے افتتاح پر سرکاری خزانہ بے دریغ لٹایا گیا۔ ہمارے بین الاقوامی معاہدے‘ جو ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی آف امریکہ کے ساتھ ساتھ FATF وغیرہ سے متعلقہ قوانین کے نیچے ہوتے ہیں‘ ان میں پاکستان کی نمائندگی ہمیشہ ANF‘ وفاقی وزارت اور ڈی جی کے ذریعے کرتی ہے۔ فورس کے ڈائریکٹر جنرل‘ میجر جنرل اور دوسرے عہدوں پر عسکری عہدیدار ہوتے ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ پنجاب پولیس کے نیچے جو بھی متوازی محکمہ کھڑا کیا جائے گا اس کو سیاسی آقا اپنی جیب کی گھڑی اور اپنے ہاتھ کی چھڑی بنا کر بوقتِ ضرورت مخالفوں پر برساتے جائیں گے۔ آئینِ پاکستان میں امن و امان کا شعبہ صوبوں کو دیا گیا ہے اور بس۔ اب جو گھریلو ٹوٹکے پنجاب گورننس میں آزمائے جار ہے ہیں اُن پہ مبنی بچگانہ سوچ عارضی واہ واہ تو کرا سکتی ہے مگر ملک کے سب سے بڑے صوبے کی گورننس ہرگز بہتر نہیں بنا سکتی۔ اینٹی نارکوٹکس فورس ایک قابلِ اعتماد قومی ادارہ ہے جس کی بین الاقوامی پذیرائی کا میں ذاتی طور پر تب معترف ہوا جب ایوب آفریدی کیس میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں پشاور ریجن ANFنے میری خدمات بطور سینئر ASCلیں۔ ANFکے قانونی ایریا آف آپریشن میں پنجاب پولیس کو گُھسانا ایک طرح سے میرٹ اور ٹرانسپیرنسی کا پولیس مقابلہ ہے۔ اس ملک میں پولیس منشیات کے حوالے سے پہلے ہی آزمائی جا چکی۔ آپ کو یاد ہو گا امتناعِ حدود آرڈیننس 1979ء ضیاء دور میں لاگو ہوا تھا۔ اب ضیاء کی باقیات نے ایک بار پھر اپنے سیاسی مرشد کی یاد تازہ کی۔ تب‘ جب کوئی مشتبہ پولیس پکڑتی اس سے پوچھا جاتا تمہیں غنڈہ ایکٹ میں چارج کریں‘ تعزیراتِ پاکستان یا حدود آرڈیننس میں۔یوں اُس دور میں رشوت خوری کے دو متوازی دروازے کھولے گئے۔ بڑی تعداد میں پولیس اہلکار خود بھی منشیات فروشی اور سرپرستی کے جرم میں گرفتار ہوتے رہے مگر ANFپر کبھی بداعمالی اور بد انتظامی کے الزامات نہیں لگے۔ ملک کو تماشا بنانے کے کاریگر ANFکے کام میں مداخلت کاری کے ذریعے اسے تماشا نہ بنائیں تو پبلک کا بھلا ہو گا۔ صرف اینٹی نارکوٹک فورس ایکٹ 1997ء کا سیکشن 13پڑھ کر دیکھ لیں‘ جس کا دائرہ اختیار ان لفظوں میں صوبۂ پنجاب کو کور کرتے ہوئے بیان ہوا:
Every member of the force shall be deemed to be always on duty and be liable to serve everywhere within or without Pakistan.۔ ANFکے اس بین الاقوامی دائرۂ کار کو چیلنج کرنا نہ ملک دوستی ہے نہ عوام دوستی۔
دستورکو گھریلو ٹوٹکا بنانے کی دوسری مثال: دوسرے نمبر پہ سب سے بڑی مثال دستورکو منظورِ نظر خاندان کی پرچی بنانیوالی فیڈرل سکیورٹی فورس سیزن ٹُو کی تخلیق ہے۔ جس کیلئے ہمیشہ کی طرح چھٹی والی آدھی رات ایوانِ صدر سے آرڈیننس بر آمد ہوا۔ جس کے ذریعے Frontier constabularyکی تشکیلِ نو کے نام پہ صوبائی خودمختاری میں دخل اندازی کی گئی۔ ایف سی ایک ایسی فورس کے طور پر پہچانی جاتی ہے جو امن و امان یا دہشت گردی کی لہر سے متاثر ہونے والے علاقوں میں مقامی اور صوبائی حکومت کی درخواست پر تعینات ہوتی آئی ہے۔ نئے آرڈیننس کے بعد ایف سی‘ ایف سی نہیں رہی بلکہ اسے پولیس کے اختیارات سونپ دیے گئے ہیں۔ ہماری دستوری سکیم میں پولیس لاء اینڈ آرڈر کے نیچے بہت سے محکموں میں سے ایک محکمہ ہے جس کا دائرہِ اختیار صوبائی خودمختاری کے احترام کے تحت وفاقی یونٹس تک محدود ہوا‘ جس میں چار صوبے‘ آزاد کشمیر‘ گلگت بلتستان کا عبوری صوبہ اور اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری آتے ہیں۔ پنجاب پولیس فیض آباد انٹر چینج کے نادرن سائیڈ پہ کوئی اختیار نہیں رکھتی جبکہ اسلام آباد پولیس کو فیض آباد انٹر چینج کے مری روڈ میں کارروائی کرنے کا اختیار نہیں۔ FSF سیزن ٹُو کے ذریعے سے صوبائی خودمختاری کے طے شدہ تصور پر حملہ سراسر ماورائے آئین اور صوبوں کے درمیان بے وجہ تلخی جنم دے گا۔
پاکستان کا اصل مسئلہ عوام کا موجودہ نظام پر عدم اعتماد ہے جس کا ایک ثبوت یو این ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس کی رپورٹ 2024ء سے ملتا ہے۔ وہ ملک جہاں سے لوگ تیزی سے ترکِ وطن کر رہے ہیں‘ ان میں وینزویلا 1.13لاکھ‘ یوگنڈا 1.26لاکھ‘ یونان 1.59لاکھ‘ فلپائن1.64لاکھ‘ برازیل 2.40لاکھ‘ یوکرین تین لاکھ‘ ترکیہ 3.18لاکھ‘ نیپال 4.10لاکھ‘ بنگلہ دیش5.50لاکھ‘ چین 5.68لاکھ‘ سوڈان 14لاکھ اور پاکستان 16لاکھ آبادی کی سالانہ ترکِ وطن بتائی گئی۔ ٹی ایس ایلیٹ نے اپنے شہرۂ آفاق لٹریچر میں سمبل ازم Hollow manاستعمال کیا تھا۔ نسلِ آدم کی ایسی اکائی جو اندر سے خالی ہو گئی۔ قومی اداروں کو یوں تاراج کرنا فریب خوردہ لیڈروں کے تکبر کی انتہا ہے۔
فریب دے نہ زمانے کو‘ پارسا نہ بنے
اسے کہو کہ وہ بندہ بنے خدا نہ بنے
امیرِ شہر یہی چاہتا ہے یا حضرت
ہماری چیخ گلے میں رہے صدا نہ بنے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں