ہماری بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت طلب سے زیادہ ہے لیکن پلانٹس بند پڑے ہیں چند روز قبل سر زمینِ پاک تاریکی میں ڈوب گئی۔ افواہیں پھیلیںتومارشل لا ء کا ذکر بھی ہوا۔ جمہوریت کے پانچ برسوں نے ہوش ایسے ٹھکانے لگائے ہیں کہ کوئی اضطراب نہ تھا۔ فوج اپنا وزن الیکشن کے پلڑے میں ڈال چکی ہے ۔ خدا مارشل لا ء کی نحوست سے ہمیں محفوظ رکھے لیکن اربابِ سیاست ہوش کے ناخن لیں۔ بجلی کی فراہمی اور طلب میں پانچ ہزار میگا واٹ کے فرق نے نظام درہم برہم کر دیا ہے۔افسوسناک یہ ہے کہ چار ہزار میگاواٹ ایندھن کی عدم دستیابی کی وجہ سے ۔موسمِ گرما میں طلب بڑھے گی ؛لہٰذا حادثہ دوبارہ پیش آسکتاہے ۔سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی پرنسپل سیکرٹری نرگس سیٹھی کو ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے ۔ وہ سابق سیکرٹری پانی و بجلی ،دفا ع، ہیلتھ اور کیبنٹ سیکرٹری ہیں۔ پہلی مرتبہ نہیں کہ یہ نام اُبھرا ہو۔سات ارب روپے کے ایفی ڈرین سکینڈل میں مخدوم شہاب الدین جیسا گھاگ سیاستدان اور کئی سینئر بیوروکریٹ پٹ گئے۔نرگس سیٹھی نے مگر کمال ذہانت سے اپنا دامن بچایا۔ 2009ء میں ایفی ڈرین سمگل کرنے والی کمپنی نے 2011ء میں دوبارہ کوشش کی تو ڈی جی ہیلتھ اسد حفیظ نے کوٹہ دینے سے انکار کر دیا۔ وزیراعظم کے فرزند علی موسیٰ گیلانی نے اسد حفیظ پر دبائوڈالا تو انہوںنے درخواست نرگس سیٹھی کی طرف بڑھا دی۔ محترمہ نے پھاڑ کر اسے ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ دوسری مرتبہ ان سے منسوب ایک سفارش پر کوٹہ جاری کرنے کے بعد ڈائریکٹر ہیلتھ نے نرگس سیٹھی کو مطلع کیا۔جواب ملا کہ ایسی کوئی سفارش انہوںنے کی ہی نہیں ۔ وزارتِ صحت کے افسروں سے نرگس سیٹھی نے کہا کہ انہیں قانون کی پیروی کرنی چاہیے تھی ۔ دوبارہ یہ نام تب اُبھرا جب حسین حقانی کے لکھے میمو پر حکومت اور فوج میںتنازع پیدا ہوا۔ آرمی چیف نے سپریم کورٹ کا رخ کیا۔ جناب یوسف رضا گیلانی نے سیکرٹری دفاع کومرضی کا بیان نہ دینے پر فارغ کیا تو یہ نرگس سیٹھی تھیں جنہیں ان کا عہدہ سونپا گیا۔ نیو یارک ٹائمز نے تب لکھا کہ آرمی نرگس سیٹھی کو قبول نہیں کرے گی۔یوسف رضا گیلانی کو عدالت نے چلتا کر دیا ۔ مخدوم شہاب الدین کو وزیر اعظم بننا تھالیکن بریگیڈئیر فہیم نے ان کے وارنٹ جاری کر دیے ۔ راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بن گئے اور شور اٹھا کہ فوج کرائے کے بجلی گھروں کی کرپشن میں ملوّث اور لوڈشیڈنگ کے ذمہ دار راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتی ہے۔ ایک نجی محفل میں جنرل کیانی نے تاسف سے بتایا کہ فوج کچھ بھی نہ چاہتی تھی ۔ جیسے ہی سپریم کورٹ نے اے این ایف میں تبادلوں سے پابندی ہٹائی، بریگیڈئیر فہیم کو واپس بلا لیا گیا۔ بجلی کا بحران سنگین ہوتا جا رہاہے۔ مسئلے کے ہر پہلو پر بحث ہو چکی ہے ۔ ہزار ایجادات ہیں ، جو بجلی کے بغیر بے کار ہیں لیکن کم از کم ہمیں گھروں کو روشن رکھنا اور کارخانے چلانے ہیں ۔ بجلی کی عدم فراہمی کا مطلب ہے صنعت اور کاروبار کے لیے ناموزوں حالات، سرمائے کا فرار ، بے روزگاری اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی۔ روز مرہ زندگی کی تکالیف کو نظر انداز کر بھی دیا جائے تو معیشت کی بربادی۔ بجلی کی پیداوار کے لیے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بجلی خود بھی توانائی ہے ۔ الیکٹریسٹی (Electricity)الیکٹران سے ہے ۔ ایٹم کے مرکزے کا طواف کرتے الیکٹران کا بہائو بجلی کہلاتا ہے۔ الیکٹران کو ایٹم سے جدا کرنے کے لیے توانائی چاہیے ۔ یہ توانائی کوئلے ، تیل یا گیس جلا کر حاصل کی جاتی ہے یا بہتے پانی سے۔ ایٹمی بجلی گھروںمیں ایٹم کے مرکزے توڑ کر بھی ۔ ہر ملک اپنے وسائل اور حالات کے مطابق انتخاب کرتاہے ۔ مثلا فرانس 77فیصد بجلی جوہری توانائی سے حاصل کرتاہے لیکن برق رفتارچین صرف 1.2فیصد ۔ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے تیل سے بجلی کی پیداوار بہت ہی مہنگی ہے۔ جتنا ہو سکے ، ہمیں اپنے پاور پلانٹس میں تبدیلیاں لا کر کوئلے کا استعمال کرنا چاہیے ۔ہماری بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت طلب سے زیادہ ہے لیکن پلانٹس بند پڑے ہیں ۔ گردشی قرضے نے معاملہ بگاڑ رکھا ہے ۔ تیل کی در آمد ، صفائی ، بجلی بنانے والوں کو اس کی فراہمی ، بجلی کی پیداوار اور تقسیم تک کئی فریق ایک دائرے میں جُڑے ہیں ۔ ایک ادائیگی نہیں کر پاتا تودوسرے کا مقروض ہو جاتاہے اور دوسرا تیسرے کا۔ بڑھتے بڑھتے یہ قرضہ چار سو ارب روپے سے بڑھ گیا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دو ہزار ارب کی سالانہ کرپشن ہوتی ہے ۔مزید افسوسناک یہ ہے کہ شدید بحران پر ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے ۔ مرکزی اور صوبائی حکمران ڈگڈگی بجانے میں مصروف رہے ۔مثلاً پنجاب حکومت نے پچھلے دو برسوں میںانیس ارب روپے بجلی کے لیے مختص کئے ، نوجوانوں کے لیے سینتالیس ارب اور میٹرو بس منصوبے پر کم از کم پینتیس سے چالیس ارب۔مزید یہ کہ بجلی کے لیے مختص روپے بعد ازاں دوسرے منصوبوں پر لگا دیے گئے ۔ مرکزی حکومت کے کارنامے اس سے بہت بڑھ کر ہیں ۔صرف اوگرا کا ایک سکینڈل اسّی ارب کا ہے ۔ پیپلز پارٹی اورنون لیگ تاریکی ختم نہ کرسکیں ۔ پیپلز پارٹی اب مر رہی ہے اور ق لیگ بھی ۔ ایم کیو ایم ، اے این پی اور جمعیت علماء ِ اسلام عصبیت پر قائم ہیں ۔وہ کبھی ملک گیر تبدیلی نہ لا سکیں گی۔ عمران خاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں سیاست کا فہم نہیں ۔وہ ایک شاندار منتظم ہیں ۔ وہ پہل کرتے اور چیلنج قبول کرتے ہیں ۔ ان کے خیر خواہ سمجھاتے رہے کہ پارٹی الیکشن توانائی برباد کردیں گے ۔وہ ڈٹے رہے اورآج سب انہیں سراہ رہے ہیں کئی دوسرے رہنمائوں کی طرح ان میں مقبولیت کی ہوس نہیں ۔ قائل ہو جائیں تو وہ انتہائی نامقبول فیصلہ کر کے ڈٹ سکتے ہیں۔اقتدار انہیں نـصیب ہوا تو شاید سولر لیمپس کی بجائے بجلی کے منصوبے لگائے جائیں ۔