شام میں سرکاری فوجوں اور آزادی پسندوں کے درمیان کشمکش میں شدّت آگئی ہے ۔اسرائیل کا ہمسایہ شام مشرقِ وسطیٰ کا انتہائی اہم کھلاڑی ہے ۔صدر بشار الاسد کا اقتدار لڑکھڑا رہا ہے ۔ مغرب اپنی چال چل رہا ہے اور کیوں نہ چلے؟ مغرب نے مذہب اور اخلاقیات کو دفنا دیا لیکن ریاست کے تمام ادارے مضبوط بنیادوں پر تعمیر کرلیے ۔حکومت عوامی بہبود کے لیے کام کرتی ہے ۔ فوج سیاست میں دخل کا خواب بھی دیکھ نہیں سکتی ۔ عدالت کا حکم حتمی ہے۔ میڈیا آزاد ہے اور ذمّہ دار ۔ پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لیے وہ حکومتی ایما پر حرکت میں آتا ہے ۔ مغربی ممالک کا دوسرا کارنامہ تحقیق ہے۔ایک عظیم سرنگ میں اس نے بگ بینگ (Big Bang)کے بعد کا ماحول پیدا کیا کہ تخلیقِ کائنات کو سمجھ سکیں ۔ ہم ان کی تحقیق کا ادراک بھی نہیں رکھتے ۔ براعظم افریقہ میں فوج آج بھی حکومتیں الٹ رہی ہے ۔ مسلم دنیا میںبادشاہت ہے یا بدترین آمریت۔ اب بیداری کی ایک لہر ہے ، مغرب جسے ہائی جیک کرنا چاہتا ہے ۔شام کاماجرا بھی یہی ہے ۔ بشار کے والد ،شام کے سابق صدر حافظ الاسد بعث پارٹی کے کارکن تھے ۔ جماعت کو اقتدار ملا تو وہ ائیر فورس کے کمانڈر بن چکے تھے ۔اپنے ساتھیوں کے ہمراہ انہوںنے پارٹی قیادت ملک بدر کر دی اور خود براجمان ہو گئے ۔ وہ وزیر ِدفاع بنے ۔ یہ وہ دور تھا ، جب چھ دن کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کا بہت سا علاقہ چھن گیا۔ اب آرمی چیف کے ساتھ کشمکش شروع ہوئی ؛اگرچہ وہ حافظ الاسد کے مربّی تھے ۔ حافظ الاسد غالب آگئے ۔ آرمی چیف زنداں میں ڈال دئیے گئے ۔حافظ کے سیاسی مخالفین قید اور تشدد کا نشانہ بنتے رہے۔ روس کی مدد سے شامی فوج کو مضبوط کیا گیا۔ مصر سے فوجی اتحاد ہواکہ اسرائیل سے علاقہ واپس لیا جائے۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں حافظ الاسد ناکام رہے لیکن اسرائیل کی مزاحمت نے انہیں مقبول کر دیا ۔ عربوں کے عسکری اتحاد کی پوری کوشش انہوںنے کی جو قابلِ تعریف ہے دراصل اس کوشش کے پیچھے عرب دنیا کی لیڈری کا خواب تھا۔لبنا ن میں خانہ جنگی ہوئی تو شام کی فوج جا گھسی ۔تیس برس حافظ الاسد اقتدار میں رہے ؛حتیٰ کہ موت نے انہیں آلیا۔ آخری تجزیے میں ساری تگ ودو طاقت اور اقتدار کی تھی ۔ بے نظیر بھٹو کے بعد جب قیادت چننے کا مرحلہ آیا توذمہ داران‘ آصف علی زرداری سے اچھی طرح آگاہ تھے ۔اس کاروبار کا یہی نتیجہ نکلتاہے ۔ بہرحال حافظ الاسد کے فرزند بشار الاسد صدر بنا دئیے گئے ۔ سات برس کا ایک دور انہوںنے مکمل کیا ۔ دوسرا جاری تھا کہ عرب بہار پھوٹ پڑی۔ مصر ،لیبیااور یمن میں اقتدار الٹ گیا۔ کئی ممالک میں حکومتیں ڈگمگا گئیں۔ بشار الاسد نے کون سا تیر مارا تھا کہ بخش دیے جاتے ۔ مغرب یہاں بے نقاب ہوتا ہے ۔ لیبیا میں چالیس برس خود پسند معمّر قذافی براجمان رہے ، جو خود کو \"بادشاہوں کا بادشاہ \"کہتے۔ کسی دل میں لیبیا کو جمہوریت سے نوازنے کی خواہش نہ جاگی ۔حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے تو مغرب کے تیور بدل گئے ۔اسی کے حملوں کا نتیجہ تھا کہ معمّر قذافی اقتدار اور زندگی ہار گئے ورنہ اقتدار پر ان کی گرفت ایسی کمزور نہ تھی۔یہی ماجرا مصر کا ہے ۔ انور سادات کے قتل کے بعد انہی کے منتخب کردہ نائب حسنی مبارک مقتدر ہوئے ۔ تیس برس تک کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ خود انور سادات جمال عبدالناصر کا انتخاب تھے اور جمال عبدالناصر فوج سے تھے۔ حال ہی میں ابھرنے والی اخوان المسلمون کو انہی نے دفن کیا تھا۔ لیبیا کا کھیل اب شام میں دہرایا جا رہا ہے ۔ مغرب کا وزن حکومت مخالف اتحاد کے پلڑے میں ہے اور کیوں نہ ہو ؟روس سے فوجی روابط کے علاوہ اسرائیل مخالفت !بشار الاسد کو مگر شکوہ نہ ہونا چاہئیے ۔ان کے والدِ گرامی نے اپنے مخالفین پر کب رحم کھایا تھا؟ چین اور خاص طور پر روس اقوامِ متحدہ میں بشا رالاسد کے حمایتی ہیں ۔ بشار الاسد کے ساتھ روس کو اپنی عشروں کی سرمایہ کاری بھی ڈوبتی نظر آرہی ہے ۔بیج اس نے بویا تھا ، آبیاری اس نے کی تھی اور فصل امریکہ کاٹ لے؟ روس کی کوشش ہے کہ حکومت اور مخالفین میں کسی طور معاملہ کرادے ۔ شام کا حلیف ایران بھی چوکنّا ہے ۔ بظاہر دونوں اسرائیل مخالف ہیں ۔نام نہاد عالمی برادری پہلے ہی شامی حزبِ اختلاف کے حق میں ووٹ دے چکی ۔شام پابندیوں کی زد میں ہے اور عوام شدید مشکلات کا شکا ر ۔ آٹھ برس قبل لبنان کے وزیر اعظم رفیق الحریری کو قتل کر دیا گیا ۔کچھ انگلیاں اسرائیل کی جانب اٹھیں اور کچھ شام کی طرف۔ مقتول کا فرزند سعد الحریری اس تحریک کا حصہ تھا، جس نے عوا م کی حمایت اور مغرب کی پشت پناہی سے تین عشرے کے بعد شامی فوج کو نکال باہر کیا ۔ شرم کا مقام ہے کہ 8ستمبر 2007ء کو سعد الحریری سعودی انٹیلی جنس چیف کے ہمراہ پاکستان وارد ہوا ۔ مطالبہ پیش ہوا کہ میاں محمد نواز شریف سیاست سے دس سالہ کنارہ کشی کے معاہدے کی پاسداری کریں ۔ کسی بھی معاہدے سے منکر میاں محمد نوا زشریف نے بالآخر تسلیم کیا کہ پانچ برس کا ایک معاہدہ موجود تھا۔ جناب سعد حریری ، جن کی اپنی حکومت ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ کی ناراضی پر دھڑام سے آگری تھی ، پاکستانی سیاست میں حصہ لے رہے تھے۔عرب ممالک کی حالتِ زارپر افسوس ہے۔ دولت ہے مگر فوج نہیں ، میزائل پروگرام نہیں ۔ بحران میں اقوام پوری صلاحیت سے بروئے کار آتی ہیں لیکن وہ دولت کے نشے اور قوم پرستی سے نکل نہیںپار ہے ۔ اسرائیل اور مغرب سے زیادہ وہ ایران کی طرف متوجہ ہیں۔ ادھر ایران کا حال یہ ہے کہ وہ مسلم امّہ کا لیڈر بننا چاہتاہے لیکن ایک ذرا سے اختلاف کی وہاں گنجائش نہیں ۔ حل نکالنا ہو تو ایسا مشکل بھی نہیں ۔ صدر بشار الاسد متنازع ہو چکے ۔یوں بھی ایک شخص کو تاحیات حکومت اور قوم کی قسمت لکھنے کا اختیارنہیں دیا جا سکتا۔ اپنی علیحدگی کے اعلان کے ساتھ بشار الاسد انتخابات کرا سکتے ہیں ، عالمی برادری جسے اچھی طرح پرکھ لے۔ وہ مگر ایسا کیوں کریں گے ؟ والدِ گرامی نے سلطنت اس لیے نہ ہتھیائی تھی کہ یوں لٹا دی جائے ۔وہ باغیوں کو حکومت میں حصہ رسدی دینے کو تیار ہیں ۔ باغی اس انتظار میں ہیں کہ امریکی سرپرستی میں بشار الاسد پر حملے کیے جائیں ۔ موقع پا کر اسرائیلی فضائیہ بھی در آتی ہے ۔افسوسناک یہ ہے کہ انسانی المیہ جنم لے رہا ہے ۔ستّر ہزار افراد قتل ہو چکے اور دس لاکھ نے بیرونِ ملک ہجرت کی ہے ۔ خیموں میں بچّے ٹھٹھر رہے ہیں ۔ \"کب ہم گھر لوٹیں گے ؟\" ان کے چہروں پہ لکھا ہے ۔ کسی طور ہمارے بچوں سے وہ مختلف نہیں ۔ خدا ان کا حامی و ناصر ہو۔