"FBC" (space) message & send to 7575

گٹھ جوڑ

جمہوریت کیا ہے ؟ ووٹ کے ذریعے عوام اپنے حکمران خودمنتخب کریں ۔ حکومت اپنی آئینی مدّت پوری کرے ۔فوج دفاع تک محدود رہے۔ مضبوط بنیادوں پر ادارے تعمیر ہوں اور اپنی حدود میں رہیں ۔ احتساب کانظام موجود ہو۔یہاں تک تو ٹھیک ہے ، سوال یہ ہے کہ جذبات کی رو میں اگرعوام غلط فیصلہ کر لیں ، منتخب حکومت اگر ابتدا ہی میں ناکام ثابت ہو ، وہ عوامی مفادات کے برعکس بروئے کار رہے ،کرپٹ اور نا اہل ہو توکیا لازماً اس کا اپنی مدّت پوری کرنا جمہوریت ہے ؟ کتنے ممالک ہیں ، جہاں حکومتیں ناکام ہوتی ہیں ،عوا م گھروں سے نکلتے ہیں اور بالآخرنئے الیکشن ہوتے ہیں۔ ابھی دو ماہ قبل بلغاریہ میں بجلی کی مہنگے نرخوں پر فراہمی اورمسلسل گرتے ہوئے معیارِزندگی کے خلاف شدید احتجاج ہوا ۔ بالآخر حکومت مستعفی ہوئی اور یہ وہ حکومت تھی، تین ماہ بعد جس کی مدّت ویسے ہی تمام ہو جانی تھی ۔ہمیں تو بتایا جاتا تھا کہ سسٹم کو پٹڑی سے اترنے نہیں دینا ۔ ہمیں تو مہنگے داموں بھی بجلی میسّر نہ تھی ۔اسی طرح بے روزگاری اور مہنگائی۔ بلغاریہ میں پہلی وکٹ وزیر ِ خزانہ کی گری اور شوکت عزیز کی مانند وہ ورلڈ بینک کا تجربہ رکھنے والا بہت \"با عزت\"وزیر تھا ۔ الیکشن 2008ء کے ہنگام محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا تونئی قیادت کس نے منتخب کی ؟ پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلسِ عاملہ نے ۔ کن بنیادوں پر ؟ نئی قیادت کا ماضی کیا تھا؟ کتنے الزامات تھے ۔ خود بے نظیر کو اپنا سیاسی جانشین چننے کا موقع ملتا تو کس کو وہ منتخب کرتیں ؟ پیپلز پارٹی کے ہمدردوں کو اس کا جواب دینا چاہیے ۔ بہرحال نئی قیادت ملکی مسائل حل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ۔ آج کھل کر اس پر بات کی جا رہی ہے لیکن کب یہ راز سیاستدانوں پر آشکار ہوا تھا؟ کیا ابتدائی دو برسوں میں واضح نہ ہو گیا تھا کہ ملک معاشی بدحالی کی جانب دوڑ رہا ہے ؟ کرائے کے بجلی گھروں سے واضح نہ ہو گیا تھا کہ یہ حکومت بجلی کا مسئلہ حل نہ کر پائے گی ۔ خارجہ پالیسی یہ تھی کہ اقوامِ متحدہ میں ہمارے خلاف قرار داد پیش ہونے کے موقع پر چین کو ہم نے خود کہا کہ ویٹو نہ کرے ۔ تھوک کے حساب سے امریکیوں کو ویزے دئیے گئے کہ ارضِ پاک کی جاسوسی کریں ۔ شک کی کوئی گنجائش باقی تھی کہ ملک کو نئے الیکشن درکار ہیں ؟ پیپلز پارٹی ، قاف لیگ، ایم کیو ایم اور اے این پی حکومت میں تھیں ۔ جمعیت علمائِ اسلام کا حسبِ معمول کچھ پتہ نہ تھا کہ حکومت میں ہے یا اپوزیشن میں ۔ نون لیگ پنجاب سمیٹ کر بیٹھی تھی ۔ پہلی بار اب مل کر کھانے کا رواج قائم ہوا تھا۔ باقی تو چھوٹی علاقائی جماعتیں تھیں، صرف نون لیگ حشر اٹھا سکتی تھی۔ ساڑھے تین برس تک وہ دم سادھے بیٹھے رہی ۔کیا اس لیے کہ مسائل بہت ہی گھمبیر تھے یا ایک خاموش مفاہمت کارفرما تھی ؟یا اس لیے کہ اپنی باری کا انتظار ہو رہا تھا؟ بڑے سیاستدانوں نے اپنی دولت باہر منتقل کر دی تھی ۔مارشل لا نافذ کرنے کے ان گنت مواقع کے باوجود پہلی مرتبہ فوج لا تعلق تھی ۔ مشرق اور مغرب میں وہ کڑے امتحان سے گزر رہی تھی ۔ سابق جرنیلوں کی مہم جوئی کے سبب دن رات اسے طعنے دیے جاتے تھے ۔ نون لیگ کو یقین تھا کہ اگلی حکومت اس کی ہے ۔ اور تھا ہی کون؟ حکمتِ عملی یہ تھی کہ ملک تباہ ہوتا ہے تو ہوتا رہے؛حتیٰ کہ عمران خان نے تیس اکتوبر 2011ء کا جلسہ کر ڈالا ۔اب برق رفتاری سے بڑے بڑے پراجیکٹ بنائے گئے ۔ کوئی ایک کارنامہ نہیں ، جو تیس اکتوبر2011ء سے قبل انجام دیا گیا ہو ؛اگرچہ بعد کے منصوبوں کا خراج بھی ملکی خزانے سے ادا ہوا اور ہدف ووٹ بٹورنا تھا۔ مرکزی حکومت ناکام تھی تو اپوزیشن کو نئے الیکشن کی راہ ہموار کرنا چاہیے تھی ۔ غیر آئینی حربوں سے ، فوج کو پکار کے نہیں ۔ اس کے لیڈروں کو پنجاب اسمبلی تحلیل کر کے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونا تھا ۔ انتخابات کے سوا تب کیا چارہ ہوتالیکن آخری دن تک وہ پنجاب حکومت سے چمٹے رہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ساڑھے تین برس تک دونوں جماعتیں مل کر حکومت کرتی رہیں ؛حتیٰ کہ میڈیا ان کے باہمی گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنے لگا۔ مرکزی حکومت نے تین چار سو ارب روپے بطور رشوت اپنے ووٹرز کو دئیے تو اپنی بساط کے مطابق پنجاب نے بھی یہی کیا۔ یہی اربوں روپے اگرپنجاب میں بجلی کے منصوبوں پر لگائے جاتے ؟ اگر زیادہ نہیں تو پنجاب کے دو شہروں سے لوڈ شیڈنگ ختم کر دکھاتے کہ ہمارے بس میں تو یہی ہے۔ فرماتے ہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بلانے کے لیے ساورن گارنٹی مرکزی حکومت فراہم نہ کرتی تھی ۔ تضاد دیکھئے کہ پیپلز پارٹی اورنون لیگ نے مل کر آئین میں ترامیم کیں ،تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے پر پابندی ختم کی، جس کا فائدہ صرف اور صرف نون لیگ کو ہونا تھا ۔دونوں نے مل کر ایک ضعیف آدمی کو چیف الیکشن کمیشن مقرر کیااور ایک ڈرامہ رچا کر اتنے ہی ضعیف آدمی کو وزیر اعظم۔ سب کچھ ہو سکتا تھا لیکن مرکزی حکومت بجلی کے منصوبوں کے لیے پنجاب حکومت کو اجازت نہ دیتی تھی ، جس کا فائدہ خود اسے ہوتاکہ لوڈ شیڈنگ میں کمی کا امکان پیدا ہوتا ۔ حقیقت تو یہ تھی کہ پنجاب کے پاس پیسے بچتے کب تھے کہ بجلی کے منصوبے لگائے جاتے ۔سب کچھ تو لٹا دیا جاتا تھا۔ پانچ برس میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملک اگر اجاڑ ڈالا تو ن لیگ اس گناہ میں برابر کی شریک ہے ۔ اس کے نامہ ء اعمال میں یہ لکھا جا چکا۔ اب تبدیلی ناگزیر ہے ۔ ووٹ کے ذریعے پر امن طور پر نہیں تو آنے والے برسوںمیں خون بہے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں