"FBC" (space) message & send to 7575

بقا کا رستہ

انسان کی جو خصوصیات جانور سے اسے جدا کرتی ہیں ، ایثار ان میں سے ایک ہے ۔ بلاشبہ یہ بہت بڑی خوبی ہے ۔جن مسائل میں ہم گھرے ہیں ، ان سے سلامت گزرنے کے لیے اب اس کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ نیشنل جیوگرافک چینل کی ایک دستاویزی فلم یاد آتی ہے ۔ شیر کابچہ اپنے گروہ سے بچھڑ گیا تھا۔ تنہا جینے کے وہ قابل نہ تھا۔ دو بچوں والی ایک اجنبی شیرنی سے اس کا سامنا ہوتاہے ۔ نہایت مسرّت سے اس کی طرف وہ لپکتا ہے لیکن بے رحمی سے شیرنی غرّاتی ہے ۔ انجان بچے کے لیے اس کے دل میں کوئی رحم نہیں ۔قریب آنے کی کئی ناکام کوششوں کے بعد وہ محفوظ فاصلے پر اپنے ہم نسلوں کے پیچھے چلتا رہتا ہے لیکن درندہ پلٹ کر نہیں دیکھتا ۔بالآخر وہ اپنی راہ لیتاہے ۔ فلم ساز یہاں بتاتاہے کہ اس کے زندہ بچ رہنے کا امکان بہت کم ہے ۔ ایثار کے ممتاز کردینے والے جذبے نے پہلی بار انسان کے دل میں کب انگڑائی لی تھی ؟ موجودہ انسان ہومو سیپین (Homo Sapien) کہلاتاہے ۔اس کی عمر کا اندازہ 40سے 90ہزار سال ہے۔ موجودہ اسرائیل سے 90ہزار برس پرانے انسان کی باقیات ملی ہیں ۔ دماغ کا حجم ہمارے برابر۔عجیب بات یہ ہے کہ متوازی طور پر چھوٹے دماغ والی ایک اور انسانی نسل بھی جی رہی تھی اور 35000 سال قبل تک وہ باقی رہی ۔اس کا نام نینڈرتھل مین (Neanderthal Man)تھا۔ بہت کم ذہین ہونے کے باوجود وہ اس قابل تھا کہ پتھر کے مہارت سے تراشے گئے اوزار رکھتا تھا ۔ ہاتھی جیسے خطرناک جانور کی ہڈیاں اس کے قریب سے ملی ہیں ۔ یعنی دوسرے درندوں پر وہ حاوی تھا۔ مذہب نام کی کسی چیز سے وہ واقف نہ تھا۔مثلاً اپنے مردوں کو یوں ہی چھوڑ دیتا ۔عجیب بات یہ ہے کہ اس نسل کی باقیات بتاتی ہیں کہ ان میں ایسے تھے ،جو معذوری کے بعد کافی برس جیے۔ ظاہر ہے کہ صحت مند افراد کے رحم و کرم پہ ان کا دارومدار تھا ۔وہ غیر ذہین اور وحشی انسان ، بقا کی ہولناک جنگ سے جو دوچار تھا، اپنے ہم نسلوں کی دست گیری کرتا تھا۔ آنکھ اٹھا کر اب اپنی سرزمین کو ذرا دیکھیے۔ بلوچستان اور پختون خوا بدترین دہشت گردی کا شکار، کراچی ٹارگٹ کلرز کے حوالے ، 800 ارب روپے کا گردشی قرضہ اور بدترین لوڈ شیڈنگ ، گیس کے لیے لمبی قطاریں ،کارخانے بند ، 12500ارب کے اندرونی اور بیرونی قرضے ، زرِ مبادلہ کے ذخائر 7ارب ڈالر، مشرق میں زبان ہونٹوں پہ پھیرتا بھارت اور مغرب میں خون بہاتی عالمی طاقت ، ایک کمزور پاکستان جسے سازگار ہے ۔ کیا کیا جائے ؟ غیر معمولی مسائل ہیں تو طرزِ عمل بدلنا ہوگا۔ بجا کہ نئی حکومت کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہے لیکن بجلی کا گردشی قرضہ چکانے کے لیے ہم سب مل کر کچھ کر سکتے ہیں ؟ میاں محمد نواز شریف اور عمران خان ایک مشترکہ اکائونٹ میں ذاتی آمدن سے دس دس لاکھ روپے جمع کرائیں ۔ پھر ملک بھر کے مالدار افراد ایثار کریں ۔معمولی آمدنی والے ہزار روپے دیں اور کروڑ پتی ایک لاکھ۔ قوم کی خاطر دونوں لیڈر کشکول اٹھائے بیرونِ ملک پاکستانیوں کے در پہ جائیں ۔انہیں بتائیں کہ وطن میں ان کی قوم ایڑیاں رگڑ رہی ہے ۔ صرف بجلی کا مسئلہ ہی نہیں ۔ اس کڑے دور سے سلامت گزرنے کے لیے ہر متمول کو ایثار کرنا ہوگا۔ ایک کمزور اور عمر رسیدہ آدمی اس حال میں نظر آتا ہے کہ اشیائے صرف کی قیمتیں دیکھ کر اس کے ماتھے پرپسینہ آجاتاہے ۔ کانپتے ہاتھوں سے وہ ریزگاری نکال کر شمار کرتا ہے ۔وہ ہاتھ نہ بھی پھیلائے مگر اس کی مدد لازم ہے۔ دو روز قبل راولپنڈی میں ایک ماں کو اس حال میں دیکھا گیا کہ خسرے کے شکار ، اپنے بے ہوش بچے کو اٹھائے ہسپتال کا پتہ پوچھتی تھی ۔قریب کے ایک کلینک کا اسے بتایا گیا تو معلوم ہوا کہ وہاں سے وہ ہو آئی ۔ خاتون ڈاکٹر نے خالی جیب دیکھ کر اسے دھتکار دیا تھا ۔ اور جنابِ رئوف کلاسرہ کا قصہ کہ رات گئے ایک مجروح کم سن سے سامنا ہوا۔ اسے ہسپتال لے گئے اور شفقت کی۔اس طرزِ عمل کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ بے حس اور لاتعلق ہو کر ہم مٹ جائیں گے ۔ انسانی ارتقاکا جو ذکر میں نے کیا ہے ، بہت سوں کے نزدیک وہ ناقابلِ یقین ہوگا۔ اس لیے کہ اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ آدمؑ پہلے انسان تھے ، علم میں جنہوںنے فرشتوں کو شکست دی ۔ وہ کسی ارتقا پذیر انسانی نسل سے تعلق نہ رکھتے تھے ۔ یہ بھی لیکن حقیقت ہے کہ انسان نما مخلوقات کی باقیات موجود ہیں ۔دو ٹانگوں پر چلنے والے مگر دماغ چھوٹے ۔ پھر دس لاکھ برس قبل کے ہمارے اجداد ، جو ہومو اریکٹس (Homo Erectus)کہلاتے تھے ، ان کے بارے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ اس وقت وہ واحد انسان نما مخلوق تھے ۔اس کی ذہنی صلاحیت آج کے انسان سے بے حد کم تھی ۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے اس عقدے کو سلجھایا ہے ۔ قرآنِ کریم خود انسانی ارتقا کی طرف اشارہ کرتا ہے \"زمانے میں انسان پر کتنا وقت گزرا کہ وہ کوئی قابلِ ذکر شے نہ تھا\"۔آدم ؑ تو بہت ہی قابلِ ذکر تھے ۔ کیا وہ پہلے ہو مو سیپین تھے ، جس کے منظرِ عام پر آنے کے ساتھ ہی مذہب اور آرٹ کا آغاز ہو جاتاہے ؟ انسان مردوں کو دفنانے لگتاہے ۔ اب ایک اور زاویے سے غور کیجئے۔ پچھلے تین سو برس میں انسان نے بے انتہا علم اگلی نسلوں میں منتقل کیا ہے ۔ قریب ہے کہ انسان کلوننگ کے ذریعے اپنا جڑواں پیدا کر سکے ۔ ڈی این اے اور جینز میںمداخلت سے جسم میں موجود خامیوں کی اصلاح کی جائے گی ۔ اس سے اگلا قدم کیا ہوگا؟ بعض سائنسدانوں کے نزدیک اب شبہے کی گنجائش نہیں کہ اگلی ایک صدی میں ذہانت سے متعلق جینز میں بہتری لائی جائے گی ۔ کیا یہ بھی ارتقا کی ایک صورت نہیں ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں