"FBC" (space) message & send to 7575

ملالہ یوسف زئی ، حقیقت اور افسانہ

اقوامِ متحدہ میں ملالہ یوسف زئی کے خطاب پر دو طرح کا ردّعمل سامنے آرہا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ قاتلانہ حملے کے بعدہی سے دو مختلف آراتھیں اور دونوں میں بڑی شدّت ۔ بایاں بازو ملالہ کی عظمت کو سلام کر رہا ہے اور سوشل میڈیا یہ ماننے سے ہی انکاری ہے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش آیا۔ مختلف تصاویر دکھا کر یہ پوچھا جاتارہا کہ گولی کا نشان کہاں ہے؟ اسے \"ڈرامہ یوسف زئی \" قرار دیا گیا۔ لال ٹوپی والا اسے سی آئی اے اور را کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے دیکھ رہا ہے ۔ عام آدمی حیران ہے کہ ماجرا کیا ہے ۔ 2007ء میں صوفی محمد کی تخلیق کردہ تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمد ی ؐ ایک بار پھر نمایاں ہو رہی تھی ۔ سوات کے زیادہ تر علاقے پر وہ قابض ہو چکی تھی ۔ صوفی محمد جیل میں تشریف فرما تھے اورلیڈر شپ ابـ\"ملّا ریڈیو\"کہلانے والے مولوی فضل اللہ کے ہاتھ میں تھی۔ لال مسجد آپریشن کے بعد شدّت پسندی کا جن پوری طرح بوتل سے باہر آگیا تھا۔ مولوی فضل اللہ نے حکیم اللہ محسود کی تحریکِ طالبان سے ہاتھ ملا یا ۔2008ء میں سوات میں قیامِ امن کے لیے ایک معاہدے کے تحت صوفی محمد کو رہا کر دیا گیا۔ جنوری 2009ء میں حالات اس نہج تک پہنچ چکے تھے کہ وہاں متوازی عدالتیں کام کر رہی تھیں اور لڑکیوں کے سکول بند کر دئیے گئے تھے۔ خوف اس عجیب وغریب مخلوق کا بنیادی ہتھیار ہے ۔خود بھی وہ یہی زبان سمجھتے ہیں ۔ ٹیلی ویژن، موسیقی پر پابندی اورداڑھی نہ رکھنے پر کوڑے۔ لڑکیوں کی تعلیم ان کے نزدیک حرام ہے ؛لہٰذا سکول گرائے جا رہے تھے ۔یہ تو خیر ممکن نہیں کہ رسولِ عربی ؐ کا یہ قول ان تک نہ پہنچا ہو کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد اور عورت )پر فرض ہے لیکن اپنی قبائلی رسومات انہیں اللہ کے نبی ؐ سے زیادہ عزیز تھیں ۔ ملالہ کے قصبے مینگورہ میں فضل اللہ کے حکم کے باوجود کھلنے والے 10سکولوں کو بارود سے اڑا دیا گیا تھا۔ فروری 2009ء میں شرعی نظامِ عدل کا معاہدہ طے پایا اور جنگ بندی کر دی گئی ۔ صدر زرداری نے شریعہ نظامِ عدل ریگولیشن پر باقاعدہ دستخط کیے تو بلّی تھیلے سے باہر آگئی ۔ اپنی کامیابی پر شکر اور قناعت کی بجائے صوفی محمد نے اب جمہوریت کو کفر کا نظام قرار دیا۔ بینک ڈھانے کے اعلانات ہوئے ۔دیر آید ، درست آید، مئی 2009ء میں آپریشن راہِ راست کا آغاز ہوا ۔ شدّت پسندوں کی کمر توڑ دی گئی اور بالآخر اگست میں 22لاکھ افراد کی اکثریت سوات میں اپنے گھروں کو لوٹ گئی ۔ یہ وہ حالات تھے ، جن میں ملالہ اور اس جیسی ہزاروں لڑکیاں زندگی بسر کر رہی تھیں۔ جبر کے اس ماحول میں اس نے اپنی زندگی کی روداد بیان کی ۔ بی بی سی کو ایسی ہی ایک لڑکی کے تاثرات کی ضرورت تھی ۔اس دور میں لکھی گئی بعض تحریروں پر بعد میں سوشل میڈیا پر بہت لے دے ہوئی ۔ تنقید کرنے والے یہ بھول گئے کہ یہ 11، 12برس کی ایک بچی کی تحریر ہے، جو داڑھی والوں کو سکول گراتے ، قتل و غارت کرتے اور اپنی آزادی سلب کرتے دیکھ رہی ہے ۔ خوف اور وحشت کی اس فضا میں ، جس سے وہ اور اس کے گھر والے دوچار تھے، ردّعمل اور نفرت نے اس کے اندر جنم لیا تھا۔ 9اکتوبر 2012ء کو سکول سے گھر لوٹتے ہوئے ملالہ یوسفزئی کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ظاہر ہے کہ حملہ آور قد کاٹھ میں اس سے کہیں بڑا تھا۔ عمودی رخ میں چلائی گئی گولی نے اس کے سر سے گردن تک کا سفر کیا ۔ سوشل میڈیا اس بات پہ متفق ہے کہ یہ سب ڈرامہ تھا۔ تب امریکی شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کر رہے تھے اور پاک فوج اسے ٹال رہی تھی ۔ایک شور اٹھا کہ یہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کی سازش ہے ؛اگرچہ ایسا نہ ہوا۔ شمالی وزیرستان امریکی ڈرون حملوں کا سب سے بڑا ہدف ہے ۔ اس علاقے میں حکومتی رٹ قائم ہی نہیںاور سرحد پار نقل و حرکت ہر وقت جاری رہتی ہے۔ آپریشن کی مخالفت کرنے والوں کو معلوم ہی نہیں کہ وہاں سوات طرز کا آپریشن پاکستان میں امن کے لیے بے حد مفید ہوگا۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ملالہ پر حملہ محض ایک ڈرامہ تھا تو مقصد کیا تھا؟ سوائے پاکستانی طالبان کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے اور کیا ہو سکتاہے اورپہلے کون ان سے محبت کرتا ہے؟ پھر یہ کہ زخمی ملالہ کو پاک فوج نے اپنے ہیلی کاپٹر میںپشاور کے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال منتقل کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی فوج اس معاملے میں دل و جان سے شریک تھی ؛حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور سی آئی اے سے اس کے تعلقات بار بار بنتے بگڑتے رہے ہیں ۔ ایسی ہم آہنگی موجود ہی نہیں کہ کوئی گھٹیا ڈرامہ رچانے کے لیے وہ پورا تعاون کرے ۔ اپنی تقریر میں ملالہ یوسفزئی نے تعلیم پر زور دیا۔یہ تعلیم اور تربیت ہی کا ثمر تھا کہ1400برس قبل عرب کے بے نام و نشان بدّو آسمان کی رفعتوں کو چھونے لگے تھے ۔ خود جبرائیل ؑ اللہ کے حکم سے پہلی بار نبی اکرمؐ کے پاس تشریف لائے تو فرمایا ۔ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون سے پڑھ اور تیرا رب بڑی ہی عزت والا ہے جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی انسان کو وہ سکھایا جو وہ جانتا نہ تھا پاکستان ہو ، افغانستان یا ایران ، نفاذِ اسلام کے مدعی یہ بھول جاتے ہیں کہ معاشرہ جبر نہیں ، تعلیم سے سنوارا جاتاہے ۔ یہ بھی کہ کسی خاص مکتبہء فکر کو اپنی سوچ پورے معاشرے پر مسلّط کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ خدا کو محبت درکار ہے اور ڈنڈے کے بل پر دلوں میں کبھی وہ پیدا نہیں ہو سکتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں